(ملک تنویر احمد)
آبادی کا سیل رواں اور مردم شماری
ان دنوں ہم مردم شماری کے مرحلے میں ہیں۔ یہ مردم شماری ہماری مستقبل کی منصوبہ بندی ، غذائی، پانی اور دوسری ضروریات کی تکمیل کے لئے ازحد ضروری ہے۔ یہ ہمیں بتلائے گی کہ آئندہ برسوں میں ہمیں کتنے نوالوں کیلئے غذا پیدا کرنی ہے، کتنے تن کپڑوں سے ڈھانپنے ہیں اور کتنے عمارتی ڈھانچے کھڑے کرنے ہیں کہ جہاں پر کروڑوں انسانی جسم گھر کے راحت و سکون سے فیض یاب ہو سکیں۔
اس مردم شماری کے ہنگام میں دو خبریں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دنوں پیو PEW ریسرچ کے ایک سروے کا بہت شورو غلغلہ ہے۔ اس ادارے کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق آئندہ چند عشروں میں اسلام کے عقید ے سے جڑے افراد عیسائیت اور دوسرے مذاہب پر یقین رکھنے والے افراد پر آبادی کے لحاظ سے بالا دستی حاصل کر لیں گے۔ لمحہ موجود میں عیسائی مذہب پر یقین رکھنے والے عددی اعتبار سے دنیا میں سبقت رکھتے ہیں جن کی تعداد کم و بیش دو ارب کے قریب ہے۔ ان کے بعد اسلام کے عقیدے سے جڑے ہوئے افراد ایک ارب او ر ساٹھ کروڑ کے قریب دنیا بھر میں موجود ہیں۔
اسلامی عقیدے کے حامل افراد میں انڈونیشیا کے بعد پاکستان کا عددی اعتبار سے نمبر آتا ہے جہاں کم و بیش بیس کروڑ افراد بستے ہیں جن میں سے نوے فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ موجودہ مردم شماری کچھ ماہ بعد ہماری اصل تعداد کے بارے میں ہمیں آگاہ کرے گی اسے اس وقت تک اٹھا رکھتے ہیں۔ اسی دوران پرویز ہود بھائی نے ’’رد تولید ‘‘ کے نام سے ایک انگریزی روزنامے میں کچھ ایسے حقائق پیش کر ڈالے ہیں کہ جو چشم کشا ہیں لیکن انگریزی زبان پر دسترس اس ملک میں چند فیصد افراد کو ہی ہے اس لئے وہ ہود بھائی کی اس فکر انگیز تحریر سے محروم رہے ہیں۔
آباد ی کے بم کے عنوان سے انہوں نے جن خطرناک حالات کی طرف نشاندہی کی ہے وہ شاید اس ملک کے حکمرانوں سے لے کر عام فرد تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ آبادی کا بڑھتا ہوا سیل رواں کس طرح معاشرے کی سماجی، معاشرتی اور اقتصادی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ ہمیں اس با ت سے چنداں اختلاف نہیں کہ لوگ کیوں دھڑا دھڑ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ بچے پیدا کریں لیکن کیا یہ بچے مسابقت کے اس دور میں اپنے آپ کو کس طرح اس مہارت اور توانائی سے مسلح کرے گی جو زندگی میں کامیابی کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا سیلاب جہاں محدود وسائل کو ہڑپ کر جائے گا تو دوسری جانب سماجی و معاشرتی طور پر پیچیدگیوں کو ہوا دے گا۔ ایک ایسا معاشرہ جو پہلے ہی سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر مجموعہ اضداد ہے ۔ جہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور محدود اقتصادی مواقع بہت سے مسائل کو جنم دے رہے ہیں وہاں پر دھڑا دھڑ بچوں کی پیدائش کس طرح ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی نوید میں ڈھل پائے گی اس کے لئے کوئی صاحب دانش و فکر رہنمائی کرے تو ان کی مہربانی ہو گی۔اگر پاکستان کی سطح سے اٹھ کر مسلم دنیا پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو ایک آنکھوں کے سامنے اندھیرے اور تاریکی کا نہ چھٹنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
مسلم سماج میں افزائش نسل کا بے مہار رجحان عددی اعتبار سے تو ہمیں دنیا بھر میں فوقیت دلا دے لیکن کیا اس کے مضمرات سے خود مسلم سماج آگا ہ ہے کہ جو بلا تکان اس شوق اور بڑی حد تک خبط میں مبتلا ہے کہ جب عددی اعتبار سے اسلام کے پیروکار دنیا میں بالا دستی حاصل کر لیں گے تو شاید مسلم نشاۃ ثانیہ کا صدیوں پرانا خواب حقیقت کا روپ دھار لے۔
ڈیڑھ سے دو ارب افراد پر مشتمل مسلمان دنیا اقتصادی و سماجی ترقی میں اتنی بڑی تعداد میں اپنا حصہ ڈالنے میں تو قاصر ہو ہاں۔۔ البتہ اپنے معاشروں میں سلگتی ہوئی فرقہ واریت، انتہا پسندی، جنونیت اور لو ٹ کھسوٹ کی جنگ میں بطور ایندھن وافر مقدار میں میسر ہو گی۔ ایسے معاشرے جہاں رجعت پسندوں قوتیں مذہبی جذبات کا استحصال کر کے اپنے مقاصد کی آبیاری میں طاق ہو چکی ہیں انہیں دانش، علم ، فہم اور سائنس و ٹیکنالوجی سے عاری کروڑں اربوں افراد راس آئیں گے۔ علم دوستی، علم پروری اور فروغ علم سے ہمارا تعلق ویسے بھی نحیف ہے اور جب کروڑں مزید اس میں شامل ہو جائیں گے تو شاید وہ شاخ ہی ٹوٹ جائے جو علم و دانش کے درخت سے جڑی ہوتی ہے۔
کروڑوں افراد جو دنیا کے پیداواری نظام سے کٹ کر اپنی دنیا کے خول میں بند ہو کر رہ جائیں تو پھر انتشار اور افراط و تفریط بعید ا ز قیاس نہیں ہے۔ہم بڑے عجیب لوگ ہیں کہ ہمیں کماؤ پوت اچھا لگتا ہے اور ناکارہ اور نکمی اولاد سے چڑ ہوتی ہے لیکن جب ایک بڑے کینوس پرہمیں ان قباحتوں کی کوئی فکر نہیں کہ جب کروڑوں جاہل اور علم و سائنس سے عاری افراد کس طرح معاشروں پر بوجھ بن کر انہیں بیچ منجدھار میں ڈبو دیتے ہیں۔
ہمیں ڈیڑھ ارب ہیں لیکن دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہیں لیکن یہودی ڈیڑھ کروڑ ہو کر دنیا پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔اب ایسے ڈیڑھ ارب سے زائد ناکارہ، نکمے اور نااہل لوگوں کے بارے میں لکھتے ہوئے کیونکر وہ گھسا پٹا لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے سے پوچھتا ہے کہ تم کتنے بھائی ہو؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ چار ۔’’اگر پانچ بھی ہوتے تو کیا اکھاڑ لیتے‘‘۔اگر ڈیڑھ ارب سے دو ارب بھی ہو گئے تو بقول حبیب جالب’’جہل کو نچوڑ ہیں۔ زندگی کا روگ ہیں‘‘۔