ڈاکٹر عرفان شہزاد
2 جون 2016 کو ثاقب اکبر صاحب کے علمی و تحقیقی ادارے البصیرہ میں مجلس بصیرت کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔ شرکا میں صدرِ مجلس ثاقب اکبر صاحب، مفتی امجد، راقم ڈاکٹر عرفان شہزاد، محترم محمد تہامی بشر علوی صاحب، اور دیگر شرکاء شریک تھے۔ بشر علوی صاحب کو ان کی کتاب، ‘ سماج، ریاست اور مذھبی اقلیتیں’ میں سے اسلام اور ریاست کے موضوع پر دعوتِ خطاب دی گئی۔
بشر علوی صاحب نے بیان کیا کہ تمام امور کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کچھ امور تو اصلاً مذھبی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور کچھ اصلاً دنیوی یا غیر مذھبی نوعیت کے؛ ان مین خط امتیاز آسان لفظوں میں یہ ہو گی کہ مذهبی امور وہ ہیں جن کی ضرورت صرف مذهب کو ماننے والوں کو ہی ہو گی اور غیر مذهبی یا دنیوی وہ جس کی ضرورت مذهبی غیر مذهبی سبهی انسانوں کو ہو گی۔ مثلاً عبادات خالصتاً مذھبی معاملہ ہے جو صرف ایک مسلمان سے متعلق ہے۔ لیکن لباس، کھانا پینا، ریاست، حکومت اپنی اصل میں اک دنیوی معاملہ ہے جو مسلمان اور غیر مسلم دونوں سے وابستہ ہے۔ جو معاملات مذھبی ہیں ان میں مسلمانوں کا حق بلا شرکتِ غیر ہے۔ جیسے مسجد کہ جس کے ملکیت، انتظام وغیرہ کا معاملہ مسلمانوں کی مذھبی ذمہ داری ہے، غیر مسلم کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ۔ لیکن جو معاملات اپنی اصل میں دنیوی ہیں اور مسلم غیر مسلم دونوں سے متعلق ہیں ان میں فرق یوں واقع ہوگا کہ مسلمان ان معاملات میں بھی دینی ہدایات کے پابند ہوں گے وہ اس دنیوی کام کی انجام دہی میں اس خالص مذهبی پابندی کا مطالبہ غیر مسلموں سے نہیں کر سکتے۔ مذهب کی انفرادی هدایات کی طرح اجتماعی هدایات بهی غیر مسلموں سے متعلق نہیں ہوں گی۔ مثلاً وہ لباس ، کھانے پینے، حلال وحرام معاملات میں کوئی ایسی پابندی اصلاسارے معاشرے پر نہیں لگا سکتے جو فقط مسلمانوں پر دینی لحاظ سے فرض ہو۔
ریاست کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ اصلاً دنیوی چیز ہے۔ یعنی اس کی ضرورت ایک غیر مسلم کو بهی اتنی ہی ہے جتنی کہ کسی مسلم کو۔ ریاست ایک جغرافیائی وحدت ہوتی ہے۔ اور اس پر اس کے تمام شہریوں کا حق مساوی ہوتا ہے۔ کسی ریاست کا اکثریتی گروہ ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکهتا کہ اقلیتی شہریوں کے اس مساوی حق کو ان سے چهین لے۔ چنانچہ اصولا حق حکومت میں تو سب مسلم اور غیر مسلم برابرکا حق رکهتے ہیں، تاہم عملا حکومت کرنے کا اختیاراسی کو ہو گا جس کو جمہورکی تائید حاصل ہو جائے۔ جمہور کی تائید کے علاوہ کا طریق حکومت اسلام مین کسی طرح روا نہیں رکها جا سکتا. قرآن کا کہنا ہے و امرھم شوریٰ بینھم۔ یعنی حکومت کی تشکیل نہ کسی خاندان کی ہو گی نہ کسی گروہ کی ہو گی اور نہ ہی کسی طاقت کی ہو گی یہ صرف اور صرف لوگوں کے مشورے سے طے پائے گی، جس کی جدید صورت ووٹ کی صورت میں وجود میں آ چکی ہے۔ اب اگر جمہور کی تائید سےمسلمانوں کو حق حکومت مل جاتا ہے تو مسلمانوں پر اسلام کے اجتماع سے متعلق احکامات اور قوانین پر عمل کرنا فرض ہوگا۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو فسق اور ظلم کے مرتکب ہوں گے ۔ البتہ ان شرعی قوانین اور احکامات کا اطلاق غیر مسلم پر نہیں ہوگا۔ ان کے لیے غیر مذهبی بنیادوں پر طے کردہ شخصی قوانین اور تعزیری قوانین ہوں گے۔
اسلام میں حکومت کرنے کا حق نہ کسی شخصِ واحد کو حاصل ہے، نہ کسی خاندان کو، نہ کسی ولایت فقیہ کو، اور نہ ہی طاقت کو، یہ صرف جمہور کا حق ہے۔ اب اگر جمہور بالفرض اسلام کے خلاف کسی حکم پر ایکا کر لیں تو بات انہیں کی مانی جائے گی اور ویسے بھی اقلیت کو یہ حق حاصل نہیں کہ اکثریت پر اپنا ایجنڈا نافذ کرے، جس طرح اکثریت کو یہ حق حاصل نہیں کہ اقلیت پر اپنا ایجنڈا نافذ کرے۔ یہی ایک اصول ہے جسے آئین میں یقینی بنایا جائے گا۔ لوگ سوچتے ہیں کہ آخر ریاست کے اسلامی ہونے میں مسئلہ کیا ہے؟ ریاست کسی نظریہ کی پابندی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی؟ نیوٹرل ریاست کا تصور دوکان
تو اچهی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نیوٹرل کا مطلب بس صرف اتنا ہے کہ وہ کسی شہری کی جانب دار نہیں سبهی شہریوں کا ریاست پر مساوی حق تسلیم کرتی ہے.”اسلامی ریاست” کے تصور پر نقد صرف اس لیے نہیں کہ یہ اک نظریے کے تحت کیوں ہے، اس لیے ہے کہ یہ نظریہ ریاست کے مسلم شہریوں کے علاوہ کو ریاست کا برابر کا شہری نہیں سمجهتا.ظاهر ہے جب ریاست کا آئین ہی مذهب ہو تو اس مذهب کو نہ ماننے والا گویا ریاست کے آئین کو نہ ماننے والا ہوا. اس طرح یک طرفہ طور پر کسی ایسے نظریے کو ریاست کا آئین بنا دینا کہ جس سے ریاست کے سبهی شہریوں کا اتفاق ممکن ہی نہ ہو اک نادرست عمل ہے. ریاست جیسی مشترکہ چیز کا آئین وہی ہو سکتا ہے جس سے ریاست کا ہر شہری وابستگی رکهہ سکے. لہذا جو نظریہ شہریوں کے ریاست پر بنیادی مساوی حق کی نفی پر منتج ہو اگرچہ کسی خوشگوار منطقی نتیجے کے تحت ہی سہی، تو وہ قابل رد ہی ہو گا. سو ریاست اسلامی نہیں قومی ہوتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست پر صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ریاست کے ہر فرد کا برابر حق ہوتا ہے. یہاں یہ وضاحت بهی تفہیم مدعا کی آسانی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے ہر فرد کی ریاست پر اور اسی طرح اسی ریاست کے جمہور کو اپنے مذهب کے اجتماعی نظم سے متعلق هدایات پر عمل کی مکمل آزادی ہو گی.سربراہ ریاست مسلم ہو تو بهی غیر مسلم ہو تو بهی. جمہور کیا اقلیت کو بهی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اگر کوئی نظم اجتماعی سے متعلق اپنی مذهبی هدایت رکهتے اور ان پر عمل کرنا چاہیں تو انہیں کرنے دیا جائے. اس موڑ پر سیکولر ازم کی راہیں مجھ سے جدا ہو جاتی ہیں جو سرے سے مذهب کو اجتماعی امور سے بے دخلی پر جبرتک روا رکهتا ہے.اس کارجبر میں سیکولرازم کا دلدادہ بهی کسی مذهبی کا برابر کا شریک ہے.اس قسم کے جبر کا کسی کو حق نہیں. اسلامی ریاست کے تصور کے زیر اثر یہ تصور پختہ ہو گیا کہ پاکستان اصلا مسلمانوں کا ملک ہے. انہوں نے اپنے ملک میں غیر مسلموں کو حقوق عنایت کر کے رہنے کی اجازت دے رکهی ہے. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست پر اس طرح کا کوئی استحقاق مذهب و عقل کی رو سے مسلمانوں کو حاصل نہیں. ریاست پر بلا تفریق مذهب ہے۔ سبھی شہریوں کا مشترکہ اور مساوی استحقاق
اس پر شرکا میں سے سوال کیا گیا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات کا نام ہے، تو ریاست اس سے باہر کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ مغالطہ ہے کہ اسلام کوئی مکمل نظام ہے۔ اسلام نظام بنا کر نہیں دیتا، اور نہ ہی یہ اس کا وظیفہ ہے۔ نظام تمدن و ضرورت کے مطابق انسان خود بناتا رہتا ہے۔ اسلام تو بس کسی نظام کو چلانے والوں کو چند اصولی ہدایات دیتا ہے اس کو مکمل نظام نہیں کہا جا سکتا۔
اس پر راقم نے عرض کیا ریاست اور حکومت کے حصول کا فرض ہونا اس پر کوئی نص موجود نہیں۔ اس کا جواز رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے نکالا جاتا ہے ۔کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے حکومت قائم کی اس لیے ہمیں بھی قائم کرنی چاہیے۔ یہ غلط استدلال ہے۔ رسول اللہ نے سماجی عوامل کے تحت ایک فطری طریقے پر حکومت قائم کی تهی ، کسی دینی حکم کی تعمیل میں نہیں. رسالت مآب کی سیرت کے مطالعہ میں ان کی سماجی حیثیت کو نظر انداز کر لینا غلط فہمیوں کا باعث بن جاتا ہے.بات بس اتنی ہے کہ جب سماجی طور پر آپ کسی حیثیت میں آ جائیں، حکمران ہی بن جائیں تو آپ پر اسلام کے اجتماعیت سے متعلق احکامات پر عمل کر نا فرض ہو جائے گا۔ یہ نہیں کہ وہ حالات بھی آپ پر برپا کرنا فرض ہو جائے گا جن سے رسول اللہ ﷺ گزرے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی سےجو احکامات شریعت کا حصہ بنے، ان کو خدا نے خود الگ سے بطورِ شریعت بیان کیا ہے۔ جن کو شرعی حیثیت سے بیان نہیں کیا ان کو شریعت نہ بنایا جائے۔ ان میں سے ایک حکومت حاصل کرنے کو دینی فریضہ سمجھنے کی غلط فہمی ہے۔
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ ملک کے پبلک لاء کو ماننا سب شہریوں پر فرض ہوتا ہے۔ تو حدود یعنی چور کا ہاتھ کاٹنا وغیرہ میں غیرمسلم کو استثناء کیسے دیا جاسکتا ہے۔ اس پر بشر علوی صاحب نے جواب دیا کہ حدود پبلک لاء میں اس طرح شامل کرنا غلط ہوگا۔ یہ خالص مذهبی قوانین ہیں، جو اس مذهب کے ماننے والون پر ہی نافذ ہو سکیں گے۔ ایسے جرائم کی سزا کے لیے ملکی قوانین الگ سے بنائے جائیں گے جن کی حیثیت پبلک لاء کی ہو گی اور اس کا نفاذ غیر مسلموں پر ہو گا.ملکی قوانین وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں، لیکن مذهبی قوانین غیر متبدل ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ۔
شرکاء نے کھل کر اختلاف بھی کیا لیکن باہمی احترام اور وقار کا رشتہ بہت عمدگی سے قائم رہا ۔ سوالات کا سلسلہ جاری تھا، لیکن وقت ختم ہو گیا۔ اور مجلس برخاست کر دی گئی۔ طے پایا کہ اگلا موضوع، کیا حکومت کا حصول دینی فریضہ ہے یا نہیں ہوگا ، جسے سید وقار حیدر پیش فرمائیں گے۔