(ترجمہ: ظہیر جاوید)
امریکی میڈیا پر ایران کے خلاف گفتگو کا سلسلہ 1990ء تک جاری رہا ، اس کے بعد جب سرد جنگ ختم ہو گئی تو ایران کے ساتھ ’’ اسلام ‘‘ کو بھی امریکا کے لیے بڑا بیرونی خطرہ قرار دے دیا گیا، ایران کو اس لیے دہشت گرد ریاست قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ جیسے گروپوں کی پشت پناہی کرتا ہے، حزب اللہ لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد قائم کی گئی تھی اور اس کا بنیادی مقصد جنوبی لبنان کے اس علاقے کو لڑ کر آزاد کرانا تھاجس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے ، اصل تکلیف اسی بات کی تھی اور اسی حوالے سے ایران پر دنیا میں بنیاد پرستی پھیلانے کا الزام عائد ہوا لیکن اس ملک کا خوف طاری ہونے کی وجہ مشرق وسطیٰ خاص طور پر خلیج میں امریکا کی بالا دستی کے خلاف اس کی نہ جھکنے والی مزاحمت بنتی ہے ، رابن رائٹ ، لاس اینجلس ٹائمز میں لکھتا ہے اور اس اخبار میں اسلام کا سب سے اہم ماہر ہے ، اس نے اپنے 26/ جنوری 1991 ء کے کالم میں لکھا ہے کہ امریکا اور مغرب کی دوسری حکومتوں کے کار پرداز ’’ اسلامی چیلنج‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی تک حکمت عملی کی تلاش میں ہیں ، انھوں نے بش انتظامیہ کے ایک سینئر افسر کا نام ظاہر کیے بغیر اپنے اس کالم میں بتایا کہ اس افسر کا اہنا ہے کہ ’’ تیس سے چالیس سال پہلے کمیونزم کے ساتھ جس ہوشیاری سے مقابلہ کیا گیا تھا ، اسلام سے مقابلے میں اس سے زیادہ ہوشیاری دکھانا ہوگی ‘‘ اس خاتون کا مضمون پانچ کالم پر مشتمل تھا اس میں مسلم ممالک کی ایک لمبی چوڑی فہرست کے متعلق یہ اشارہ تو کیا گیا تھا کہ انھیں آسان سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے مگر اس تبصرے میں تصویر صرف آیت اللہ خمینی کی لگائی گئی تھی ، مضمون نگار کی رائے میں آیت اللہ خمینی اور ایران دونوں کے اندر وہ تمام چیزیں موجود تھیں ، جن پر اسلام کے حوالے سے اعتراض کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی، مغربیت کی مخالفت کو ایران اور آیت اللہ خمینی سے جوڑتے ہوئے وہ لکھتی ہے کہ ’’ بڑی توحید پرست اقوام میں ایران واحد ملک ہے، جہاں نہ صرف سوسائٹی پر ایک ضابطے کے تحت حکومت کی جاتی ہے، بلکہ جہاں روحانی عقائد بھی منضبط ہیں ‘‘ اس تبصرے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ خود ایران کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ سوسائٹی کے لیے جو ضابطے نافذ ہیں ، وہ کیا ہیں اور اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ اسلام حقیقت میں کیا ہے ، رائٹ نے اس بحث کا ذکر بھی نہیں کیا، جس میں خمینی کی وراثت پر اعتراض ہو رہے ہیں ، اس کے نزدیک اتنا ہی کافی تھا کہ عالمی سطح پر امریکی جن امور کے متعلق فکر مند ہیں انھیں اسلام کے گرد لپیٹ دیا جائے ، یہ طرز عمل جہاں خود بڑا سنگین ہے وہاں کلنٹن انتظامیہ نے ایک ایسا قانون منظور کر کے اسے سنگین تر بنا دیا کہ جو ملک ایران کے ساتھ کاروبار کریں گے ، انھیں امریکا اپنے عتاب کا نشانہ بنائگا ، کاروبار سے متعلق امریکا کی یہ ممانعت لیبیا اور کیوبا کے لیے بھی تھی۔
وی ایس نائے پالنے اسلام سے عام دشمنی کو واضح کیا ہے اور اس کا یہ کردار دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ اس کا ایک مضمون نیوز ویک انٹرنیشنل میں 18/ اگست 1980ء کو شائع ہوا ہے ، اس میں اس نے بتایا ہے کہ وہ ’’ اسلام ‘‘ پر ایک کتاب لکھ رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ’’ بنیاد پرستی کا کو ئی عقلی جواز نہیں ہے ، اس لیے اس الزام کا ختم ہو جانا لازم ہے ‘‘ اس نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ خاص طور پر کس بنیاد پرستی کا ذکر کر رہا ہے اور اس کے ذہن میں کس نوعیت کا عقلی جواز ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اشارہ ایران کی طرف تھا لیکن یہ اشارہ بھی اس نے مبہم انداو میں کیا ہے ۔ اس نے شہنشاہیت کے خلاف تیسری دنیا میں اٹھنے والی لہر کا ذکر بھی بڑے مبہم انداز میں کیا ہے ، اس لہر کے متعلق نائے پال نے اپنے آپ میں ایک ایسی شدید مخالفت پال لی ہے کہ اس کے ناول ’’ خداپرستوں کے درمیان ایک سلامی سفر‘‘ میں اس عداوت کا واضح اظہار ملتا ہے ،’’ چھاپہ مار ‘‘ اور’’ دریا میں ایک موڑ‘‘ نائے پال کے تازہ ترین ناول ہیں ، ان میں اسلام کا خاکہ اڑایا گیا ہے ، نائے پال نے تیسری دنیا کے متعلق جن الزامات کو اپنے ناولوں کا عمومی حصہ بنایا ہے ، وہ آزاد مغرب کے قارئین میں بڑے مقبول ہیں ، ان الزامات کو ابھارنے کے لیے وہ چند بدچلن حکمرانوں کے کردار کو پوری نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے دور سے جوڑ کر پیش کرتا ہے اور افریقہ اور ایشیا میں عقل و دانش کی ناکامی کا تاثر قائم کرنے کے لیے وہ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مقامی سوسائٹیوں کی تعمیر کی کو ششوں کو مثال بناتا ہے ، نائے پال کا فلسفہ یہ ہے کہ مغربی ہند کے قابل رحم چھاپہ مار چاہے اپنی کارروائیوں کے لیے اسلام کا نام استعمال کریں ، چاہے افریقی غلاموں کی تجارت کا معاملہ ہو، ان سب میں اسلام ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے، نائے پال اور اس کے قارئین کے نزدیک ہر اس چیز کا الزام ’’ اسلام ‘‘ پر دھرا جا سکتا ہے جو مہذب مغربی دانش کے لیے انتہائی نا پسندیدہ ہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی جذبوں ، جائز مقصد کے لیے جدوجہد ، عام انسانی کمزوریوں ، سیاسی مقابلے اور مردوں ، عورتوں اور معاشروں کی تاریخ کے درمیان امتیاز کو اس وقت تک مردوں ، عورتوں اور معاشروں کی تاریخ کے تناظر میں نہیں پرکھا جاسکتا جب تک کہ ایران اور مسلم دنیا کے دوسرے حصوں میں رائج اسلام کی وضاحت ناول نگار ، رپورٹر ، پالیسی ساز اور ماہرین نہ کردیں ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ’’ اسلام ‘‘ نے مسلم دنیا کے تمام متنوع پہلوؤں کو اپنے اندر سمولیا ہے اور ان سے ایک ایسا جوہر تیار کر لیا ہے جو بد باطن اور ناقابل فہم ہے، مغرب نے اسلام کا تجزیہ کرنے اور اسے سمجھنے کے بجائے ، ’’ ہم بمقابلہ وہ ‘‘ کی انتہائی خام ترکیب اختیار کرلی ہے ، نتیجہ یہ کہ ایران یا مسلمان اپنے تصور انصاف ، مظلومیت کی اپنی تاریخ اور اپنے معاشروں کے متعلق جس نکتہ نظر کو بیان کرتے ہیں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ امریکا کے نزدیک اہم بات یہ بنتی ہے کہ اس وقت’’ اسلامی انقلاب‘‘ کے زیر اثر کیا ہو رہا ہے۔ کمیتہ نے کتنے لوگوں کو قتل کردیا ہے، آیت اللہ اسلام کے نام پر کتنے اشتعال انگیز احکامات صادر کرتا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جونز ٹاؤن کے قتل عام یا اوکلا ہو ما پر بمباری سے ہونے والی خوفناک تباہی یاانڈو چائنا کی بربادی کی ذمہ داری تو اس شدو مدکے ساتھ عیسائیت ، مغربی یا امریکی ثقافت پر عائد نہیں کی جاتی ، اس نوعیت کی ذمہ داریوں کے متعلق جو سوچ ابھاری گئی ہے اس سے اس نوعیت کے معاملات کی ذمہ داری صرف اسلام پر ہی عائد کی جاسکتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ سیاسی ، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی واقعات کو آسانی کے ساتھ اسلام کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے ؟ اسلام میں ایسا کیا ہے کہ جس سے بڑی جلدی اشتعال پیدا ہو جاتا ہے اور اس ردعمل کو کیوں لگام نہیں دی جاسکتی ؟ سوال یہ ہے کہ ’’ اسلام ‘‘ اور اسلامی دنیا کس طرح مغرب والوں کے لیے تیسری دنیا کے دوسرے ممالک سے اور سرد جنگ کے زمانے کے سوویت یونین سے مختلف ہے؟ یہ آسان سوال نہیں ہیں ، اس لیے ان میں سے ہر ایک کا جواب الگ الگ دینا ہو گا اور اس میں کئی دلائل آئیں گے اور کئی امتیازی صورتیں بنیں گی۔
بہت بڑی اور نہایت پیچیدہ حقیقتوں کو جو لیبل دیے جاتے ہیں وہ شرمناک حد تک غیر واضح ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ناگزیر بھی ہوتے ہیں اگر یہ بات درست ہے کہ ’’اسلام ‘‘ ایک ایسا لیبل ہے جس میں غلط سلط باتوں اور نظریات کی بھر مار کر دی گئی ہے تو یہ بات بھی درست ٹھہرتی ہے کہ ’’ مغرب‘‘ اور ’’عیسائیت‘‘ بھی ہنگامے کھڑے والوں میں سے ہیں ، ان ہر دولیبلوں اور ان جیسے دوسرے لیبلوں سے بیچ نکلنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے کیونکہ مسلمان اسلام کی اچھائی بیان کرتے ہیں ، عیسائی ، عیسائیت کی ، اہل مغرب اپنے مغرب کی ، یہودی ، یہودیت کی اور یہ سب دوسروں کے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں جو مدلل بھی ہوتی ہیں اور درست بھی معلوم ہوتی ہیں ، چنانچہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ لیبل نہ صرف موجود ہیں، بلکہ ثقافتی تاریخ کا ایک حصہ بھی بن چکے ہیں، اس لیے ان سے بچ نکلنے کی ترکیبیں تجویز کرنے کے بجائے ان کی مقصدیت پ غور کرنا زیادہ بہتر ہو گا، اس باب میں آگے چل کر میں ان لیبلوں کی تشریحات پر بات کروں گا جنھیں تشریح کرنے والے گروہوں نے اپنے دفاع اور ایک دوسرے کی مخالفت میں وضع کیا ہے ،ان لیبلوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ’’ اسلام ‘‘ ’’مغرب‘‘ اور ’’ عیسائیت’’ کے الفاظ کم از کم دو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہیں اور جب ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے ، ان سے کم از کم دو مختلف معنی پیدا ہوتے ہیں ، سب سے پہلے یہ الفاظ سادہ تعارف پیش کرتے ہیں ، مثلاجب ہم کہتے ہیں کہ خمینی ایک مسلمان ہیں یا پوپ جان پال دوم ایک عیسائی ہیں تو ہمارا یہ کہنا دوسری تمام باتوں کے بر خلاف ایک مختلف تعارف بن جاتا ہے اور اس سے ہم ایک مسلمان اور ایک عیسائی کے درمیان اسی طرح امتیاز کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم ایک سنگترے اور ایک سیب کے درمیان کرتے ہیں ۔ سنگترے اور سیب کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ یہ دو مختلف پھل ہیں اور مختلف قسم کے درختوں پر اگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ان لیبلوں کا دوسرا کام یہ ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ پیچیدہ معنی پیدا کریں ، جیسا کہ آج جب مغرب میں ’’ اسلام‘‘ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے ذہنوں میں فوری طور پر ، وہ ناگوار باتیں آجاتی ہیں ، جن کا میں ذکر کرتا آیا ہوں ، پھر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ’’ اسلام ‘‘ کے معنی وہی ہوں جو معنی کسی شخص نے براہ راست اور بامقصد طریقے سے اخذ کرلیے ہوں ، یہی بات ’’ مغرب‘‘ کے لیے بھی درست بیٹھتی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ غصے یا بڑے دعوے کے ساتھ ان لیبلوں کو استعمال کرنے والے کتنے لوگ ایسے ہیں جو مغربی روایات یا اسلامی فلسفہ قانون یا اسلامی دنیا کی حقیقی زبانوں کے تمام پہلوؤں کو سمجھتے اور ان پر پوری گرفت رکھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ بہت کم لوگ اس صلاحیت کے مالک ہیں، لیکن یہ کم علمی لوگوں کو پورے اعتماد کے ساتھ ’’ اسلام ‘‘ اور ’’ مغرب ‘‘ کا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتی اور نہ ان کو اس طرف لاتی ہے کہ وہ سوچیں کہ وہ کیا بات کررہے ہیں ۔
یہ وجوہ ان لیبلوں کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کو لازم قرار دیتی ہیں ، کیونکہ ایک مسلمان جو ’’ مغرب ‘‘کے متعلق بات کرتا ہے یا ایک امریکی جو ’’ اسلام ‘‘ کی بات کرتا ہے اس کے لیے دور تک پھیلی ہوئی عمومی باتیں اپنے اندر وہ پوری تاریخ رکھتی ہیں جو انھیں بیک وقت متحرک بھی کرتی ہے اور غیر متحرک بھی بنا دیتی ہے ، یہ لیبل نظریات کے سانچے میں بھی ڈھلے ہوئے ہیں پھر انھیں بڑے طاقتور جذبات وجود میں لائے ہیں، اس لیے ان میں نئے واقعات ، اطلاعات اور حقائق سے مطابقت کرنے کی صلاحیت ہے ، اس وقت ’’ اسلام ‘‘ اور ’’ مغرب‘‘ نے ہر جگہ ایک نئی ہنگامی صورت اختیار کرلی ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس بات کو جان لینا چاہیے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت نہیں بلکہ مغرب ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ ایسا اس لیے ہے کہ ’’ مغرب‘‘ جہاں عیسائیت سے بڑا ہے ، وہاں یہ اپنے بنیادی مذہب عیسائیت سے بہت آگے نکل چکا ہے جبکہ مختلف قسم کے معاشروں ، مختلف تاریخ رکھنے والے ممالک اور مختلف زبانوں سے تشکیل پانے والی اسلامی دنیا ابھی تک مذہب ، قدامت پرستی اور پسماندگی میں ٹوبی ہوئی ہے، اس لیے مغرب ماڈرن ہے، اپنے مختلف حصوں کے خیالات کے مجموعے سے بڑا ہے، اس میں ایسے تضادات بھرے پڑے ہیں جو سوچ کے کئی دروازے کھول دیتے ہین اس کے باوجود اس کی ثقافتی شناخت’’مغرب‘‘ سے ، دوسری طرف اسلامی دنیا ’’اسلام‘‘ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے ، جس طرح مغرب میں تضادات اور مختلف نوعیت کے تجربات بکثرت ملتے ہیں اسی طرح تضادات اور مختلف نوعیت کے تجربات اسلامی دنیا میں سر اٹھاتے ہیں مگر اسلام دنیا کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ان تضادات اور تجربات کے نتائج کو گھٹا کر ان کے وجود کو اتنا مختصر کیا جاسکتا ہے کہ برائے نام رہ جاتے ہیں۔