محمد مبشرنذیر
موجودہ دور کو اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کا دور کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ میڈیا کے فروغ کے سبب مصنوعات کی تشہیر یا ایڈورٹائزنگ (Advertising) ایک ایسی صنعت کا درجہ اختیار کرگئی ہے جو انتہا درجے کی منافع بخش ہے۔ ہر بڑی کمپنی اس مد میں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرتی ہے اور اس کے ذریعے اپنی مصنوعات کی سیل بڑھانے کا کام لیا جاتا ہے۔ کیا دین اسلام نے ہمیں اس معاملے میں بھی کوئی رہنمائی دی ہے؟ کیا ایڈورٹائزنگ کا شعبہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے؟ موجودہ ایڈورٹائزنگ میں اخلاقی و شرعی نقطہ نظر سے کیا کیا قباحتیں پائی جاتی ہیں؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ہم کچھ تفصیل سے ایڈورٹائزنگ کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کی نوعیت اور تفصیلات کو سمجھ کر اس پر اخلاقی نقطہ نظر سے بحث کرسکیں۔
اردو میں ایڈورٹائزنگ کے لئے ’’تشہیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ لفظ اتنی وسعت نہیں رکھتا جس قدر اس کا ہم معنی انگریزی لفظ رکھتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے وسیع تر مفہوم میں اپنی مصنوعات (Products) کو شہرت دینا، ان کی سیل میں اضافہ کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں اپنے برانڈ کے بارے میں مثبت رائے کو فروغ دینا، لوگوں کو اپنا برانڈ خریدنے پر آمادہ کرنا اور اسی سے متعلق تمام لوازمات شامل ہیں۔
بنیادی طور پر ایڈورٹائزنگ کے دو پہلو ہیں: ان میں سے ایک تھیم (Theme) اور دوسری سکیم (Scheme) کہلاتی ہے۔ نت نئے آئیڈیاز کے ذریعے اشتہارات کی تیاری ، میڈیا کے ذریعے ان کے پھیلاؤ، ان کے ذریعے عوام الناس کے ذہنوں پر مخصوص اثرات مرتب کرنا اور اس طرح اپنے برانڈ کی سیل میں اضافہ کرنا تھیم کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی پراڈکٹ کے بارے میں کوئی ایسی سکیم نکالی جاتی ہے جس کے نتیجے میں سیل میں اضافہ ہو۔ ان کی مثالوں میں مختلف طرز کی انعامی سکیمیں، تین پیک خریدنے پر ایک مفت، ایک پیک خریدنے پر کوئی اور چیز بطور تحفہ ساتھ دینا اور اسی طرز کی اور سکیمیں شامل ہیں۔
ایڈورٹائزنگ کا مکمل انحصار برانڈ (Brand) پر ہوتا ہے۔ برانڈ سے مراد کسی مخصوص کمپنی کی تیار کردہ پراڈکٹ کا نام ہوتا ہے۔ ہر چیز اپنے نام ہی سے پہچانی جاتی ہے اور اسی نام سے متعلق مثبت یا منفی تصورات قائم کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مارکیٹنگ کمپنیاں اپنی ہر پراڈکٹ کو ایک مخصوص نام دیتی ہے اور ہر اشتہار کا مقصد اسی نام کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ تمام پراڈکٹس بنیادی طور پر دو اقسام کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو اشیائے صرف (Consumer Goods) کہلاتی ہیں اور دوسری اشیائے پیداوار یعنی (Industrial Goods) کہلاتی ہیں۔ پہلی قسم کی اشیاء کے خریدار عام لوگ ہوتے ہیں جبکہ دوسری قسم کی اشیاء کے خریدار بڑی بڑی صنعتیں اور کاروبار ہوتے ہیں۔ عام طور پر ماس میڈیا کو پہلی قسم کی اشیاء کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ صنعتی اشیاء کی فروخت کے لئے ذاتی رابطوں اور کاروباری تعلقات فروغ دیا جاتا ہے۔
ایڈوٹائزنگ کے مقاصد دو طرح کے ہوتے ہیں: ان میں سے ایک تو اس کے طویل المیعاد مقاصد (Long-Term Objectives) ہوتے ہیں جن کا تعلق طویل عرصے سے ہوتا ہے۔ ان میں طویل عرصے میں اپنے برانڈ کی مارکیٹ ویلیو میں اضافہ کرنا، زیادہ سے زیادہ مارکیٹ شیئرحاصل کرنااور اگر یہ پراڈکٹ بالکل ہی نئی ہو تو اس کے بارے میں لوگوں میں آگاہی (Awareness) پیدا کرنا شامل ہے۔ قلیل المیعاد مقاصد (Short-Term Objectives) میں ایک محدود مدت میں اپنی پراڈکٹ کی سیل میں اضافہ اور اس سے متعلق مخصوص ٹارگٹ کو پورا کرنا شامل ہے۔
ایڈورٹائزنگ میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک الیکٹرانک میڈیا، دوسری پرنٹ میڈیا اور تیسری آؤٹ ڈور میڈیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں سب سے نمایاں ٹیلی ویژن ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ریڈیو، سینما اور انٹرنیٹ بھی شامل ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں اخبارات اور جرائد شامل ہیں۔ آؤٹ ڈور میڈیا میں شاہراہوں اور پبلک مقامات پر لگے ہوئے چھوٹے بڑے سائن بورڈز، ہورڈنگز ، پینا فلیکس، نیون سائنز اور بل بورڈز شامل ہیں۔
اب سے تیس چالیس برس پہلے ریڈیو اور سینما سب سے طاقتور میڈیا سمجھے جاتے تھے لیکن اب ان کی جگہ ٹی وی نے لے لی ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹی وی اور اخبارات اپنے دور عروج سے گزر رہے ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں انٹر نیٹ اور آؤٹ ڈور میڈیا نے بہت زیادہ ترقی کی ہے تاہم ان کے اثرات اور ایڈورٹائزنگ کے ریٹس ٹی وی اور اخبارات کی نسبت کم ہیں۔
ایڈورٹائزنگ کا طریق کار یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ ہم عوام الناس کے ذہنوں میں اپنے برانڈ کا کیا امیج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مارکیٹ میں اس وقت مقابل برانڈز کی کیا صورتحال ہے اور ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اپنے اہداف کا تعین کرنے کے بعد اس امیج کو قائم کرنے کے لئے مناسب آئیڈیاز سوچے جاتے ہیں اور ان سے جو آئیڈیا زیادہ مناسب اور اچھا لگے اس پر اشتہارات تیار کئے جاتے ہیں۔ ٹی وی کے لئے تین جہتوں والی (Three-Dimensional) اشتہاری فلمیں، اخبارات کے لئے شائع ہونے کے قابل دو جہتوں والے (Two-Dimensional) اشتہارات، انٹرنیٹ کے لئے ویب سائٹس اور آؤٹ ڈور میڈیا کے ڈیزائن شامل ہیں۔ اس کے بعد ٹی وی پر ان اشتہارات کا وقت بک کیا جاتا ہے جسے ایئر ٹائم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات کے لئے جگہ، مختلف ویب سائٹس پر جگہ یا بینر اور مختلف جگہوں پر لگے ہوئے سائن بورڈز وغیرہ کو ایک مخصوص تاریخ یا مدت کے لئے خریدا جاتا ہے۔
ایسے اوقات جن میں ٹی وی زیادہ دیکھا جارہا ہو، ایسی تاریخیں جن میں اخبارات زیادہ تعداد میں شائع ہوتے ہوں، ایسی ویب سائٹس جن پر لوگ زیادہ تعداد میں وزٹ کرتے ہوں اور ایسے آؤٹ ڈور سائٹس جنہیں لوگ بہت زیادہ دیکھتے ہوں کے ریٹس بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر اشتہار آنے کے بعد اس اشتہار کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ریسرچ کی جاتی ہے اور عوام الناس میں سروے کر کے اس اشتہاری مہم کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں نئی اشتہاری مہم (Advertising Campaign) کی تیاری کی جاتی ہے۔ مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایڈورٹائزنگ پراسیس دراصل کاروباری مقاصد کی تکمیل کے لئے نت نئے آئیڈیاز کی تخلیق، ان کے مطابق اشتہارات کی تیاری، ان اشتہارات کو میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانااور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے مارکیٹ ریسرچ پر مشتمل ہے۔
جہاں تک بذات خود ایڈورٹائزنگ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں اسلام کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے کی مرضی سے اسے کوئی اپنی کوئی بھی چیز فروخت کرے۔ قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ۔ (النساء 4:29) ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ یہ تمہاری مرضی کی تجارت ہو۔‘‘
کسی کو بھی اپنی تیار کردہ اشیاء فروخت کرنے کے لئے اسے ان کے بارے میں آگاہ بھی کیا جاسکتا ہے، اسے ان کو خریدنے کے بارے میں ترغیب بھی دی جاسکتی ہے اور اس کے فوائد بھی بتائے جاسکتے ہیں۔ یہ کام دور قدیم کی طرح بازار میں کھڑے ہوکر آواز لگانے سے بھی ہوسکتا ہے اور دور جدید کی طرح میڈیا کے ذریعے بھی۔ ایڈورٹائزنگ کی اس عام اجازت کے باوجود دور جدید کی ایڈورٹائزنگ میں بعض ایسے عوامل بھی داخل ہوگئے ہیں جو اخلاقی اعتبار سے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
جیسا کہ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ ایڈورٹائزنگ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنی پراڈکٹ یا برانڈ کے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کردی جائے اور انہیں اس کے فوائد بتا کر عقلی طور پر اس بات پر قائل کیا جائے کو وہ ان پراڈکٹس کو خرید لیں۔
ہمارے معاشرے میں اپنی پراڈکٹس کے فوائد بتلا کر ان کو خریدنے کی ترغیب پیدا کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ لوگ اپنی عقل و دانش کے تحت تجزیہ کر کے نہیں بلکہ اپنے جذبات کے ہاتھوں ان پراڈکٹس کو خریدنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر برانڈ کو کسی مخصوص جذبے مثلاً دوستی، عشق و محبت ، مامتا، اپنائیت، ذہنی سکون، ایڈونچر حتی کہ جنسی خواہش کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے۔ جن افراد میں یہ جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں، اشتہارات ان کے انہی جذبوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں اور اس کے ذریعے انہیں اپنا برانڈ خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان اشتہارات کو بار بار دکھا کر ، انہیں میوزک اورنغموں (Jingles) کے ذریعے ذہنوں میں اتار کر، اور ان میں نت نئی ورائٹی پیدا کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنا کر ان جذبات کی شدت میں اور اضافہ کیا جاتا ہے۔
اخلاقی اعتبار سے اس طرز عمل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسا تو ہوسکتا ہے کہ اپنی پراڈکٹس کے حقیقی فوائد بتا کر عقل و دانش کا اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ کسی مثبت جذبے کو تقویت دی جائے۔ مثلاً شیر خوار بچوں سے متعلق پراڈکٹس کی تشہیر میں مامتا کے جذبات، نوجوانوں کی پراڈکٹس کے اشتہارات میں ایڈونچر اور شجاعت کے جذبات، گھریلو قسم کی اشیاء کے بارے میں اپنائیت کے جذبات وغیرہ کو تو ایک مناسب حد تک اپیل کیا جاسکتا ہے لیکن غصے، نفرت، تشدد اور جنسی خواہش کے جذبات کو ابھارنا کسی بھی معاشرے کی اخلاقیات میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اشتہارات پر پابندی ہے جن میں منفی جذبات کو تقویت دی گئی ہو۔ قرآن مجید کی اوپر بیان کردہ آیت میں ‘الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم’ کے الفاظ تجارت کے جواز میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ تجارت میں دونوں فریقوں کی آزادانہ مرضی سے ہو۔ ایسانہ ہو کہ کسی ایک فریق نے دوسرے کو اس کے حقیقی فوائد کے خلاف مجبور کرکے سودے میں شامل کیا ہو۔ جذباتی اشتہارات میں عموماً ناظرین کو اپنے جذبات کے سحر میں اس حد تک مسمرائز کر دیا جاتا ہے کہ وہ اس پراڈکٹ کو خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بے حیائی
ہمارے ہاں الیکٹرانک، پرنٹ اور آؤٹ ڈور میڈیا کے اشتہارات میں جس جذبے کو سب سے زیادہ تقویت دی جارہی ہے وہ جنسی جذبہ ہے۔ ان اشتہارات میں جس طریقے سے نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف لگایا جارہا ہے، وہ ہر معقول انسان کے نزدیک قابل مذمت ہے۔ ایسے اشتہارات تخلیق کرنے والے بالعموم مادر پدر آزاد اور دینی احکام سے لاپرواہ و بے خبر ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی فرد اپنی زندگی میں قرآن و سنت میں پیش کردہ احکام کو اہمیت دیتا ہو، اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اور اسے اس دنیا کی چند سالہ زندگی کے بعد آخرت کی لامحدود سالوں پر مشتمل زندگی کی پرواہ بھی ہو تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ بے حیائی پھیلانے سے ہمیں ہمارے دین نے منع کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی ایڈورٹائزنگ کا ایک اور منفی پہلو اپنی پراڈکٹس کے بارے میں جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لینا بھی ہے۔ بعض اشتہارات میں اپنی پراڈکٹ کی ایسی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ اس پراڈکٹ کی خامیوں کو بھی چھپایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کے مطابق کسی مسلمان تاجر کے لئے یہ بات روا نہیں ہے کہ وہ اپنی چیز کے عیب چھپائے۔
آپ کا یہ ارشاد ایک طرف تو صارف (Consumer) کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے اور دوسری طرف تاجروں کے لئے بھی مفید ہے۔ جھوٹ بول کر اور عیب چھپا کر کوئی ایک مرتبہ تو اپنی پراڈکٹ بیچ لے گا لیکن اس کے بعد کوئی اس پر اعتماد نہ کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی اچھی کمپنیاں اپنے کاروباری اصولوں (Code of Business Principles) میں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہمارے کسی برانڈ کے نام پر کوئی خراب پراڈکٹ گاہک تک نہ پہنچنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی کوئی پراڈکٹ کسی دکاندار (Retailer) کے پاس بھی خراب ہوجائے تو وہ اسے وہاں سے اپنے خرچ پر اٹھا کر ان کے بدلے صحیح اشیاء دکاندار کو فراہم کرتی ہیں تاکہ ان کے برانڈ کا امیج خراب نہ ہو۔ ہمارے اخلاقی انحطاط کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برعکس ہماری مقامی کمپنیاں اس دروغ گوئی اور عیب چھپانے میں زیادہ ملوث ہیں۔
بعض ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن کے زیادہ استعمال سے انسان کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس کی مثال سگریٹ اور بہت سی ادویات ہیں۔ ایسی اشیاء کی ایڈورٹائزنگ بھی درست نہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں بہت سے انسانوں کو نقصان پہنچنے کا غالب اندیشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسی اشیاء کی ایڈورٹائزنگ پر پابندی عائد ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی حال ہی میں سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بہت سی اشیاء و خدمات ایسی بھی ہیں جن کے بغیر بھی انسان کی زندگی بڑے آرام سے گزر جاتی ہے۔ ان کا استعمال محض لطف اٹھانے اور عیش پرستی کے لئے ہوتا ہے۔ علم معاشیات میں ان اشیاء و خدمات کو تعیشات یا (Luxuries) کہا جاتا ہے۔جب ایسی اشیاء کی ایڈورٹائزنگ کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں عوام الناس میں اس کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بھی اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے دولت کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دنیا پرستی ، دولت کی ہوس اور ایک دوسرے سے معاشی مقابلے کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس میں بلاشبہ ایڈورٹائزنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی خواہش پوری نہ کرسکے تو وہ مستقلاً مایوسی (Frustration) ، بے چارگی اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے نفسیاتی اور عمرانی مسائل جنم لیتے ہیں۔
راقم الحروف کو کئی مرتبہ سندھ ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کے دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا ہے جہاں ابھی تک بجلی بھی نہیں پہنچ سکی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انتہا درجے کی غربت کے باوجود میڈیا سے عدم واقفیت کی وجہ سے ان لوگوں کے ہاں جو ذہنی سکون پایا جاتا ہے، اس سے شہروں کے رہنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ محروم ہیں۔ مجھے اسی طرز کا ایک مشاہدہ ملک کی ایک مشہور آئس کریم بنانے والی کمپنی میں ملازمت کے دوران ہوا۔
آئس کریم کے بارے میں بین الاقوامی سطح پریہ اصول تسلیم کیا جاتا ہے کہ اگر یہ کسی وجہ سے پگھل جائے اور دوبارہ جم جائے تو یہ کھانے کے قابل نہیں رہتی کیونکہ اسے کھانے سے فوڈ پوائزن اور دیگر امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی آئس کریم کو خراب آئس کریم (Damaged Ice Cream) کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آئس کریم بنانے والی اچھی کمپنیاں ایسی آئس کریم کو فروخت نہیں کرتیں بلکہ اسے جلا کر ضائع کردیتی ہیں۔ ایک مرتبہ کمپنی کے ایک ڈسٹری بیوٹر کے کولڈ روم کے ایک ملازم نے غلطی سے ایسی آئس کریم کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہاں کچرا اٹھانے والے بچوں کا ہجوم ہوگیا جو اسے کچرے سے اٹھا کر کھا رہے تھے۔ لازماً ان بچوں نے کسی ہوٹل وغیرہ میں ٹی وی پر اس آئس کریم کے اشتہار دیکھے ہوں گے یا پھر وہ آؤٹ ڈور میڈیا کے ذریعے کمپنی کی اشتہاری مہم سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ ان بے چاروں کے مالی وسائل اتنے نہیں ہوں گے جس سے وہ آئس کریم کا سستا ترین پیک خرید سکیں چنانچہ انہوں نے جب کچرے کے ڈھیر بہت بڑی مقدار میں آئس کریم پڑی دیکھی تو اس پر ٹوٹ پڑے۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ غربت کو ختم نہیں کرسکتی تو ایسی اشیاء و خدمات کی ایڈورٹائزنگ پر کچھ پابندیاں عائد کرے جس سے معاشرے کے غریب طبقات میں فرسٹریشن پیدا ہورہی ہو۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کر رہی ہو تو ان کمپنیوں کو، جو اپنے کاروبار میں اخلاقی اصولوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں، کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ کمپنیاں اس قسم کے اقدامات کر سکتی ہیں کہ اشیاء کے اتنے چھوٹے چھوٹے پیک (SKU) لائیں جنہیں غریب سے غریب آدمی بھی خرید کر اپنی خواہش کو مٹا سکے۔
اسی طرح جن اشیاء و خدمات کو کسی صورت میں بھی کم قیمت پر پیش نہ کیا جاسکتا ہو، ان سے متعلق اشتہارات کو امیر اور متوسط طبقے کے علاقوں ہی میں نشر کیا جائے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا کرنا عین ممکن ہے۔ اس طرح اس مایوسی اور احساس کمتری کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکے گا۔
اسراف
ایڈورٹائزنگ کا ایک اور اہم منفی پہلو اسراف اور فضول خرچی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسراف سے بچنے کو اہل ایمان کی صفت قرار دیا ہے: وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَاماً۔ (الفرقان 25:47) ’’یہ وہی لوگ ہیں جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی۔ یہ ان دونوں کے درمیان اعتدال سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
ہمارے یہاں ایڈورٹائزنگ پر ہر بڑی کمپنی سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ پاکستان میں چھوٹے سے دورانئے کی اشتہاری فلم بنانے پر تین سے لے کر دس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ دورانیہ عموماً پندرہ بیس سیکنڈ سے لے کر چالیس پچاس سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر اسی فلم کی شوٹنگ اور دیگر کام بیرون ملک سے کروائے جائیں تو اس پر ساٹھ ستر لاکھ سے لے کر دو تین کروڑ روپے تک کی لاگت بھی آجاتی ہے۔ اس رقم میں بڑا حصہ ماڈلز ، ڈائرکٹرز اور دیگر افراد کا معاوضہ، فلم کی تیاری میں استعمال ہونے والے ساز و سامان (Equipment) کا کرایہ، فلم کو ایڈٹ کرنے کے اخراجات اور دیگر کئی امور شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک ہونے والی شوٹنگ میں آمد و رفت اور بیرون ملک بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرنے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
ایک اشتہارکے ایئر ٹائم کو خریدنے کے لئے اوسطاً ایک ہزار روپے فی سیکنڈ کی شرح سے ٹیلیوژن کمپنیوں کو ادائیگی کی جاتی ہے ۔ ان تمام اللّوں تللّوں پر جو اخراجات آتے ہیں، وہ اشیاء کی قیمتوں میں شامل کرکے عوام ہی سے وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر ہے کہ ان تمام اخراجات میں کمپنیوں اور ان کی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے افسران اور ماڈلز کی عیاشیوں کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔عوام کی جیب پر بوجھ ڈال کر اس قدر اسراف کو کسی طرح بھی مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر مختلف کمپنیوں کے عہدے دار ان اخراجات کو کم کرنا چاہیں تو اس میں فی الواقع بڑی حد تک کمی کی جاسکتی ہے۔
ایڈورٹائزنگ کے لئے چلائی جانے والی سکیموں (Promotional Schemes) پر بھی اخلاقی نقطہ نظر سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں چلنے والی یہ سکیمیں کئی اقسام کی ہیں۔ ان میں سے چند عام استعمال ہونے والی سکیمیں یہ ہیں ، باقی سکیمیں انہی کی تبدیل شدہ شکلیں ہوتی ہیں:
کسی پراڈکٹ کی ایک خاص مقدار میں خریداری پر کوئی اور چیز یا اسی پراڈکٹ کا ایک چھوٹا پیک بطور انعام دیا جاتا ہے۔
کسی پراڈکٹ کے ساتھ کوئی سوال رکھ دیا جاتا ہے جس کے درست جواب پر انعام دیا جاتا ہے۔
ایک خاص مقدار میں اس پراڈکٹ کو خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت میں رعایت (Discount) کی جاتی ہے۔
بعض پراڈکٹس کے ساتھ کوئی بڑی رقم یا قیمتی چیز مثلاً کار، جیولری وغیرہ بطور انعام رکھی جاتی ہے۔ اس پراڈکٹ کے ساتھ انعامی کوپن دیا جاتا ہے اور پھر یہ انعام بذریعہ قرعہ اندازی کسی ایک یا زائد کوپن کے حامل افراد کو ادا کردیا جاتا ہے۔
ان میں سے پہلی تین صورتوں کو اگر دیکھا جائے تو ان میں شرعی و اخلاقی لحاظ سے کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ کی قیمت کم کردے، یا اس کے ساتھ کوئی انعام کسی کو پیش کردے۔ صرف چوتھی صورت کے بارے میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جوا ہے جس سے دین اسلام نے منع فرمایا ہے۔اس نقطہ نظر کا تفصیل سے جائزہ لینے کے لئے ہمارے لئے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ قمار، میسر یا جوا کس چیز کا نام ہے جس سے قرآن مجید نے منع فرمایا ہے۔ ہمارے قدیم اہل علم نے قمار کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے:
’’ہر وہ کھیل قمار یا جوا ہے جس میں یہ شرط ہو کہ مغلوب کی کوئی چیز غالب کو دی جائے گی ۔ ‘‘ (میر سید شریف جرجانی م 816ھ، کتاب التعریفات ص 77، مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ مصر، الطبقۃ الاولیٰ 1306ھ)
’’قمار، قمر سے ماخوذ ہے جو کبھی کم بھی ہوتا ہے اور کبھی زیادہ۔ جوئے کو قمار اسی لئے کہتے ہیں کہ جوا کھیلنے والوں میں سے ہر ایک اپنا مال اپنے ساتھی کو دینے اور اپنے ساتھی کا مال لینے کو درست سمجھتا ہے اور یہ نص قرآن سے حرام ہے۔ اگر صرف ایک ہی جانب سے شرط لگائی جائے تو یہ حرام نہیں بلکہ جائز ہے۔‘‘ (ابن عابدین شامی م 1252ھ، رد المحتار ج 5 ص 355، مطبوعہ مطبعہ عثمانیہ استنبول، 1327ھ)
’’گھڑ دوڑ، شتر سواری، پیدل چلنے اور تیر اندازی میں مقابلہ کرنا جائز ہے اور دونوں جانب سے شرط رکھنا حرام ہے البتہ ایک جانب سے شرط رکھنا حرام نہیں ہے۔ ‘‘ (احمد بن محمود نسفی م 710ھ، کنز الدقائق ص 630، مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
اسی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ذیلعی لکھتے ہیں:
‘‘ دونوں جانب سے شرط رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ایک شخص کہے کہ اگر (ریس میں )تمہارا گھوڑا جیت گیا تو میں تمہیں اتنے پیسے دوں گا اور اگر میرا گھوڑا جیت گیا تو تم مجھے اتنے پیسے دو گے۔ یہ جوا ہے اور کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اگر شرط ایک جانب سے ہو مثلاً کوئی شخص کہے کہ اگر تم مجھ سے آگے نکل گئے تو میں اتنے پیسے دوں گا اور اگر میں آگے نکل گیا تو تم مجھے کچھ نہ دو گے ۔‘‘ (عثمان بن علی ذیلعی م 763ھ، تبیین الحقائق ج 6، ص 227 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان بحوالہ شرح مسلم از غلام رسول سعیدی)
ایک جانب سے شرط رکھنے کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ دوڑ کا ایک مقابلہ کروایا اور اس میں جیتنے والے کو انعام دیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک جانب سے شرط رکھنا جوا نہیں ہے۔ اس اصول کے تحت ریفل ٹکٹ تو جوا ہونے کے سبب ناجائز ہیں لیکن انعامی بانڈ جوا نہیں ہیں کیونکہ اول الذکر میں اگر انعام نہ ملے تو ٹکٹ کی رقم ضائع ہوجاتی ہے جبکہ انعامی بانڈ میں اصل رقم ضائع نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی وقت بانڈ کو فروخت کرکے یہ رقم واپس حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو اہل علم انعامی بانڈ کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ اسے جوئے کے سبب نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات کی بنیاد پر ناجائز قرار دیتے ہیں جن کی تفصیل اس تحریر کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف پراڈکٹس پر پیش کی جانے والی انعامی سکیموں میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ ان اشیاء کو خریدنے میں خریدار جو رقم خرچ کر رہاہوتا ہے وہ اس پراڈکٹ کے بدلے ہی ہوتی ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی جو انعام دیا جاتا ہے وہ کمپنی اپنی طرف سے بطور تحفہ دیتی ہے۔
بعض اوقات ایسی سکیمیں بھی نکالی جاتی ہیں، جن میں چیز کی قیمت سے زیادہ قیمت طلب کی جاتی ہے اور اس میں انعام نکلنے کی امید بھی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک چیز کی اصل قیمت بیس روپے ہے۔ سکیم کے دوران اس کی قیمت تیس روپے کر دی جاتی ہے اور ساتھ ہی قرعہ اندازی کے ذریعے انعام بھی دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت واضح طور پر جوئے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اگر انعام نہ نکلے تو خریدار کے دس روپے ضائع جاتے ہیں۔ عام طور پر اچھی کمپنیاں اس قسم کی سکیمیں نہیں نکالتیں بلکہ اس طریقے سے گھٹیا قسم کی پراڈکٹس بیچی جاتی ہیں۔ ان میں یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بیچنے والا ادارہ اپنی پراڈکٹ کو بیچ کر منافع نہیں کمانا چاہتا بلکہ ریفل ٹکٹ کے سے انداز میں رقم اکٹھی کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس قسم کے کاموں میں بعض رفاہی ادارے بھی شامل ہو جاتے ہیں حالانکہ رفاہ عامہ کے نیک کام صرف اور صرف حلال آمدنی ہی سے کرنے چاہئیں۔