(شیخ محمد ہاشم)
جناب عالی! ہم عوام کا اس خط کولکھنے کا مقصد بہت سادہ ہے، ہمیں لگتا ہے کہ ریاست کی عملداری خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ ریاست اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف سفر کرتی نظر آرہی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں جو سمجھ سے بالا تر ہیں، ملکی بقاء کے حوالے سے ہم آپ سے بہترجوابات کی اُمید رکھتے ہیں، گوکہ ہمارے علم میں ہے کہ آپ کاجواب حسب معمول، حسب عادت اور حسب دستور روایتی ہو گا، چلیں خیر ہے، ہمت یکجا کرکے ہم آپ سے کچھ سوالات کر لیتے ہیں۔
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ “دو قومی نظریہ تقسیم ہند کا باعث بنا”۔ جناب شعوری اور عقلی طور پرپاکستان بننے کے بعد دو قومی نظریات کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ یہ تقسیم کی بنیاد تھی، لیکن اس کے باوجود اُس کی دُم کو پکڑ کر رکھا گیا ،ہماری تعلیم اور تربیت میں بلا ضرورت اس کو شامل کیا گیا ،ہمیں سکھایا گیا کہ سارے جہاں میں ہمارے دو ہی ازلی دُشمن ہیں ،ایک ہندوستان اور دوسرا کافر ،مطلب ہے کہ صرف مسلمان ہی مسلمان کا دوست ہے، سارا جہاں تو کافر ہے ،باقی ماندہ دُنیا سے دوستی استواررکھ کر اپنے آپ کو دُنیاسے علیحدہ رکھنا ہوگا۔
علیحدگی کی تربیت اور جذبہ جنوں اُبھار کر ہمت نہ ہارنے کا درس دینے والو! دیکھ لو کہ آج مسلمان ہی مسلمان کا دُشمن ہو چلا ہے، مسلمان ہی کافر ہو گیا ہے، بچنا! روشن خیال لبرل سے یہ کافر ہونے کے ساتھ ساتھ غداربھی ہوتے ہیں۔ خود ساختہ دُشمنوں سے علیحدگی کے بعد دوست بھی ہمارے دُشمن ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک مطلق العنان دیسی امیرالمومنین کا بویا ہوا بیج جسے آج ہم کاٹ رہے ہیں ،جس سے صرف انگارے ہی پھوٹ رہے ہیں، یہ خود فریبیاں جو آپ نے اس قوم میں بوئی ہیں وہ مقسوم قوم کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ ایک خود پرست حاکم کے بوئے گئے بیج نے دہشت گردی کا خوفناک تناور درخت کا روپ اختیار کر لیا ہے،ایسا نہیں ہے کہ ا س کا کسی کو ادراک نہیں تھا،خاص طور سے اُن کو جو دہشت گردی کے درخت کو پھیلنے سے روکنے پر مامور تھے، وہ لازمی اس سے آگاہی رکھتے ہوں گے، لیکن مصلحتاً یادانستہ ایسا نہیں کیا گیا۔ آج اس کڑوے،زہریلے درخت کے پھل کو کھانا ہم عوام کا مقدر بن گیا ہے۔
لازوال قربانیوں کے عوض قدرتی معدنیات سے مالامال، سر سبز و شاداب ملک کو کون ہے جو میدانِ کارزار بنانے پر تُلا ہوا ہے، اچھا ہے یا بُرا، مذہبی انتہا پسند ہے یا روشن خیال لبرل،اندرونی دُشمن ہیں یا بیرونی خفیہ ایجنسیاں؟ اس سلسلے میں تاحال آپ فیصلہ نہیں کر پائے، کیونکہ بوکھلاہٹ کا عالم ہے جو آپ پر طاری ہے۔ کبھی آپ فرماتے ہیں “یہ حملہ آور ہمارے بھائی ہیں بس تھوڑے نادان ہیں،کبھی آپ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک اور آئین کے دُشمن ہیں “کل آپ حافظ سعید کو پوری دُنیا میں محب وطن شہری ثابت کر رہے تھے اور آج جناب وزیر با تدبیر محترم خواجہ آصف صاحب دُنیا سے مخاطب ہیں کہ حافظ سعید معاشرے کے لئے خطرناک ہے”سوال یہ ہے کہ آپ کل درست تھے یا آج درست ہیں؟
ہمارے اَب و جَد نے ہمیں سکھایا تھا کہ “جو دُشمنوں سے ہمدردی رکھتا ہے سمجھ لو وہ بھی ملک دُشمن ہے۔” جناب ہم عوام سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کی نصیحتوں میں ابہام کی کیفیت حاوی تھی اس لئے آپ سے التماس ہے کہ ان ابہامی کیفیت سے ہمیں چھٹکارا دلا دیں۔
جناب عالیٰ! ہماری سماعت سے اکثر ایسی مرتعش خبریں بوسہ زن رہتیں ہیں جو بدن میں کپکپاہٹ پیدا کر دیتیں ہیں۔یہ خبر جسم میں ارتعاش پیدا کرنے کے لئے کافی ہے کہ دُنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں جن میں امریکی خفیہ ایجنسی “سی آئی اے”بھارتی خفیہ ایجنسی”را” اسرائیلی خفیہ ایجنسی “موساد” اور افغان خفیہ ایجنسی “خاد” افغانستان کے بھارتی قونصل خانہ میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے جیسے ایجنڈے پر سر جوڑ کر بیٹھتیں ہیں اور سروبی میں افغان قونصل خانہ اُن ایجنسیوں کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ افغان قونصل خانہ ان ایجنسیوں کو ڈالروں کے عوض ایسے مقامی اور غیر مقامی باشندے فراہم کرتے ہیں جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہوتے ہیں، مزید یہ کہ ناراض پاکستانیوں کو بلوچستان کے راستے افغانستان میں داخل کرایا جاتا ہے، جہاں اُنھیں پاکستان میں حملہ آوری اورپاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ،پھر وہ پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں، ہمیں جنگی صورتحال سے دوچار کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ “جذبہ جنوں بیدار رکھنے کے باوجود مسلمان، مسلمان کا دُشمن کیوں ہو گیا”،سوال یہ ہے کہ “پاکستانی، پاکستان سے ناراض کیوں ہوئے”، سوال یہ ہے کہ “افغانی اور دیگر غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ کیوں بنائے گئے”، سوال یہ ہے کہ” ہر حملے کے بعد آپ بیان داغ دیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی ایجنسیوں کا شاخسانہ ہے، غیر ملکی ایجنسیوں کو ذمہ دار گردان کر کیا آپ ہمیشہ کے لئے جان خلاصی کرا سکتے ہیں، کیا ہم عوام یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے رہے، جب آپ حسب معمول،حسب عادت یا حسب روایت یہ بیان داغتے ہیں تو کیا اپنے اداروں کو کمزور ثابت نہیں کر رہے ہوتے ہیں؟
ضرب عضب کے باعث کچھ امن و امان کی صورت ہمیں نظر آئی تھی۔ ہم عوام کو تو نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات سے بھی کافی اُمیدیں وابستہ تھیں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا نیشنل ایکشن پلان کو کیوں کمزور کیا گیا، اس کے تمام نکات پر مکمل عملدرآمد کیوں نہیں کرایا گیا، کیا نفرت انگیز تقاریر پر پابندی عائد کی گئی ،کیا مدارس کی رجسٹریشن کا کام شروع ہوا،کیا کالعدم تنظیموں کے خلاف کوئی مہم جوئی عمل میںآئی؟ نیشنل ایکشن پلان کراچی میں ایم کیو ایم کے حصے بخرے کرنے کے بعد نا پید ہو گیا ،مقصد حاصل ہوگیا اب نیشنل ایکش پلان کی کوئی ضرورت نہیں رہی؟ “ہمیں دُشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے” یہ جملہ یہ نظم کی اصطلاح کس جانب اشارہ کرتی ہے، یہ بھی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے؟
جناب عالیٰ 27اپریل 2016 ایسٹر کے موقعے پر گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونیوالے خود کش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی 75روحیں اب تک بھٹک رہی ہیں۔ بے گناہ مرجانے والوں کی ارواح با رہا یاد دہانی کراتی ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے ایک عزم کیا تھا جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا” میں نواز شریف آج اس عہد کی تجدید کرتا ہوں کہ میں جب تک شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب نہ لے لوں اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا” تو جناب کیا معصوم و بے گناہ مارے جانے والوں کی بے چین روحیں چیخ چیخ کر یہ نہیں کہہ رہی ہونگی کہ مسند اعلیٰ پر سوار اعلیٰ شخصیت بھی بہلاؤں کے کھیل کے اعلیٰ کھلاڑی ہیں ؟
کچھ عرصہ اطمینانی کے بعد رواں ماہ تواتر سے سر زوری و دہشت گردی نے ہم عوام کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ سوگواری کی فضاء کی گھٹن میں سانس لینا محال ہو گیا ہے، خوف کا آسیب ہمیں نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے دے رہا ہے۔مورخہ 13فروری کو مال روڈ لاہور میں احتجاجی جلوس پر خودکش حملہ اور اسی دن کوئٹہ اور وزیر ستان میں بم دھماکے ، مورخہ16فروری کوسیہون شریف سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملہ،مورخہ 21فروری کو چارسدہ میں خود کش حملہ ،مجموعی طور پر116شہادتیں ۔ اب یہ ایک سو سولہ معصوم جانیں اور ان کے خاندان آپ سے سوال کرتے ہیں کہ، کہاں گیا وہ عزم ،کہاں گیا وہ عہد جس کی تجدید آپ نے 27اپریل 2016 کوکی تھی؟
پھر ستم بالائے ستم دیکھیں کہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں شہداء کے عضلات کو کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا،بجائے شرمندگی کے حیلے بہانے ڈھونڈے گئے،اس شرمناک صورتحال پر تو ہم اپنی زندگی کو کوسنے دیتے رہے کہ “اے ڈھیٹ زندگی دہشت گردی کے بعد ایک اور المناک دہشت گردی دیکھنے سے قبل تیرا چراغ گُل کیوں نہیں ہوا، یہ ہے ہمارے تخت نشینوں کے نزدیک ہم عوام کی اہمیت۔
جناب والا! ہم نے آپ کو اسی رنج و الم اور اسی درد کا چارہ گر سمجھ کر چُنا تھا، لیکن افسوس روگ بڑھتا گیا ناسور بنتا گیا ،اب بھی آپ اچھے برے کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں ،دہشت گرد اچھا نہیں ہوتا ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ وہ جو متواتر حملہ آور ی کر رہے ہیں کیا وہ تباہ اور تباہ کاری کے ہر کارے نہیں ہیں،کیا وہ فتنہ اور اشتعال انگیزی کے موکل نہیں ہیں؟ محترم اب تو جتھے کے جتھے آپے سے باہر ہیں۔
اس بھیانک و گھمبیر صورتحال سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ریاست کی عملداری کا خاتمہ ہو چکا ہے، انفرادی سوچ اجتماعی سوچ پر غالب ہو چکی ہے، کیا یہ ثابت نہیں ہوتاکہ بصیرت،حجت،دانش ارباب کی پہنچ سے کو سوں دور سینہ کوبی کر رہی ہیں؟
چلیں گھٹن اور سوگواری کے ماحول سے نکل کر اپنے دماغ کو سرد ہواوں کے حوالے کرتے ہیں،بچی کچھی آلودگی سے پاک فضاء میں زورزور سے سانس لیتے ہیں اور آپ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دہشت گردی اور پُر خطر ماحول میں”پی ایس ا یل” کا فائنل لاہور میں کرانا ایک جراتمندآنہ اور قابل ستائش فیصلہ ہے ۔اگر یہ فائنل کامیابی سے ہمکنار ہو گیا توہم دہشت گردی کے باعث کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرانےمیں کامیاب ہو جائیں گے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں یک رائے شمولیت کے بعد بقول آصف علی زرادری”بلے” کی پالیسیوں نے عوام کے عذاب میں نہ صرف کئی گناہ اضافہ کیا ،بلکہ عالمی طور پر عسکری قیادت کی بھی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ ضرب عضب کے بعد اب “ردالفساد”پیش رووں کے کردہ گناہوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
جناب عالی! ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام منظور کردہ نکات پر من و عن عملدرا آمد کرایاجائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے مفاد اور مجرمانہ سوچوں کو بالائے طاق رکھ کر ملکی سلامتی کو فوقیت دی جائے۔ ریاستی سطح پر جھوٹ کا خاتمہ ہونا چاہیئے، ورنہ ہمیشہ کی طرح امن وامان کی کار گزاری دھری کی دھری رہ جائے گی۔