(حُر ثقلین)
یکم جنوری 2017سے اقوامِ متحدہ کے نئے جنرل سیکرٹری انٹونیوگوٹیریش نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔گوٹیریش1995سے لے کر 2002تک پرتگال کے وزیر اعظم بھی رہے ہیں اس طرح وہ اقوامِ متحدہ کے ایسے پہلے جنرل سیکر ٹری ہیں جو کسی بھی ملک کے سربراہِ حکومت رہ چکے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے نئے جنرل سیکرٹری کوبے شمار چیلنجز کا سامناہے۔انہوں نے اس وقت اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے جب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کے حوالے سے کچھ مخالفانہ بیانات دیے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کو شام،یمن،جنوبی سوڈان اور لیبیا میں جاری مسلح تنازعات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی بحرانوں کا بھی سامنا ہے۔تیسری دنیا میں غربت میں تیزی سے اضافہ اور خوراک کی کمی کے مسائل بھی نئے جنرل سیکرٹری کے لیے ایک امتحان ہیں۔
لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد دنیا کو ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو عالمی امن کا ضامن ہو لہذادوسری عالمی جنگ کے بعد 24اکتوبر1945دنیا کے 51ممالک نے اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھی اب اس کے رکن ممالک کی تعداد 193ہے اس لحاظ سے یہ دنیا کا اس وقت سب سے بڑا ادارہ ہے۔اگرچہ کے عالمی امن کے لیے اس ادارے کی خدمات شاندار ہیں مگر اس کی کارکردگی پر کئی ایک سوالات بھی موجود ہیں۔گزشتہ صدی میں فلسطین میں اسرائیلی جا رحیت،کشمیر پربھارتی قبضہ،روس کی افغانستان میں مداخلت،ایران عراق جنگ، بوسنیا میں مسلمانوں پر مظالم سمیت دیگر کئی ایک تنازعات میں اس ادارے کی بے بسی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں 9/11کے حادثے نے دنیا ہی بدل دی اور عملی طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس ادارے کو نظر انداز کیا ۔عالمی قوانین کو بلائے طاق میں رکھتے ہوئے عراق اور افغانستان میں مظالم کی داستانیں رقم کیں۔کسی ایک دہشت گرد کو مارنے کے لیے گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے گئے۔عام لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا۔Collateral damageاورFriendly fireکی اصطلاحیں عام ہوئیں۔عراق اور افغانستان کے بعد اب شام اور یمن میں اس ادارے کی بے بسی نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔جنوبی کوریا کے سابق سفارت کار بان کی مون یکم جنوری 2007سے لے کر 31دسمبر 2016تک اس ادارے کے سیکرٹری جنرل رہے انہوں نے اقوامِ متحدہ کو محض ایک تجزیاتی ادارہ بنائے رکھا اور یہ ادارہ اس تمام عرصے میں رپورٹیں ہی شائع کرتا رہا مگر کوئی قابلِ ذکر اور قابلِ فخر کارنامہ سر انجام نہ دے سکا۔
اس تمام تر صورتِ حال کے باوجود گوٹیریش انتہائی پر عزم اور پر امید دیکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے اپنے پہلے بیان میں دنیا بھر میں امن کی بات کی ہے۔ان کی خواہش ہے کہ دنیا بھر کے عوام اس بات کا عہد کریں کہ قیامِ امن ان کی اولین ترجیح ہو گی۔بقول ان کے جنگ میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی ہے۔اربوں ڈالر معاشرے اور اقتصادیات کو تباہ کرنے پر خرچ کر دیے جاتے ہیں۔خوف اور بد اعتمادی کا ایسا چکر شروع ہو جاتا ہے جو کئی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امن ہماری منزل ہونی چاہیے اور امن کے قیام کا انحصار ہم پر ہے۔وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے ایسا ممکن ہو گا ۔انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ تنازعات میں الجھے ہوئے ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پل کا کردار ادا کریں گے۔
آج ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ اس ادارے کے اعتماد کو بحال کیا جائے ۔ دنیا بھر میں خوف اور بد اعتمادی کی فضا کو امن اور محبت میں تبدیل کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کے بعد نئے جنرل سیکرٹری کو دنیا کے تمام ملکوں کی حکومتوں کو اعتماد میں لینا ہو گا اور امریکہ کی نئی حکومت کو یہ بات باور کروانا ہو گی کہ اسے بھی اقوامِ متحدہ کو مستحکم کرنا ہے نہ کہ وہ اسے تنہا چھوڑے۔گوٹیریش کو اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لیے پہلے دن سے ہی متحرک ہونا ہو گااور بڑی طاقتوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کو عالمی امن کے لیے اسلحہ کی دوڑ کو ختم کرانے کے لیے راضی کرنا ہوگا۔کشمیر اور فلسطین میں سلگتی چنگاریوں کو ٹھنڈا کرنا ہو گا۔شام اور یمن میں بڑھتے ہوئے مظالم کو روکنا ہوگا۔ گوٹیریش بہت پر امید ہیں لیکن اگروہ اپنے پیش رو بان کی مون کی طرح صرف بیان ہی داغتے رہے توتیسری عالمی جنگ کے سائے مزید گہرے ہوتے جائیں گے ۔