ڈاکٹر شیراز دستی
امریکا کی ریاست نارتھ کیرولینا کے تین شہر رالے، درہم اور چیپل ہل جڑواں ہیں۔ چیپل ہل اور رالے میں دو بڑے سرکاری تعلیمی ادارے، بالترتیب، یونی ورسٹی آف نارتھ کیرو لینا، اور نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونی ورسٹی ہیں۔ جب کہ درہم میں جنوب کی ہارورڈ کہلانے والی نجی جامعہ ڈیوک یونی ورسٹی ہے۔ ان میں سے ہر یونی ورسٹی کی لائبریری میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں۔ یونی ورسٹی آف نارتھ کیرولینا چیپل ہل کے لائبریرین نے ہمیں بتایا کہ ان کی لائبریری میں ستر لاکھ سے زائد کتب ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کی موجودہ لائبریری تو کتب سے بھر چکی ہے تو کیا آپ کے پاس مزید کتابیں سنبھالنے کا انتظام ہے؟
’’جی بالکل، ہم ہر سال ہزاروں کتابیں منگواتے ہیں ۔ان کی جگہ بنانے کے لیے ہم کم استعمال ہونے والی کتابوں کو سٹیکس سے ہٹا کر جدید طرز کے گوداموں میں بھجوا دیتے ہیں۔ جگہ اور سرمایہ بچانے کے لیے اب ہم نے ایک اور کام بھی کیا ہے۔ رالے، درہم اور چیپل ہل کی تینوں ہمسایہ یونی ورسٹیوں نے ایک معاہدہ کیا ہے۔اس معاہدے کے تحت کچھ مضامین کی کتابیں ہم منگوا کر اپنے مجموعے میں رکھیں گے۔جب کہ کچھ اور مضامین سے متعلق کتابیں صرف ڈیوک یونی ورسٹی منگوائے گی اور باقی ماندہ مضامین کی ذمہ داری نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونی ورسٹی پرہو گی۔ تینوں درسگاہوں کے ممبران تینوں لائبریریوں کی کتابوں سے استفادہ کر سکیں گے۔ یوں ہر یونی ورسٹی نسبتاً کم کتابیں خرید کر بھی طلبہ کے لیے زیادہ تک رسائی ممکن بناتی رہے گی۔‘‘
یہ جدت انتظام صرف یہاں تک محدود نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل تک ٹیکنا لوجی کو ایک بہت بڑے کتاب خور کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن ترقی یافتہ دنیا نے ٹیکنالوجی اور کتاب میں ایک ایسا ہم زیستانہ تعلق پروان چڑھایا جس کی بدولت کروڑوں کتابوں کے پی ڈی ایف وجود کو گلاب کی ایک پتی سے بھی کم جگہ گھیرنے والے فولڈر میں سمویا جا سکتا ہے۔آج آپ کا لیپ ٹاپ اندلس سے لے کر امریکا تک کی تمام لائبریریوں کو آپ کی گود میں کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کِنڈل نامی برقی آلہ آپ کی سیکڑوں جیبی کتب کا ذخیرہ ہے۔ تاہم کمال یہ ہوا کہ نئی کتاب کی برقیت روائتی کتاب کی برکت کو مات نہ دے سکی۔ بل کہ یہ برق کتاب کے اوراق پر بجلی بن کر گرنے کی بجائے اس کے لیے ایک ایسا تار بنی جو اسے نگری نگری گھماتی پھرتی ہے۔اور یہ سب ایک نہایت جدید نظام کے تحت ممکن ہوا ہے۔
امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کتابوں کے مقام اور نوعیت کی پڑتال کے لیے ایک نظام ہے جسے WorldCat کہتے ہیں۔ یہ دنیا بھر سے ہزاروں لائبریریوں میں موجود کتابوں کا ایک ایسا برقی کیٹلاگ ہے جس کی مدد سے آپ اپنی دلچسپی کے مضمون پر کتابوں کا مقام اور اس مقام سے آپ کا فاصلہ ایک ہی کلک پر معلوم کر سکتے ہیں۔ تاہم آپ کو وہاں تک سفر کر کے جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ اس عالمی کیٹلاگ سے جڑا ایک اور نظام جسے ’’انٹر لائبریری لون‘‘ یا لائبریریوں کے مابین کتابوں کے تبادلے کا نظام کہتے ہیں، آپ کے لیے کتاب کی دستیابی آپ کی دہلیز پر ممکن بناتا ہے۔ یعنی اگر آپ امریکا کی کسی بھی ایک لائبریری کے ممبر ہیں تو اس نظام کے تحت آپ اپنی ضرورت کی کتاب ہزاروں میل دور سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کو منگوانے کے لیے آپ کو کوئی لمبے چوڑے گوشوارے نہیں بھرنے پڑتے۔ بس آپ نے کتاب کے نام پر کلک کرنا ہے اور انٹر لائبریری لون میں دو تین کالم پر کرنے ہیں۔باقی سب ذمہ داری اس لائبریری کی ہے جس کے آپ ممبر ہیں۔ بس چند ہی روز میں آپ کو ایک ای میل آتی ہے کہ آپ کی کتاب آ گئی ہے اور اس وقت فرنٹ ڈیسک پر پڑی آپ کی منتظر ہے۔ آپ لائبریری جاتے ہیں، اپنا یونی ورسٹی کا کارڈ دکھاتے ہیں، وہ اسے مشین میں سے گزارتے ہیں اور ایک منٹ سے کم عرصے میں کتاب آپ کو ایشو ہوجاتی ہے۔ یہ یقیناً ایک انقلابی انتظام ہے جس کی مدد سے ایک لائبریری بہت زیادہ کتابیں نہ رکھ کر بھی اپنے ممبر کو کروڑوں کتابوں تک رسائی دے سکتی ہے۔
یہاں ایک لائبریری کے اندر موجود کتابیں ڈھونڈنے اور ایشو کرانے کے عمل کو بھی دن بہ دن سہل کیا جا رہا ہے۔ اس نظام کی حالیہ بہترین مثال نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونی ورسٹی کی لائبریری ہے ۔ اس لائبریری میں کتاب کو ڈھونڈنے سے لے کر آپ کو پیش کرنے تک سارا کام آپ کے لیے روبوٹ کرتے ہیں۔ آپ نے بس کمپیوٹرزائیڈ کیٹلاگ کھولنی ہے، اپنی پسند کی کتاب پر کلک کرنا ہے، اور جیسے ہی آپ اسے ایشو کرنے کی کمانڈ دیتے ہیں آپ کے سامنے سکرین پر ایک روبوٹ کتاب کی طرف دوڑتا ہوا نظر آتا ہے، اور کچھ ہی دیر میں آپ کی کتاب کو کسی کونے میں سے نکال کر لے آتا ہے ۔ آپ اسے سکین کرتے ہیں اور بغل میں ڈال کر لے آتے ہیں۔ نہ آپ کو کارڈوں پر لکھے کیٹلاگ دیکھنے پڑے، نہ گھنٹوں کتابوں پر جھکنا پڑا، نہ کمر دکھی، نہ گھٹنوں میں درد ہوا، اور کتاب آپ کے پاس آگئی۔ اب آپ چاہیں تو وہیں موجود آرام دہ کیبنوں میں بیٹھ کر پڑھ لیں اور یا پھر گھر لے جائیں۔
کتاب واپس کرنے کا عمل یہاں ایشو کرنے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ کتاب لے کر آپ نے لائبریری کے فرنٹ ڈیسک تک جانا ہے۔ مسکراتے ہوئے شخص کے سامنے مسکرا کر کتاب کو رکھنا ہے اور پلٹ آنا ہے۔لائبریری کا ملازم کتاب کو سکین کرتا ہے توسسٹم کو نہ صرف یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب کس کو ایشو ہوئی تھی بلکہ اسی سکین پر یہ کتاب واپس لائبریری کے کھاتے میں جمع بھی ہو جاتی ہے۔ کچھ لائبریریاں اس سے بھی آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ جیسے یونی ورسٹی آف نارتھ کیرولینا ولمنگٹن کی لائبریری پارکنگ میں ایک بڑے سے لیٹر باکس جیسا ڈبہ رکھا ہوا ہے۔ آپ دن یا رات کو کسی بھی وقت اس ڈبے کے پاس گاڑی کی بریک لگائیں، اور گاڑی سے اترے بغیر لائبریری کی کتاب اس میں ڈال دیں۔ سکینر ڈبے کے منہ پر ہی لگا ہوا ہے۔ لہٰذا اس کے اندر گھستے ہی کتاب واپس لائبریری کے کھاتے میں داخل ہو جاتی ہے۔
امریکا کی لائبریریوں کی کچھ اور بھی چھوٹی چھوٹی مگر متاثر کن خصوصیات ہیں۔مثلاً ہر لائبریری میں ایک کیفے کا ہونا۔ قاری ذرا سا بھی سست ہوتا ہے تو دوڑ کر جاتا ہے اور اپنے لیے کافی، چائے اور بسکٹ وغیرہ خرید لاتا ہے۔ اسی طرح ہر لائبریری میں سکینر اور فوٹو سٹیٹ مشینوں کی موجودگی۔ تکنیکی معاملات میں مدد کے لیے کمپیوٹر ماہرین کی موجودگی۔ میٹنگ اور گروپ سٹڈی کے لیے شور سے پاک کمرے۔۔۔ کچھ لائبریریوں میں ہر منزل پر ایک کمرہ آرام کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جس میں بستر نما صوفے اس لیے رکھے ہوتے ہیں کہ اگر مطالعہ کے دوران آپ کچھ دیر قیلولہ کرنا چاہیں تو جا کر ان پر دراز ہو جائیں۔کچھ لائبریریوں کی حیثیت میوزیم کی سی ہے۔ جیسے واشنگٹن ڈی سی میں موجود لائبریری آف کانگریس میں ہر روز ہزاروں لوگ محض اس لیے جاتے ہیں کہ پرانی کتابوں کے نایاب نسخے دیکھ سکیں اور لائبریری کی عمارتوں کی شکل میں موجود فنِ تعمیر کے خوب صورت نمونوں کے ساتھ تصویریں بنوا سکیں۔
پاکستان کی یونی ورسٹیوں اور کتاب دوستی کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف اداروں کو بھی چاہیے کہ قاری کی کتاب تک رسائی کو سہل بنانے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے جدت انتظام سے استفادہ کریں۔ یقیناً اس نظام کی کچھ جہتیں ایسی ہیں کہ جنہیں بغیر زیادہ وقت اور سرمایہ خرچ کیے اپنایا جا سکتا ہے۔ امریکا کی لائبریریاں
بہت اچھا اور معلوماتی اظہاریہ ہے۔ زندہ باد