(سرور الہدیٰ)
انتظار حسین کی پہلی برسی (۲؍فروری ۲۰۱۷) پر انھیں یاد کرتے ہوئے دہلی کی آخری ملاقات یاد آرہی ہے ۔ ۲۰۱۵ میں وہ دہلی تشریف لائے تھے۔ یہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ اس سفر میں انھیں بہت قریب سے دیکھنے اورسننے کا موقع ملا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں ان کا قیام تھا۔ اس سے پہلے ان سے دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ لیکن ان ملاقاتوں میں کئی سال کا وقفہ تھا۔ پہلی ملاقات ۲۰۰۵ میں ہوئی تھی۔ اس سفر میں ان کے ساتھ انور سجاد بھی تھے۔ بلراج مین را کی کہانیوں کا مجموعہ ’’سرخ و سیاہ‘‘ شائع ہوچکا
تھا۔ بلراج مین را اس موقع پر انڈیاانٹرنیشنل انتظار حسین اور انور سجاد سے ملنے آئے تھے۔ ان دونوں حضرات کو سرخ و سیاہ کی ایک ایک جلد پیش کی گئی ۔ انتظار حسین سے یہ پہلی ملاقات تھی ۔ دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ منٹو سمینار میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائے تھے۔ انھوں نے ’’منٹو اور نظیر اکبر آبادی‘‘ کے عنوان سے مضمون پڑھا تھا۔ اس موقع پر کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے انتظار حسین سے پوچھا تھا کہ نظیر اور منٹو دو الگ الگ صنف کے تخلیق کار ہیں ۔ نظیر کی شاعری اور منٹو کی افسانوی نثر کے درمیان زندگی اور زمانے کا بڑا فاصلہ ہے ۔ آپ ان دونوں کو جس طرح عام زندگی یا زندگی کے معمولی پن کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں وہ کس قدر مناسب ہے؟ انتظار حسین نے جواب دیا کہ زندگی اور زمانے کے فاصلے کو زندگی کی بنیادی سچائیاں ختم کردیتی ہیں۔ انتظار حسین کا یہ مضمون ان کے مضامین پر مشتمل آخری مجموعہ’ ’اپنی دانست میں‘‘ میں شامل ہے۔ منٹو، نظیر کے موازنے سے میں اس قدر متاثر اور کچھ برہم ہوا تھا کہ اس سلسلے میں میں نے ایک مضمون لکھا اور اس کا ذکر بلراج مین را سے بھی کیا تھا۔ انتظار حسین سے یہ دوسری ملاقات اس لیے یاد گار بن گئی کہ میں نے ان سے ایک سوال کیا اور بہت فراخ دلی کے ساتھ انھوں نے جواب دیا۔ وقت گزرتا رہا ان کی تحریریں مطالعہ میں آتی رہیں۔ انتظار حسین اس کے بعد بھی دہلی آئے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ۲۰۱۵ میں جب وہ آخری مرتبہ دہلی تشریف لائے تھے تو میں نے اپنی کتاب کا مسودہ ’’بلراج مین را ایک ناتمام سفر‘‘ اس گزارش کے ساتھ ان کے حوالے کیا کہ کتاب شائع ہو رہی ہے آپ کی راے شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ پچھلی دو ملاقاتیں انھیں دو حوالوں سے یاد تھیں۔ دوسرے دن مسودہ واپس کیا اور اس کے ساتھ ایک مختصر سی تحریر بھی تھی جو اب میری کتاب ’’بلراج مین را ایک ناتمام سفر‘‘ کے فلیپ پہ درج ہے۔ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کے مطالعے کی رفتار کتنی تیز ہے۔اس سفر میں ان کی مصروفیات بہت تھیں۔ بات کرتے کرتے انھیں جھپکی آجاتی اور فوراً جاگ کر متوجہ ہوجاتے ۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ میں جگا ہوا ہوں ۔ جھپکی لینے اور جاگنے کے درمیان کا وقفہ اتنا مختصر بلکہ مختصر سے مختصر ہوتا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کے یہاں جھپکی لینے اور جاگنے کے اس عمل کے بعد ایک تازگی آجاتی ہے۔ اس پورے منظر کو یاد کرتا ہوں تو ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے ۔ ان سے بات کرتے ہوئے خوف پر قابو پانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ شخصی اعتبار سے نہایت نرم اور مہربان بزرگ تھے۔ یہ ضرور ہے کہ ان سے گفتگو کا سلسلہ ہمیشہ ہر ایک کے لیے طویل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس سفر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار ’’حسین آزاد، حالی اور شبلی‘‘ میں وہ شریک ہوئے ۔ ایک جلسے کی صدارت کی، مقالہ پڑھا اور مختلف اجلاس میں شریک ہوئے ۔ ایک تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ جب حالی اور شبلی پر زیادہ مقالے پڑھے جانے تھے تو محمد حسین آزاد کا نام کیوں شامل کیا گیا۔ یہ اتفاق تھا کہ اس سمینار میں محمد حسین آزاد پر مقالے حالی اور شبلی کے مقابلے میں کم پڑھے گئے۔ ان کی دوسری شکایت یہ تھی کہ سوال و جواب کا موقع نہیں دیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ سوال و جواب کا ایک موقع آیا بھی تو اسے نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ یہ موقع سرورالہدیٰ کے ایک سوال سے آیا تھا۔ انتظار حسین نے جو مضمون اس موقع پر پڑھا تھا وہ غالب نامہ میں شائع ہوچکا ہے ۔ شاید یہ آخری تحریر ہے جو ہندوستان میں شائع ہوئی۔ وہ جب دہلی سے روانہ ہو رہے تھے تو انھیں رخصت کرنے کے لیے میں جامعہ میں موجود تھا۔ وہ صبح بہت سرد تھی ۔ تیز قدموں کے ساتھ چھڑی لے کر وہ گاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں اصغر ندیم سید بھی ان کے ساتھ تھے اور وہ بھی غالب انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے تھے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں انتظار حسین سے ایم ۔ اے کے زمانے میں باضابطہ واقف ہوا۔ناول کے پیپر میں ہمارا موضوع انتظار حسین کے ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ تھا۔ اس موضوع پر مجھے سمینار پیپر پیش کرنا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جے۔ این ۔ یو میں ایم۔ اے کا طالب علم تھا۔ میری یہ پہلی تحریر جو کسی رسالے میں ادب کے کسی موضوع پر شائع ہوئی وہ ’’آگے سمندر ہے‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ ہی تھا۔ آج بھی ’’آگے سمندر ہے‘‘ کے بہت سے تخلیقی جملے مجھے یاد ہیں اور میرے ذہن پر اس ناول کا گہرا نقش ہے۔
ہندوستان سے ان کی نسبت کے اتنے حوالے ہیں کہ ان کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ انتظار حسین کا قیام پاکستان میں ضرور تھا ۔ مگر لوگ انھیں مستقل طور پر ہندوستان میں محسوس کرتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انتظار حسین کی وہ فکر ہے جو دونوں ملکوں کو تہذیبی سطح پر جوڑتی ہے اور کچھ بھولے ہوئے سبق یاد دلاتی ہے۔ہندوستان میں ان پر جو تنقید لکھی گئی ابھی اس کا مطالعہ کیا جانا باقی ہے، بلکہ مجموعی طورپر انتظار حسین تنقید کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔انتظار حسین کے فکشن کو عام طور پر ہجرت اور ناسٹلجیا سے جوڑ کر دیکھا گیا اور ان کے بارے میں کچھ ذمہ دار حضرات نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہجرت اور بے مکانی کے احساس کے بغیر دنیا میں بڑا ادب شاید نہیں لکھا گیا ، جہان بے مکانی اور بے امانی کا احساس نہیں ہے وہاں بھی احساس بے مکانی موجود ہے۔انتظار حسین کو ہجرت اور ناسٹلجیا کا نمائندہ بتانے والے لوگ یہ بھول گئے کہ ان احساسات کا تعلق داخل سے ہے اور کم و بیش نصف صدی سے زائد عرصے تک تخلیقی سطح پراپنے داخل کی حفاظت کرنا آسان نہیں۔ انتظار حسین کے لیے ان احساسات کے ساتھ تخلیقی سفر جاری رکھنا ممکن ہے کچھ لوگوں کو خوشگوار عمل معلوم ہوتا ہو لیکن زرا اس کیفیت کو محسوس کرنے کی کوشش تو کیجیے، آخر کوئی وجہ تو ہے کہ انتظار حسین کو دو جدید شاعر ناصر کاظمی اور احمد مشتاق کی شاعری بہت پسند تھی۔ ناصر کاظمی کی غزل اور انتظار حسین کا فکشن فکری سطح پر ایک دوسرے سے بے حد قریب ہے، ایک کو دوسرے سے تقویت ملتی ہے اور قاری نئی غزل کی شعریات اور نئے فکشن کی شعریات کے درمیان خود کو بہت اجنبی محسوس نہیں کرتا ۔ یوں تو باقر مہدی نے کہا تھا کہ نئی کہانی کو سب سے بڑا خطرہ انتظار حسین کی داستانوی کہانی سے ہے اور اب ناصر عباس نیر نے اپنے ایک مضمون میں بلراج مین را اور انتظار حسین کو ایک ہی شعریات کا افسانہ نگار بتایا ہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ انتظار حسین کا فکشن جدید فکشن کے لیے بڑے مسائل لے کر آیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انتظارا حسین نے ماضی کو حال سے کچھ اس طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی کہ اس سے زمانی فرق مٹتا سا محسوس ہوا، اور جدید فکشن کی شعریات کو انتظار حسین کے یہاں تلاش کرنا دشوار تر ہوگیا، انتظار حسین نے جدید فکشن کے مسائل اور مباحث سے خود کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کی، وہ تمام مباحث میں شریک رہے مگر اپنی دھج برقرار رکھی۔ان تمام تحریروں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان پر وارد کیے جانے والے اعتراضات معترضین کی طرف واپس آرہے ہوں۔
رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت
ناصر کاظمی
ناصر کاظمی نے جس احساس کو دو مصرع میں بند کیا ہے اسے انتظار حسین نے بڑی وسعت دی ہے۔ آزادی کے بعد جو تخلیق کار نمایاں ہوئے ان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل بڑی حد تک ایک جیسے تھے، اگر تقسیم کا ادب کوئی حقیقت رکھتا ہے تو لازما اس عہد کے ادب کو اسی شعریات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے جس پر خود انٹطار حسین نے مختلف حوالوں سے اظہار خیال کیا ہے۔ شاعری اور فکشن انتظار حسین کی نظر میں ایک دوسرے سے گریزاں نہیں۔ انتظار حسین تنہا ایسے تخؒ یق کار ہیں جنہوں نے اصناف کے مسائل اور امتیازات کو ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس طرح ملا کر دیکھا ہے جو عموما ناقدین کے یہاں نظر نہیں آتا۔ یہ وہ بصیرت ہے جو ایک بڑے اور سچے تخلیق کار کی ہے ۔ انتظار حسین سے اختلافات کی کئی مثالیں موجود ہیں ، انہوں نے کبھی ان اعتراضات کو اتنا غیر اہم نہیں جانا، وہ سنتے تھے، پڑھتے تھے اور اسی طرح لکھتے تھے جیسا وہ چاہتے تھے۔ ان کی نثر سے زیادہ ان کے نظریے سے بحث کی گئی ، ہندوستان میں شمیم حنفی نے انتظار حسین پر کئی فکر انگیز مضامین لکھے ۔ کہا جاتا ہے کہ شمیم حنفی صاحب ادب کے چاہے کسی موضوع پر گفتگو کریں انتظار حسین کا حوالہ ضرور آجائے گا۔ اصل میںیہ ایسی وابستگی ہے جس پر رشک کیا جانا چاہیے۔ انتظار حسین کو جتنے ہوش مند اور ذہین قاری ملے وہ کسی بھی تخلیق کار کے لیے قابل رشک ہوسکتا ہے۔انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کا نام ایک ساتھ تو لیا جاتا ہے لیکن دونوں کے درمیان فکری اور نظریاتی طور پر کیا اختلاف اور ممثالت ہے اس کی طرف پہلی مرتبہ وحید اختر نے اشارہ کیا۔ انور عظیم نے انتظار حسین کی نظریاتی کمی گاہیں جیسا مضمون لکھا ، گوپی چند نارنگ نے انتظار حسین کی کہانیوں کا انتخاب اپنے دیباچے کے ساتھ شائع کیا ۔
انتظار حسین کی سب سے بڑی طاقت ان کی زبان ہے ، یہ زبان تھوڑے فرق کے ساتھ فکشن میں بھی ہے اور ان کی دیگر تحریروں میں بھی ، اسی لیے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظار حسین کی تمام افسانوی اور غیر افسانوی تحریریں ساختیاتی اعتبار سے ایک دھاگے میں پیروئی ہوئی ہیں۔انتظار حسین نے فکشن ، سفر نامے، یاداشت ان سب کو ملا کر جو منظر نامہ مرتب کیا ہے اس میں ماضی اور حال ایک دوسرے سے گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ اس منظر نامے میں کچھ رنگ شوخ ہیں تو کچھ مدھم اور دھندلے۔انتظار حسین نے ماضی اور حال کو ایک نیا مفہوم عطا کیا ہے، یہ نیا مفہوم قرۃ العین نے بھی عطا کیا تھا لیکن انتظار حسین نے مفہوم کی سطح کو قرۃ العین حیدر کی طرح مابعد الطبعیاتی بنانے کی کوشش نہیں کی۔