ان کی ایک کتاب پڑھتا ہوں تو دوسری کے انتظار میں رہتا ہوں
(خورشید ندیم)
کراچی بھی کبھی ایک زندہ شہر تھا۔ رنگوں سے سجا، خوشبوؤں سے مہکتا۔ پھر ان رنگوں پر انسانی لہو کا رنگ غالب آنے لگا۔ خوشبو کے لیے جگہ سمٹتی چلی گئی اور اب شہر کا تعارف کوئی گلستاں نہیں کوڑے کے ڈھیر ہیں۔ ان رنگوں میں سب سے توانا وہ تہذیبی رنگ تھا جس نے شعر و ادب اور فنون کی صورت میں ظہور کیا۔ سب سے بلند آہنگ وہ خوشبو تھی جو ہمارے کلچر کے پیرہن سے اُٹھی تھی۔ اگر آپ رنگوں سے آباد اور خوشبوئوں سے معطر اس شہر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ڈاکٹر طاہر مسعود کے لکھے خاکوں کی صحبت میں کچھ وقت گزارنا ہو گا۔
چند روز پہلے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے ایک تقریب برپا کی۔ جنابِ سجاد میر، جناب افتخار عارف اور جناب حارث خلیق بھی شرکا میں تھے۔ تقریب کی روداد جناب سجاد میر نے لکھ دی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی تہذیبی و ادبی تشکیل کراچی میں ہوئی۔ یہ اس منظرنامے کا حصہ ہیں جسے طاہر مسعود کے خاکے بیان کرتے ہیں۔ میں ان کرداروں کو زندہ سلامت دیکھ اور سن رہا تھا، جن کے احوال اس کتاب میں پڑھ چکا تھا۔ طاہر مسعود کی گواہی یوں مستند ہے کہ وہ خود بھی اس منظرنامے کا حصہ تھے اور ہیں۔
خاکوں کے اس مجموعے ”اوراقِ ناخواندہ‘‘ میں مصنف کی ممدوح شخصیات کا ذکر ہے، جیسے سلیم احمد، ابن الحسن، ڈاکٹر اسلم فرخی۔ کچھ معاصرین کا تذکرہ ہے‘ جیسے افتخار عارف، پروین شاکر، جمال احسانی۔ کچھ اکابرینِ ادب کا بیان ہے جیسے مشتاق احمد یوسفی، انتظار حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی۔ سیاسی شخصیات کی بات بھی ہے، جیسے پروفیسر عبدالغفور احمد، معراج محمد خان، حسین حقانی۔ اہلِ صحافت بھی ہیں‘ جیسے الطاف حسن قریشی، مجید نظامی۔ ان علمی شخصیات کا تعارف بھی ہے، جن سے طاہر مسعود کی راہ و رسم رہی‘ جیسے شریف المجاہد، ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ بس یوں جانیے کہ ایک عطر دان ہے جس میں کئی طرح کی خوشبوئیں جمع ہیں۔
اس فہرست میں چند لوگ ہی ایسے ہیں‘ جن سے مجھے ذاتی نیازمندی حاصل ہے‘ جیسے افتخار عارف، پروفیسر شریف المجاہد اور ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہید۔ باقی سب وہ ہیں جنہیں میں طاہر مسعود کی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ بعض خاکے پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ ان حضرات کی تحریروں سے میں نے جو تأثر قائم کیا تھا، جناب طاہر مسعود کی رائے اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ مثال کے طور پر جناب مشتاق احمد یوسفی۔
اس کتاب کا سب سے چونکا دینے والا خاکہ یوسفی صاحب ہی کا ہے۔ یوسفی صاحب کے فنی کمال کا اعتراف تو ہر اس شخص پر واجب ہے جو اردو ادب سے راہ و رسم رکھتا ہے۔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں۔ تاہم ان کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ آمد سے زیادہ آورد کا احساس ہوا ہے۔ مزاح کے اجزائے ترکیبی میں برجستگی کو اولیت حاصل ہے۔ ایک فطری بہاؤ جو تکلف سے بے نیاز ہو۔ ایک رواں اور پُرسکون دریا، جس میںکبھی قہقہے کی لہر اٹھتی ہے اور کبھی تبسم کی موج۔ یہ موجیں اور لہریں، ایک لمحے کو اٹھتیں اور پھر دریا کی روانی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ابن انشا اور شفیق الرحمٰن کو پڑھیے تو یہی احساس ہوتا ہے۔ پطرس کا معاملہ تو اس سے بھی آگے ہے۔ لطافت اور روانی کسی تحریر میں کم ہی اس طرح ہم آغوش ہوئے ہوں گے جیسے ‘مضامینِ پطرس‘ میں ہیں۔ یوسفی صاحب کے ہاں یہ برجستگی تحریر کے فطری بہاؤ سے زیادہ، خارج سے لائی ہوئی ایک اضافی لہر دکھائی دیتی ہے، جسے کسی مصنوعی آبشار سے اٹھا کر، دریا میں ڈال دیا گیا ہو۔
طاہر مسعود صاحب کا تاثر بھی یہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ابن انشا یوسفی صاحب سے بڑے مزاح نگار ہیں۔ اس خاکے میں بعض ایسے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو یوسفی صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے بعض شخصی محاسن بھی سامنے آتے ہیں‘ جو ظاہر ہے کہ فن سے الگ ایک پہلو ہے۔ لوگ بڑے شاعر اور ادیب بن جاتے ہیں لیکن بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ یوسفی صاحب کا وجود بہر طور غنیمت ہے کہ ہماری تہذیب نے ان کے اسلوب ہی میں نہیں، ان کی شخصیت میں بھی ظہور کیا ہے۔
حسین حقانی صاحب کا خاکہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ اب تک لکھا گیا ان کی زندگی کا شاید سب سے بھرپور اور چشم کشا خاکہ ہے۔ اگر کوئی یہ خاکہ پڑھ لے تو اسے حقانی صاحب کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ یہی نہیں، وہ اس کی بنیاد پر پیش گوئی کر سکتا ہے کہ موصوف آنے والے دنوں میں کیا کریں گے۔ دلچسپ ہونے کے ساتھ ،یہ لوئر مڈل کلاس گھرانے میں جنم لینے والے کسی باصلاحیت شخص کے المیے کا بیان بھی ہے۔ نہیں معلوم اس طبقے کے کتنے باکمال لوگ، آسودگی کی تلاش میں ایک ایسے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں، جس کے کسی موڑ پر ان کا اخلاقی وجود کھو جاتا اور صرف مادی وجود باقی رہ جاتا ہے۔ سفر کی تیزی میں انہیں خود بھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔
اس کتاب میں سلیم احمد کا خاکہ بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کراچی کے ادبی منظرنامے کو جن شخصیات نے سب سے زیادہ توانا کیا، سلیم احمد ان میں سے ایک تھے۔ عسکری صاحب کی روایت کے آدمی لیکن اپنی پہچان رکھنے والے۔ جدید غزل میں، گزشتہ چند دہائیوں میں دو بڑے تجربات ہوئے۔ ایک تجربہ سلیم احمد نے کیا اور دوسرا ظفر اقبال نے۔ مجھے لگتا ہے کہ سلیم احمد کا فکری و ادبی کینوس وسیع تر ہے۔ ہماری تنقیدی روایت میں شاید اس کا پوری طرح سے ادراک نہیں کیا گیا۔ یہی نہیں، تنقید میں بھی ان کا مقام ایک مجتہد کا ہے۔ عسکری صاحب کے حوالے سے دیکھیے تو مجتہد فی المذہب۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ادبی منظرنامے کو جن شخصیات نے مثبت طور پر متاثر کیا، وہ کسی نہ کسی حوالے سے سلیم احمد کے فیض یافتہ ہیں۔ قمر جمیل، احمد جاوید، سجاد میر، افتخار عارف، سراج منیر سمیت بہت سے لوگوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سلیم احمد کی شخصیت کی تفہیم کے لیے اس خاکے سے بہتر کوئی تحریر، کم از کم میری نظر سے نہیں گزری جو طاہر مسعود نے لکھا ہے۔
ان شخصیات کا ذکر محض افراد کے احوال و افکار کا بیان نہیں ہے۔ اس سے دورِ نو کا آدمی اس عہد سے وابستہ ہو جاتا ہے جو اس کے علم میں نہیں یا ایک بڑے حادثے نے جسے اپنے ماضی سے جدا کر دیا ہے۔ ان خاکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے فکری و ادبی افق پر کن مباحث کا غلبہ تھا۔ ایک نئے تہذیبی وجود کی تلاش میں، ہم کن کن مراحل سے گزرے۔ آمریت نے ہمیں کیا دیا؟ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جوش صاحب کی شاعری پر کیسے پابندی لگی؟ کیا سلیم احمد نے اپنی معرکہ آرا نظم ”مشرق‘‘ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست سے متاثر ہو کر لکھی یا اس کا شانِ نزول کچھ اور ہے؟ یہ کتاب ان سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے۔
طاہر مسعود افسانہ نگار ہیں۔ کالم نگار ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں صحافت کے استاد رہے ہیں۔ چند سال پہلے جب ادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ان کی کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ شائع ہوئی تو ایک تہلکہ مچ گیا۔ اب اس کی دو اور جلدیں آنے والی ہیں، جن میں مولانا مودودی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے لے کر راحت کاظمی اور طلعت حسین جیسے لوگوں تک کے انٹرویوز شامل ہوں گے۔ میں طاہر مسعود کی ایک کتاب پڑھتا ہوں تو دوسری کے انتظار میں رہتا ہوں۔ ہما پبلشنگ ہاؤس کراچی نے یہ کتاب شائع کی ہے۔