(زمرد مغل)
اکثرسننے میں آتا ہے کہ اردو کا مطلع ابر آلود ہے۔ کہیں اردو علاقائیت، ذات پات، فرقہ پرستی ، گروہ بندی کے زیر اثر ہے اور کہیں کچھ لوگ اردو کے وسائل واسباب پراپنے ناجائز قبضے کو دوام عطا کرنے میں مصروف ہیں۔ کوتاہ قدوں کو عظیم ترین تخلیق کار ہونے کی سندیں عطا کی جارہی ہیں، بے حیثیت نوازے جارہے ہیں تیسرے درجے کے فنکاروں کے سامنے بڑے تخلیق کاروں کو سربازار، چوراہوں پر ذلیل وخوار کیا جارہاہے ۔ اردو کے شعبے انڈرورلڈکی طرح مشکوک اور پراسرار طاقتوں کے زیراثر چلائے جارہے ہیں ۔ بھانت بھانت کے تیسرے درجے کے لوگوں کو طرح طرح سے نوازا جارہاہے جہاں اردو کامخلص طبقہ تقریباً ناامید ہوچکاہو وہاں سنجیو صراف نے اردو کے زمامِ کار کو سنبھالتے ہوئے ان تمام مفاد پرستوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ایک ویب سائٹ ’’ریختہ‘‘ کا افتتاح کیا ۔ سنجیو صراف کے ارادے چونکہ مخلص تھے اس لیے قدرت نے بھی ان کی رہنمائی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا ، مخلص لوگوں کی ایک ٹیم بھی ان کو میسر آگئی اس وقت ریختہ میں ۶۰ لوگوں کی ٹیم سنجیو صراف کی رہنمائی میں اردو زبان و ادب کی بقا اور اس کے فروغ کے لئے کام کررہی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اردو دنیا کی اہم شخصیات نے ادباء اور شعراء نے اپنی ذاتی کتب خانوں کے اور سرکاری و غیر سرکاری اردو لائبریریز نے اپنے دروازے وا کیے ہیں اس کی مثال بھی آپ کو کہیں نہیں ملے گی ، اس مخلص ٹیم نے سنجیو صراف کی رہنمائی میں ایک طویل اور صبرآزما سفرکا آغاز کیا جس کے نتیجے کے طورپر سینکڑوں ملکوں کے کروڑوں لوگوں تک اردو کی آواز پہنچنے لگی اردو کے دیوانے اردو کے نئے نئے پروگرامز کے لیے منتظر رہنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اردو کے دیوانوں میں اضافہ ہوتاگیا۔ پہلے سو پھر ہزار اور اب کئی ہزار لوگ اس ویب سائٹ سے جڑ چکے ہیں اور اپنی ادبی و پیاس بجھارہے ہیں ان دیوانوں نے اپنی اس جہد مسلسل کو ایک طاقتور تحریک میں بدل دیا بغیر کسی شوروغل کے اردو کہ ان دیوانوں نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔
دنیا کی حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب ۱۳،۱۴ اور ۱۵ مارچ کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ریختہ نے پہلا ’’جشن ریختہ‘‘ منایا لوگوں کا ایک جم غفیر تھا تِل دھر نے کی جگہ نہیں تھی۔ دنیا بھر کے مندوبین نے اردو کی مختلف اصناف کو تختۂ مشق بنایا ۔ بڑے بڑے دانشوروں کی شرکت پروگرام کی کامیابی کی دلیل بنی لوگوں کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب اردو کے مخالفین کے گالوں پر زناٹے دار تھپڑ کی طرح تھا۔ مخالفین کے گلیاروں میں سناٹا طاری تھا۔ اردو کے چاہنے والے خوشی سے جھوم رہے تھے اس پروگرام نے ایک طرف اردو کے مستقبل کے تعلق سے خدشات کو دور کرتے ہوئے اردو کے بہتر مستقبل کی ضمانت دی اور دوسری طرف فرقہ وارانہ ماحول کی شدت کو کم کرتے ہوئے مختلف مذاہب کے پیروکار وں کے بیچ کی دوریوں کو پاٹنے کاکام بھی کیا۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ جوکام پچھلی ایک صدی سے بڑے بڑے سیاستداں، صنعت کار، اردو کے بڑے بڑے ادارے لاکھوں ، اربوں روپے خرچ کرکے بھی نہ کر پائے وہ کام اکیلے سنجیو صراف نے اپنے ساتھ چند دیوانوں کو لے کر چند سالوں میں کردکھایا ۔ ریختہ نے اردو کی بقاء کو یقینی بنانے کے علاوہ ہندوستان کی سیاست ، صحافت، ثقافت اور دیگر کئی شعبوں میں تجدیدی کارنامہ انجام دیا ہے ۔ یہ جشن ریختہ کا پہلا جشن تھا اس کی کامیابی کے بعد اب مشکل یہ تھی کی دوسرئے جشن کو بھی کس طرح کامیاب بنایا جائے اب ذمہ داری اور بڑھ گئی تھی نئی جگہ کا انتخاب کیا گیا اس بار اندرا گاندھی سنٹرفار دی آرٹز کا وسیع و عریض میدان اس تاریخی جشن کا گواہ بنا اس جگہ نے شاید ہی اس سے پہلے لوگوں کی اتنی بھیڑ دیکھی ہو دنیا بھر سے نہ صرف لوگوں نے اس میں شرکت کی بلکہ یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا کہ اب دلی اور اردو کو ایک ایسا جشن مل گیا ہے جسے دنیا بھر کے اردو کے چاہنے والے یوم اردو کے طور پر بھی مناسکتے ہیں وہیں دلی میں ایک ایسے جشن کی مضبوط اور طاقت ور بنیاد پڑھ چکی ہے کہ اردو کی اپنی اس سرزمین کو جہاں وہ پیدا ہوئی تھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کل کا مورخ لکھے گا کہ اردو جہاں پیدا ہوئی تھی ایک مشکل دور سے گزرنے کے بعد اردو نے پھر سے اپنے ہونے کا احساس اسی سرزمین سے دوبارہ کروایا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ صد فی صد درست ہے کہ ریختہ نے اردو کے لیے جو کچھ چند سالوں کے عرصے میں کیا ہے وہ اردو کے نام نہاد چاہنے والے شاید صدیوں تک نہیں کرپاتے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ وقت اور حالات نے اردو کو مسلمانوں کی گود میں میں ڈالا تھا۔ کسی بھی زبان پراس سے براوقت کیا آسکتاہے کہ لوگ اپنے حقیرترین مفادات کے لیے کسی بھی حدتک گزرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔ کچھ کوتاہ قدوں نے اپنی شان بڑھانے کے لیے جینوئن تخلیق کاروں کے ساتھ بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ شاید اردو کی تاریخ کا پہلا ایسا جشن تھا جس میں ہررنگ، نسل و مذہب کے ماننے والوں نے شرکت کی حیرت اور خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب یہ پتا چلا کہ اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوان ، لڑکے اور لڑکیوں کی ہے ۔ اردو کے نام پر اکٹھا ہونے والے اس جم غفیر کا تعلق کسی مذہب، مسلک اور کسی گروپ سے نہیں تھا ۔ وہاں سے تو ہرطرف ہرایک پراردو کا جادو چل چکاتھا۔ شاید ہی کسی نے سوچاتھا کہ یہ جشن اپنے ساتھ نوجوانوں کا ایک سیلاب لے کرآئے گا ریختہ والوں نے بھی نہیں ۔ اس قدر کامیاب پروگرام کے لیے جہاں ریختہ ٹیم کی محنت صاف دکھائی دے رہی تھی تو دوسری طرف اردو زبان وادب کے ان اذہان کا ایک جگہ جمع ہونا بھی تھا کہ دنیا بھر سے اردو کے اہم ترین لکھنے والوں نے اپنی شرکت سے بھی جشن کو کامیاب بنایا۔
ہندوستان کی ریجنل زبان کو لے کر اتنا بڑا جشن شاید ہی کہیں ن برپاہوا ہوگا ہو وہ زبانیں جو حالات کے ستم کی وجہ سے حاشیہ پر کھڑی ہیں انہیں بھی حوصلہ ملا ہوگا ۔ ہرہندوستانی زبان کو ایک سنجیو صراف اور ریختہ جیسے ایک ادارے کی ضرورت ہے ۔ اس جشن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں جینوئن تخلیق کاروں کو ایک ایسا اسٹیج میسر آیا تھا جہاں وہ اپنی زبان کے وہ تمام رنگ دنیا کو دکھا سکیں جو اس کی خوبی ہیں اور جس کی ضرورت ہر اس معاشرہ کے لیے اور زیادہ ضروری ہوجاتی ہے جو معاشرہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اپنی آخری سانسیں لے رہاہو۔
جب اچھا اور بڑا ادب دنیا تک پہنچے گا ہی نہیں تو زبان اپنی آبرو کی بحالی کو ممکن الحصول کیسے بناپائے گی ۔ اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے ساتھ تو طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں اردو کے ساتھ ایک ستم یہ بھی تو ہے کہ اسے مسلمانوں کی یا پاکستان کی زبان کے طورپر منوانے کے لیے ہرممکن کوشش ہورہی ہے ۔ فرقہ پرستی بھی اپنے پھن پھیلائے ہوئے انتظار میں ہے کہ کوئی موقع ہاتھ آئے تو اردو کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے ۔ اردو کو روزگار سے جوڑے جانے کا مسئلہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہے ۔ جشن ریختہ نے اردو کو مشاعرے کی چوپالوں اور پنڈالوں سے باہر کی سیر کرانے کے لیے ایک راہ ہموار کی ہے یہ قدم بھی قابل ستائش ہے مگر اچھے اور بڑے ادیب کو اس کا جائز مقام دلوانا بھی ایک اچھی اور بڑی تنظیم کی ذمہ داری ہے ۔ انڈیا ا نٹرنیشنل سینٹر میں اس ہجوم کو دیکھ کر عرفان صدیقی کا یہ شعر بار بار ذہن میں آرہا تھا کہ
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
اس جشن کے بعد ریختہ کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ اردو کے سچے چاہنے والوں کو ریختہ کی صورت میں ایک روشنی کی کرن دیکھنے اور برتنے کو ملی ہے اس جشن میں اردو کے جتنے بھی رنگ دکھائے جاسکتے تھے دکھائے گئے ۔ کہیں داستان گوئی ہورہی ہے، کہیں ڈرامہ کھیلاجارہاہے ، فلموں میں اردو زبان ، اور زبان کو درپیش مسائل ، محفل غزل ، مشاعرہ ، قوالی اور الگ الگ موضوعات پر دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اردو اور ہندی کے بیچ کی کھائی کو بھی پاٹنے کی کوشش کی گئی جس میں ہندی کے اہم لکھنے والوں نے شرکت کی۔ مشاعرے کے بدلتے رنگ روپ کو بھی موضوعِ گفتگو بنایاگیا ۔ دنیا بھر سے بہترین اذہان کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کے لیے بھی ریختہ کو مبارکباد پیش کرنی چاہیے ۔
اردووالوں کی امیدیں ریختہ سے بہت بڑھ گئی ہیں کیوں کہ ریختہ نے جو کارنامہ مختصر سے عرصہ میں انجام دے دیاہے اس کا تصور کرنے سے بھی بڑی بڑی آرگنائزیشنیں قاصر تھیں۔ اور اب ان کے حوصلے اس قدر بلند اور امیدیں اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ ریختہ کو دن دوگنی رات چوگنی اپنی سرگرمیاں جاری رکھنی ہوں گی تاکہ اردو اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکے ۔
ریختہ ۔او آر جی پر ایک نظر
سائٹ ویزٹ کی جارہی ہے ۲۲۵ ممالک میں
ای کتاب ۱۹۸۸۶
غزلیں ۲۰۵۵۲
نظمیں ۴۰۶۰
شاعر ۱۲۳۱
ویڈیوز ۴۴۷۸
آڈیوز ۴۳۸۴
ریختہ پیج ویورز ۲۱ لاکھ ماہانہ
ریختہ وزیٹر ۶ لاکھ ماہانہ
فیس بک پیج لائک ۴ لاکھ
یو ٹیوب چینل ۱۷ لاکھ
ٹویٹر فالوور ۵۷ ہزار