اس تصویر میں ایک فیملی کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے دکھائی گئی ہے۔ کھانا کھانا تو اتنی اہم اور چونکا دینے والی بات نہیں۔ ذرا اسی تصویر کے بائیں طرف دیکھئے، دو معصوم بچے کرسیوں کے منہ دوسری طرف کر کے بیٹھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اس فیملی کے ملازم ہیں۔فیملی کے سربراہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ انھیں ساتھ بٹھایا جائے یا الگ سے انھیں بھی کھانا دے دیا جائے۔ہم کس قدر اخلاق سے گر گئے ہیں، اس تصویر کی ایک بصری جھلک ہمیں شرمندہ کر دیتی ہے۔ پچھلے دنوں صوبہ خیبر بختون خواہ کے محکمۂ تعلیم کے ایک آفیسر نے کچھ اسی قسم کی حرکت کی۔ یہ موصوف اسلام آباد بچوں کی شاپنگ کے لیے آئے تھے جو پشاور سے اسلام آباد تک ایک ملازم بچے کو کار کی ڈکی میں بٹھا کے لائے حالاں کہ اندر جگہ بھی موجود تھی۔ بچہ سارے راستے خوف اور سہمے ہوئے سفر کرتا رہا۔ اس تصویر کے آئینے میں اپنے اندر جھانکیے۔ شاید ہم ایسی سفاک حرکات کرنے زیادہ ماہر ہوں۔
Related Articles
گرو جی ہمیں ان شاعروں سے بچا لو
28th August 2017
وسعت اللہ خان
خبر و تبصرہ: لب آزاد ہیں تیرے
Comments Off on گرو جی ہمیں ان شاعروں سے بچا لو
گرو جی ہمیں ان شاعروں سے بچا لو وسعت اللہ خان سوچو کوئی بہشت نہ ہو، قدموں تلے دوزخ نہ ہو، ہم سب آج میں زندہ ہوں۔ سوچو کوئی ملک نہ ہو، مرنے مارنے کا […]
فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ: سماجی نفسیاتی تجزیہ
فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ از، شہریار خان فرائیڈ کے خیال میں انسانی تاریخ کے ابتدائی دور میں انسان انفرادی طور پر رہتے تھے اور معاشرے کا تصور ناپید تھا ۔ لیکن جلد ہی […]
ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ : شعور کی کٹی پتنگ
ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ : شعور کی کٹی پتنگ از، یاسرچٹھہ ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ اس کا غیر علمی، شعوری تسلسل سے عاری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار قسم کا اندازِ فکر ہے۔ […]