(ثنا ڈار)
راولپنڈی میں پولیس کی شیلنگ سے نومولود بچہ دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گیا۔ایک ایسا بچہ جس کو شاید ابھی تک کوئی نام بھی نہیں دیا گیا تھا۔ لیکن بچے تمہارے مرنے سے تمہارے والدین کے علاوہ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے؟ روز ہزاروں بچے مرتے ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ تمہاری موت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ تم نے تو مرنا ہی تھا۔ آج نہیں تو کل تم نے مر ہی جانا تھا۔
تم زندہ رہتے تو تمہاری ماں تمہیں ڈاکٹر بنانے کا خواب سجاتی لیکن تم بسمہ کی طرح کسی اسپتال میں وی آئی پی پروٹوکول کا شکارہو کر مارے جاتے۔ ہوسکتا ہے تمہاری بہادر ماں تمہیں پولیس میں بھیجنے کا فیصلہ کرتی اور ایک روز تم کسی ٹریننگ سنٹر میں دہشتگردوں کا نشانہ بن جاتے۔ ہو سکتا ہے تمہاری ماں تمہں وکیل بنانا چاہتی مگر تم کسی بم دھماکے میں شہید ہو جاتے۔ ہو سکتا ہے کہ تم اپنی ماں کے ساتھ کسی پارک میں جھولا جھولنے جاتے اور تمہاری ماں کو اکیلے واپس آنا پڑتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی دن تمہارا باپ تمہیں صاف ستھرے یونیفارم میں اسکول چھوڑ کر آتا اور تھوڑی دیر بعد خون میں لت پت تمہاری لاش دیکھ کر وہ لرز جاتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم گھر سے دور کسی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں سو رہے ہوتے اور کوئی دہشتگرد گولیوں سے تمہارا سینہ چھلنی کر کے تمہیں ابدی نیند سلا دیتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑے ہو کر تم کسی سیاسی جماعت کے جیالے بنتےاور فیصل آباد کے حق نواز کی طرح تم بھی مارے جاتے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دن تم اپنی موٹر سائیکل پر سوار دفتر سے واپس آرہے ہوتے اور نشے میں دھت کوئی بڑا آدمی تمہیں اپنی کار کے نیچے روند جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن تم حب الوطنی کے جذبے سے سرشار واہگہ بارڈر پریڈ دیکھنے جاتے اور پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئےہی مر جاتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس بھوکی ننگی جمہوریت میں تھر کے بچوں کی طرح خوراک اوردوائی کے لئے تم بھی بلک بلک کر مر جاتے۔ تم زندہ رہتے تو شاید تمہیں روٹی، کپڑا،مکان کچھ بھی نہ ملتا ۔ اس سے پہلے کہ تمہیں دنیا میں لانے کے لئے نو ماہ تکلیف اٹھانے والی تمہاری ماں کوئی خواب سجاتی اور اس کے وہ سارے خواب ٹوٹ جاتے اچھا ہوا تم جلدی مر گئے۔
میراخیال ہےکہ اس زاویہ نگاہ سے دنیاکےکسی بھی حادثےکودیکھاجاےتواسی طرح کی بھیانک تصویرہی بنتی نظرآتی ہے ۔ دنیا بری ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ یہاں کوںُی امید پوری نہ ہوسکتی ہو ۔