ایدھی جیسا کہاں سے لائیں ہم
از، تصور حسین مرزا
دنیا میں کم و بیش 1,24000 پیغمبرتشریف لائے ۔ اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور انسانیت کی خدمت کا مخلوق خدا کو درس دیتے رہے ، کچھ لوگ راہ ہدایت پر آگئے اور کچھ گمراہ ہو کر دنیا و آخرت تباہ و برباد کر گئے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں میں اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہوں مگر بندوں کے حقوق نہیں ۔ آج مسلم دنیا کی تباہی و بربادی کی بہت ساری وجوہات میں ایک وجہ” اسلام مسجد تک ” ہے، مسلمان نماز روزہ حج اور زکواة ادا بھی کرتے ہیں مگر وہ برکتیں حاصل نہیں ہوتیں جو ہونی چاہیئے۔دعائیں مانگی جاتیں ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں، مجھے کہنے دو” علم ہے عمل نہیں ” میرا مطلب صاف شفاف ہے کہ بھائی نے بھائی کا حق دبایا ہوا ہے مگر لنگر و نیاز جاری ہے۔ جوا، شراب، رشوت کی ” حرام کمائی سے ” گوشت روٹی تو حلال کھا رہے ہیں ، حرام کی کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ تو کر رہے ہیں مگر اللہ قبول نہیں کر رہا۔۔
یہ ہی وجہ ہے بیٹا باپ کا احترام نہیں کر تا، بیٹی ماں کو پرانے زمانے کی کہہ کر مزاق اُڑاتی ہے، بہین کو بھائی کی عزت کا احساس نہیں ، انسانیت دم توڑ رہی ہے ایسے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں مجھے یاد آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی قوم کا حقیقی مسیحا کیا خوب لکھا ہے بی بی سی نے مانگتا ہوں اسی سے جو دیتا ہے خوشی سے’ کان پھاڑ دینے والا دھماکہ۔ دھواں، گرد، ہوا میں اڑتا ملبہ، انسانی اعضا۔تھوڑی دیر کے لیے خاموشی اور چند منٹ بعد سائرن بجاتی، تیزی سے موڑ مڑتی، سفید کیری سوزوکی گاڑیاں جائے وقوع پر پہنچتی ہیں، جیسے کہ وہ اگلی گلی میں اسی واردات کا انتظار کر رہی تھیں۔تربیت یافتہ عملہ پھرتی سے اتر کر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو اس مہارت سے سٹریچروں پر ڈال کر ایمبولینسوں میں منتقل کرتا ہے جیسے وہ سالہاسال سے سے بس یہی کام کرتا چلا آیا ہو۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس ایدھی فاؤنڈیشن کا عملہ ہے اور اس کا ہزاروں افراد پر مشتمل عملہ واقعی کئی عشروں سے یہی کام کر رہا ہے۔
چاہے دہشت گرد حملے ہوں، ٹریفک حادثات ہوں یا پھر قدرتی آفات، یہ ہر جگہ ہر وقت عام طور پر سرکاری اداروں سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ 1957 میں ایک پک اپ سے شروع ہونے والی امدادی سروس اب دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن چکی ہے۔ ایدھی انفارمیشن بیورو کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ان کے امدادی مراکز کی تعداد 335 ہے۔ سیلاب اور سمندری حادثات کے موقعے پر امداد فراہم کرنے کے لیے 28 کشتیاں اور عملہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن ایئر ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے شہروں میں کل 17 ایدھی ہومز ہیں، جن کے علاوہ ایدھی شیلٹرز، ایدھی ویلج، ایدھی چائلڈ ہوم، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی اینیمل ہاسٹل، ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر بھی کام کر رہے ہیں۔
دو جوڑے ملیشیا کے
اتنے بڑا امدادی نظام کا تانا بانا چلانے والے عبدالستار ایدھی کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی ان کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے کپڑے تھے، ایک میلا ہو جاتا تو وہ دوسرا پہن لیتے۔ وہ کہتے تھے کہ ‘میں نے اصول بنایا کہ زندگی بھر سادگی رکھوں گا اور کپڑے ایک قسم کے پہنوں گا۔’ وہ اپنی اہلیہ بلقیس ایدھی کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کے دفتر سے متصل دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے، جس میں کسی قسم کی پرتعیش اشیا کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، لیکن انھوں نے نہ تو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی پیشکش قبول کی اور نہ ہی کبھی بھی کسی دورِ حکومت میں ملک کے سربراہ کی جانب سے کوئی فنڈ قبول کیا۔ جون 2016 میں ایدھی کی طبیعت جب بہت زیادہ خراب ہوئی تو سابق صدر آصف علی زرداری نے انھیں بیرون ملک علاج کروانے کی پیشکش کی جو انھوں نے مسترد کر دی اور کہا کہ میں پاکستانی ہسپتالوں ہی میں علاج کراؤں گا۔
غم میرے استاد ہیں
ایدھی 1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 11 سال کے تھے کہ ان کی والدہ کو فالج ہو گیا جس سے ان کا دماغ بھی متاثر ہوا۔ کمسن ایدھی نے اپنے آپ کو والدہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ان کو نہلانا، کپڑے بدلوانا، کھانا پلانا، یہ ایدھی نے اپنے ذمے لے لیا، جس نے آگے چل کر انھیں فلاحی کاموں کی جانب راغب کیا۔ ایدھی نے رسمی تعلیم تو ہائی سکول تک بھی حاصل نہیں کی، تاہم وہ کہتے تھے کہ ‘دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ رہے۔’ والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے لوگوں کی مدد کے لیے رابطے کا ذریعہ بنانے کے بارے میں سوچا۔ ان کا خواب تھا کہ ضرورت مندوں کے لیے فلاحی مراکز اور ہسپتال قائم کیے جائیں۔ یہ کام بہت بڑا تھا اور ایدھی کی عمر کم اور وسائل ناپید۔ لیکن ایدھی کو یہ کرنا تھا، چاہے اس کے لیے لوگوں سے بھیک تک کیوں نہ مانگنا پڑتی۔
جب پاکستان بنا تو وہ چھٹے دن ہی یہاں آ گئے۔ اول اول انھوں نے ٹھیلے اور پھیری لگا کر کام شروع کیا پھر کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں کپڑوں کے ایجنٹ بن گئے۔ چند سال بعد انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور 20 سال کی عمر میں اپنی میمن برادری کے افراد کی مدد سے مفت طبی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک ڈسپنسری قائم کی۔ یہی سوچ انھیں ایدھی ٹرسٹ قیام کی جانب لے گئی۔ ان کے ایک دوست حاجی غنی عثمان صاحب نے اس کام میں ان کی مدد کی۔ ان سے ملنے والے پیسوں سے انھوں نے دو ہزار کی ایک گاڑی لی، ایک ڈسپنسری بنائی، اور ایک خیمے کے اندر چار بستروں کا ہسپتال قائم کیا۔
صرف میمن کا کام نہ کرو
ایدھی نے ڈرائیونگ سیکھ کر اس گاڑی کو ایمبولینس بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں: ‘میں نے زندگی میں کبھی کوئی اور گاڑی نہیں چلائی، 48 سال تک صرف ایمبولینس چلائی۔’ وہ رات کو شادیوں پر جا کر برتن دھوتے تھے، دودھ بیچتے تھے، اخبار فروخت کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے یہ کہہ کر اپنی خدمات سب کے لیے وقف کر دیں کہ ‘میمن کا کام نہ کرو، تمام انسانیت کا کام کرو۔’ ایدھی اپنی ایمبولینس میں دن بھر شہر کا چکر لگاتے رہتے اور جب بھی کسی ضرورت مند یا زخمی شخص کو دیکھتے، اسے فوراً امدادی مرکز لے جاتے۔ ایدھی کے مطابق پہلی عوامی اپیل پر دو لاکھ چندہ اکٹھا ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ ‘یہ میری نیت نہیں تھی کہ میں کسی کے پاس جا کر مانگوں، بلکہ میں چاہتا تھا کہ قوم کو دینے والا بناؤں، پھر میں نے فٹ پاتھوں پر کھڑا رہ کر بھیک مانگی، تھوڑی ملی، لیکن ٹھیک ملی۔’جلد ہی لوگ بقول شاعر لوگ آتے گئے اور کارواں\ن بنتا گیا۔ ایدھی مراکز کے علاوہ کراچی میں ایدھی ایمبولینس سروس اور بچوں اور ماؤں کے لیے پناہ گاہ بھی قائم کر لی گئی۔
مولوی بیدین کہتے ہیں تو کہنے دو
اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ‘میں نے کبھی کسی کی نہیں سنی، ہمیشہ اکیلا رہا۔ اب بچے اور بیوی ہیں، ورنہ پہلے کوئی نہیں تھا، سرمایہ دار، مذہبی طبقے نے اور سرمایہ دار نے سب نے میرا بائیکاٹ کیا۔’ ایدھی کہا کرتے تھے کہ پیدا ہونے والے بچے کو ناجائز مت کہو۔ ‘جو بچہ پیدا ہوا وہ آپ کا جائز بچہ ہے، ٹھیک ہے، مولوی مجھے بیدین کہتے ہیں، کہنے دو۔’ ہر ایدھی سینٹر کے باہر ایک جھولا موجود ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب اپنے پیغام میں کہا کرتے تھے: ‘مارو نہیں، جھولے میں ڈال دو، میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اپنے بچے کو کبھی بھی کوڑے میں مت پھینکو، قتل کرنا بند کرو، بچے کو ایدھی کے جھولے میں ڈال دو۔’ اپنی دن بھر کی مصروفیات کے باوجود ایدھی ہوم میں پرورش پانے والے یتیم بچوں کے لیے عبدالستار ایدھی کچھ وقت ضرور نکالتے تھے۔ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور کھیل ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس ایدھی ہوم میں وہ ان بچوں کے نانا کہلاتے تھے۔
نوبیل انعام کی ضرورت نہیں
ایدھی کو 20 سے زائد قومی و بین الاقوامی اعزازات ملے۔ انھیں پاکستان میں نشانِ امتیاز، لینن امن ایوارڈ اور پاکستان ہیومن رائٹس کی جانب سے ایوارڈ سمیت متعدد نجی اداروں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں اور اعزازات سے نواز گیا۔ اس کے علاوہ گنیز ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلانے کے باعث شامل ہے۔ نوبیل امن ایوارڈ کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے ہمیشہ کہا کہ ‘نوبیل انعام ملے تو ٹھیک ہے نہ ملے تو بھی ٹھیک ہے۔ اس قوم کے لوگوں نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے کہ مجھے نوبیل انعام کی ضرورت نہیں ہے پیر ڈاکٹر سید منیر حسین شاہ قاسمی آف پوران نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ aعبدالستار ایدھی جیسے انسان ?زاروں سال بعد پیدا ہونے ہیں آج دنیا ایک ایسے پیکرِ انسانیت سیمحروم ?و گئی ہے جس کا اوڑھنا بچھونا دکھی انسانیت کی خدمت ت?ا آج ?زاروں یتم بچے دوبارہ یتم ?و گئے ?یں ایدھی صاحب وہ تاریخ ساز شخصیت ہیں جنہوں نے بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل انسانیت کی خدمت کر کے ملک و ملت کی خدمت کی ہے یہ وہ فرشتہ صفت انسان تھے جنہوں نے ملک کو دیا بہت کچھ ہے لیکن لیا کچھ نہیں ہے
پاکستانی قوم کا حقیقی مسیحا جو آج اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا ہے۔۔۔۔ دُعا ہے اللہ پاک کروٹ کروٹ راحت اور سکون دے، ۔اللہ ربالعزت جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے اور لواقین کو صبرِ جمیل کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو عبدالستار ایدھی کا نعمل البدل عطا فرمائے ۔۔اآمین