بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے خلاف مہم کے بارے چند معروضات

بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے خلاف

(وقاص احمد)

بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے خلاف مہم

اشفاق احمد صاحب سے متعارف ہونے کا باعث ہمارے والد صاحب بنے.انہوں نے اسکول کے درمیانے سالوں میں اشفاق صاحب کے ڈراموں کی طرف متوجہ کیا.اس کی بنیادی وجہ گھر میں موجود بڑوں کا صوفیانہ طرز کا مذہبی رجحان تھا.والد صاحب کا یہ عمل اس سچائی کا عکاس تھا کہ اشفاق صاحب عام لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے طبقے میں صوفیانہ مزاج کے لوگوں کے لئے آج سے ٢٠ سال پہلے ہی ایک بڑا نام بن چکے تھے۔

یہ وہ دور تھا کہ ممتاز مفتی کی “لبیک” اس طبقے کے ہر گھر کے بک شیلف کی زینت بن چکی

صاحب مضمون، وقاص احمد

تھی اور شہاب نامہ کو اکثر چوم کر غلافوں میں لپیٹ دیا جاتا تھا.بانو آپا کا نام ان سب میں کہیں بہت پیچھے تھا۔ پھر تیرہ چودہ سال کی عمر میں آہستہ آہستہ ان افراد کی کتابوں سے بھی استفادہ حاصل کرنے کا آغاز ہوا.ہوتے ہوتے لڑکپن سے جوانی تک اشفاق صاحب،بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی صاحب کا لکھا گیا بیشتر مواد پڑھ چکنے کی گستاخی کر چکے تھے.قدرت صاحب کے شہاب نامے کے علاوہ سوائے ایک دو افسانوں کے مزید کسی تحریر کی معلومات ہمیں حاصل نہ ہو سکیں. 1ہمیشہ سے کتابیں پڑھنے سے جان جاتی تھی.لہٰذا اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہے اور یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ان افراد کی تمام تحریروں تک آج تک رسائی نہ ہو سکی ہے.مگر جب بانو آپا کی وفات پر جس طریق سے تحاریر اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا تو چپ بیٹھے نہ بن پڑی۔
اشفاق صاحب، بانو آپا، ممتاز مفتی اور شہاب صاحب پر تنقید کا بنیادی پہلو جو تکلیف کا باعث بنا، وہ کیمونسٹ دوستوں کی جانب سے تھا.انہوں نے ان ادباء کی سوچ کو سرمایہ داری کے نظریات کی حفاظت اور آمروں کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ایک سوچا سمجھا مہرہ قرار دیا۔ نیز کچھ دوستوں نے اشفاق صاحب اور بانو آپا کی سوچ کے مابعدالاطبیعاتی پہلوؤں کو آج کے جدید دور کے تقاضوں کے لئے زہر قاتل سمجھا اور یہ تنقید ان دو حضرات کی زندگی میں بھی موجود رہی.مگر ان گزارشات نے اعتدال کا دامن کب چھوڑا اور کیسے بانو آپا اور اشفاق صاحب کی فکر کے سارے زائچوں کو سمجھنے سے پہلوتہی کی گئی. اس پر ایک مکمل موقف دینے کی ضرورت ہے۔

اشفاق صاحب اور بانو آپا کی فہم و فراست کے تانے بانے دراصل فرد کی تعمیر و تخریب کے لئے موجود عوامل کو سمجھنے اور بروئےکار لانے کے ارد گرد گھومتے تھے.اشفاق صاحب اور بانو آپادراصل اس صوفیانہ رنگ کے علم بردار تھے جو آج سے تین چار سو سال پہلے بابا بلھے شاہ اور سلطان باھو کی شکل میں ہند کی سرزمین پر موجود تھا.اس دور میں مملکت کا سیاسی،معاشی اور معاشرتی نظام کسی حد تک درست بنیادوں پر قائم تھا.اس دور میں کسی بھی اخلاقی جہت کی قانونی شکل کو بہت اہمیت دی جاتی تھی.اخلاقیات قانون کی شکل میں بہت سختی کے ساتھ برتی جاتی تھیں.صوفیاء نے اس دور میں فرد کو قانون کی روح سے روشناس کرایا.شریعت کی ظاہری شکل کی پیروی کے اصل مقصد کو واضح کیا.اس لئے ان سالکین کی شاعری میں قانون کے رسم بن جانے کو صاف طور پہ نشانہ بنایا گیا ہے۔

مقصد قانون کا انکار نہ تھا بلکہ قانون کی روح پر عمل درآمد کو یقینی بنانا تھا.اسی طرح چونکہ معاشرہ صالح بنیادوں پہ قائم تھا تو تمام تر توجہ فرد کی ذہنی اور اخلاقی رویوں کی تربیت پر مرکوز رکھی گئی.خانقاہیں فرد کی شخصیت کی تعمیر اور بڑھوتری کے لئے پورا کردار ادا کرتی تھیں اور کل معاشرے اور ماحول کے حوالے سے کوئی کوشش اور فکر موجود نہ تھی.اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس امر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی تھی. سماج کی بنیادوں میں کسی خرابی کا کوئی اشارہ موجود نہ تھا اس لئے اخلاقی قدروں کو سکھانے کے لئے اصلاح اور تبلیغ کا راستہ اپنایا گیا جو اس دور کے اعتبار سے بالکل صحیح عمل تھا.
مگر بعد کے ادوار میں جب سیاسی بنیادیں منہدم ہو گئیں.نظام غیروں کے ہاتھ چلا گیا .جابرانہ غلامی کے دور کا آغاز ہوا تو انسان سے وہ تمام حقوق چھین لئے گئے جن کی فراہمی ان فرائض کے ادا کرنے کی معقول بنیاد فراہم کرتی تھی جن کی طرف خانقاہیں اور صوفیاء کرام معاشرے کے افراد کو بار بار متوجہ کرتے رہتے تھے.حقیقت حال یہ ہے کہ صوفیا کے اعلی ترین طبقے کا ہاتھ ہمیشہ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے.اس لئے صوفیاء کے ایک طبقے کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ دور بدل چکا ہے اور آج کا چیلنج فرد کی شخصیت اور تعمیر کے بجائے اس جابرانہ ماحول اور ظلم کا خاتمہ ہے جو بنیادی طور پر ایک نظام کی شکل میں افراد کو اخلاق رزیلہ کی طرف دھکیل رہا ہے۔

چنانچہ وہ طبقہ صوفیاء موجود نظام کے خلاف برسرپیکار ہو گیا.مگر صوفیاء کا ایک حصّہ اس زمانہ شناسی سے محروم رہا اور بدستور تبلیغ و وعظ کی صورت فرد میں موجود شخصی خرابیوں کے محاسبہ میں مصروف عمل رہا.یقیناً اس طبقہ کی نیت پہ شک نہیں کیا جا سکتا مگر یہ طبقہ نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر رہا.بانو آپا،اشفاق صاحب اور ان کے ساتھی اس دوسرے طبقے کا تسلسل تھے.انہوں نے اپنے دور کے سیاسی حالات اور ماحول کے جبر کے اثرات کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا اور محض انسانی نفسیات کو تختہ مشق بنا کر اخلاقیات کے اسباق انڈیلنے کی کوشش کی۔

چونکہ یہ تمام کوششیں زمانے کے اعتبار سے اپنا اثر کھو چکی تھیں.اس لیے کسی بھی طرح کے نتائج دینے میں ناکام رہیں اور بانو آپا اور اشفاق احمد کا فلسفہ بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود کوئی قابل ذکر مثبت سماجی اثرات نہ پیدا کر پایا.میرا قیاس ہے کہ بانو آپا اپنی اس فکری شکست سے آگاہ تھیں.اور اس ناکامی کا تاسف بانو آپا کے آخری دور کے انٹرویوز میں جابجا ان کے چہرے اور الفاظ سے عیاں ہوتا نظر اتا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ دونوں کے نظریات کسی بھی مذہبی تعصب سے بالا تر تھے.اوریائی نظریات کے برعکس آپ دو حضرات اپنے نظریات کو بزور جبر منوانے کے ہرگز قائل نہ تھے.آپ کے مذہبی نظریات کا خمیر انسانیت سے اٹھا تھا.کسی مذہبی تقسیم سے آپ کی تحریریں آلودہ نا تھی جو نفرت کی سوداگری کا پرچار کرتی ہو.جو مذہبی نسل پرستی اور جبر اوریائی نظریات کا خاصہ ہے.اس کا عشر عشیر بھی بانو آپا اور اشفاق صاحب کے قول وفعل یا تحاریر میں موجود نہیں.اس لئے اوریائی نظریات کے حامل افراد کا انھیں اپنا آدمی سمجھنا یا کسی اور کا انھیں اس ٹولے میں سے گرداننا مضحکہ خیز ہے.آپ دو حضرات صوفیاء کی تعلیمات کے عین مطابق ہر نظریے، فکر، نسل اور مذہب کے افراد کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھتے تھے اور کسی مذہب، نظریے یا فکر کی تضحیک کے قائل نہیں تھے.اپنے نظریات کو بالا ضرور سمجھتے تھے مگر دوسرے کے نظریات کے لئے بھی مناسب جگہ تلاش کرتے رہتے تھے اور کسی نہ کسی طور اپنے بیانیہ میں اطمینان بخش اہمیت بھی بخش دیتے تھے.قائل کرنے سے زیادہ مائل کرنے کی طرف متوجہ رہتے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کی سوچ کے اثرات نے مخاطب نوجوان نسل کے افراد کو کسی مزاحمتی تحریک کا دست و بازو بننے سے کسی قدر روکے رکھا اور انفرادی اصلاح کی طرف مرکوز رکھنے کی کوشش کی.یقیناً اس حکمت عملی نے مقتدر حلقوں میں پذیرائی پائی مگر یہ کوئی سوچا سمجھا تخریبی عمل نہ تھا بلکہ معاشرے کی سماجی بنت کے بگاڑ کو پرکھنے اور تصحیح کا درست لائحہ عمل فراہم کرنے میں ناکامی تھی.جس کا ادراک بانو آپا کی ایک آخری عمر کی تحریر سے بھی ہوتا ہے جس میں انہوں نے اپنے پرانے مسلک کے برخلاف فرد کے بجائے معاشرے کے دباؤ کو ہدف تنقید بنایا جس نے ایک ایمان دار فرد کو داڑھی منڈوانے اور حرام کھانے پہ مجبور کیا.میں اپنے احتمال کا اعادہ کرتا چلوں کہ بانو آپا کو عمر کے آخری حصّے میں اپنی غلطی کا احساس ہو چلا تھا۔
باقی جہاں تک مابعدالطبیعاتی پہلوؤں کے حوالے سے بانو آپا اور اشفاق صاحب کے افکار کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً ان میں ایک مبالغہ آرائی کا رنگ موجود ہے. مگر یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کے مطلق وثوق سے کچھ کہنا ایک نئی بحث کھولنے کے مترادف ہےجو اس مضمون کے مقصد کے دائرہ کار میں نہیں آتی.ضمنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ اشفاق صاحب اور بانو آپا کے مابعدالطبیعاتی نظریات اتنے حیران کن نہیں جتنی سحر انگیز آج کے دور میں کوانٹم فزکس بن چکی ہے۔
اس تمام گفتگو سے ہمارے کیمونسٹ دوستوں کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں ہر فرد سرمایہ داری یا اشتراکیت کے اصولوں کو سمجھ کر کسی ایک فکری حلقے کا حلیف یا مخالف بن کر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہو.یہ ایک کثیرالمسلک دنیا ہے.ہر فرد پر سامراج مخالف یا سامراج گماشتہ کا ٹھپہ نہیں لگایا جا سکتا.اس معاملے میں احتیاط ازبس ضروری ہے۔

میری شخصیت کا قد اتنا بڑا نہیں کہ میں بانو آپا اور اشفاق صاحب کے افکار پہ کوئی حتمی رائے دے سکوں۔ مگر جس طریقے سے کچھ ہم عمر دوستوں نے بانو آپا کے نظریات کو بےدردی سے رگیدنے کی کوشش کی اور ان پر وہ تہمتیں بھی لگائیں گئیں جن کی وہ مستحق نہ تھی تو مجبورا اپنا نکتہ نظر سامنے رکھنے کی ضرورت پیش آئی. بانو آپا ہمارے چار سو سالہ پرانے دور کے ان لازوال کرداروں کا ایک خاکہ تھیں جو اپنے آس پاس موجود افراد کی ذہن سازی اور شخصیت کی تعمیر میں بھرپور دلچسپی رکھتے تھے.بدقسمتی سے بانو آپا اپنے دور سے چار سو سال بعد پیدا ہوئیں۔

 

About وقاص احمد 10 Articles
وقاص احمد پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کے امراض میں پوسٹ گریجوایشن کر رہے ہیں۔ خود کو پاکستانی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی اوسط مجموعی فہم کا نمائندہ خیال کرتے ہیں اور اسی حیثیت میں اظہار خیال کے قائل ہیں۔