(نعیم بیگ)
بانو قدسیہ کچھ دن پہلے وفات پا چکیں۔ ہمارے ہاں ایک رسم اب یوں بھی چلی ہے کہ جونہی کوئی ادیب و شاعر رحلت فرماتے ہیں ان کی یاد میں جہاں فوری نوعیت کے تعزیتی اجلاس اور ان کی مغفرت کی دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں وہیں بیشتر لکھاری اپنے قلم دان سنبھالتے ہوئے ان کی زندگی، ان کے تخلیقی وفور اور چیدہ چیدہ محرکات پر اظہار رائے فرماتے ہیں یہاں تک بات درست ہے ایسا کرنا اُن ادبی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے جہاں واقعی کسی کے انتقال پر اچھے الفاظ کا کہنا رسوماتی ثقافت کو سرسبز رکھتا ہے وہیں اس بارے ایک تاریخی ریکارڈ بھی مرتب ہو جاتا ہے۔
لیکن جہاں کچھ دوست احباب جنہوں نے زندگی میں مرنے والے ادیب کی کوئی ایک آدھ کتاب پڑھ رکھی ہو اس کے حوالے سے ان کے سارے کام پر اس قدر توصیفی، ستائشی اور گمراہ کن ملفوظات کو رقم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔
حال ہی میں بانو قدسیہ کے انتقال پر ایسی صورت سامنے آئی ہے جہاں مختلف فورمز پر تعزیتی اجلاس اور قراردادوں کے پاس ہونے ( جو لائق صد ستائش ہے) کے ساتھ ساتھ ان کے پورے ادبی کام پر یا کسی ایک حصہ پر تنقیدی مضامین کا بیڑا اٹھا لیا گیا۔ اس نقد و نظر کے اہتمام میں بھی راقم کو یا کسی اور لکھاری کو کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر پے در پے کچھ مضامین ایسے سامنے نہ آتے جس میں بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب گروپ کے ان ادبا کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا جانے لگا جیسے ان کی فکری سوچ نے ملک میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہو۔
یہاں تک معاملہ معمول کے مطابق چل سکتا تھا لیکن مطالعاتی تناظر میں بانو قدسیہ کے کام بالخصوص ناول “راجہ گدھ” پر مضامین نے راقم کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر مجبور کر دیا۔
اِسی طرح کے ایک مضمون (بانو قدسیہ ۔ اردو ادب میں ایک عہد کا خاتمہ از سبین علی ایک روزن ڈاٹ کام ) کے جواب میں راقم نے عرض کیا۔ ’’ آپ کے مضمون کے عنوان سے متفق ہوں کہ واقعی ’’بانو قدسیہ کے انتقال سے ایک فکری عہد کا خاتمہ ہوا ہے ۔۔۔‘‘ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کا عہد مورخ کس طرح رقم کرتا ہے؟ یہ امر اس وقت زیرِ بحث نہیں۔ میں صرف عہد حاضر میں سچ کی تلاش میں رہا ہوں
میرے تمامتر ادبی و فکری اختلافات ایک طرف ، بانو قدسیہ ( صرف ایک تانیثی افسانہ ’’انترہوت اداسی ‘‘ )، بس اور کچھ نہیں۔
راجہ گدھ کے چودہ ایڈیشن اپنی جگہ، کسی ممتازادبی و فکری فلسفیانہ سوچ کے حامل تصورات پر مبنی عالمی کتابوں کے مقبول ایڈیشن یوں نہیں بکا کرتے، اور کتاب کازیادہ بِکنا، کسی ادب کے ہمالیائی ہونے کا کوئی پیمانہ بھی نہیں ہو سکتا۔
صف اول کے ادیب عبداللہ حسین کا حقیقی ادبی شہ پارہ ’’اداس نسلیں” جیسے ناول کے شاید دو چار ایڈیشن ہی بکے ہونگے۔ یہاں صرف پاپ (مقبول ) ادب کی کتابیں بیسٹ سیلرز ہوتی ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ کہ راج گدھ، پاپ ادب کا بھی حصہ نہیں ہے۔ یہ ایڈیشن، یہ سب کتابیں سرکاری سرپرستی میں سرکاری لائبریوں میں سٹاک کر دی گئیں۔ جن دنوں امریکہ جماعت اسلامی کو معاشی سپورٹ دیا کرتا تھا وہ ان کی لاکھوں کتابیں خرید لیا کرتا تھا اور لے جاکر سمندر برد کر دیا کرتا تھا۔ ‘‘
اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب وغیرہ کی تحاریر نے صرف ایک لایعنی فکر کو جنم دیا ہے جس کا فکری یقین ان کی زندگیوں میں کبھی نظر نہیں آیا۔ انہوں نے انسان کی کبھی بات نہیں کی انہوں نے ہمیشہ ملوکیت، اس سے جڑے تصورات، بادی النظر میں مقبول خانقاہی تصوف جس کی اساس مذہبی فکر و دانش سے بھی کم ہی تھی، اپنا منافقانہ ناتہ جوڑے رکھا اور وہ تمام دنیاوی مفادات کو حاصل کرلیا جسے ایک ادیب اپنی زندگی میں فکری سوچ کی وجہ سے ٹھکراتا رہتا ہے۔ دنیا کی صعوبتوں کو انہوں نے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ ان کی کامیابی کا یہی راز تھا۔
کچھ نے کہا ان جیسوں کا ادب مردہ ہوتا ہے یہ زندوں کو بھی دفن کر دیتا ہے: میں کہتا ہوں ادب تو ادب ہوتا ہے اگر ادب اپنے مشاہدات کی سٹریم میں صرف قلم کی نوک سے دوسروں دکھوں کو ایکسپلائٹ کرکے اس کے اظہار کا نام ہے تو اس میں یہ لوگ کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کودنیاوی کامیابیوں سے روشن و معمور رکھا اور فکری ادبی مستقبلیات کے ان جھمیلوں اور دکھوں سے اپنے آپ کو دور رکھا جو انسانیت کا روشن مستقبل تھا۔
اُس نام نہاد، مبینہ خود ساختہ تصوفی، خانقاہی اور بابا کلچر فلسفہ کو مہمیز دی جس کا وجود انسانیت کی حقیقی بھلائی کی بجائے انکی اپنی ذات کے گرد ہی گھومتا تھا۔
راقم نے اس آرٹیکل میں صرف جن دو باتوں پر اختلاف عرض کیا ہے (جبکہ مزید نکات بھی قابل بحث و گفتگو ہیں، لیکن وقت اور جگہ کی تنگی آڑے آئی)’’راجہ گدھ‘‘ جو میرے نزدیک ایک ایسی علمی و فکر کا عکس ہے جو ذات میں منفی رحجانات اورانفرادی زندگی میں ما بعد طبیعاتی کم اور مزارات، آستانہ و مقبروں اور خانقاہوں کی ثقافتی پوجا کے زیادہ میلان کا مظہر ہے۔ اس ناول میں حرام و حلال کی مباحث کو چھیڑ کر مذہبی فکر کی آفاقی سوچ میں گمراہ کن فلسفیانہ آمیزش کی گئی اور اس پہلو کو کرداری شکست و ریخت سے مہمیز دینے کا سامان پیدا کیا گیا۔ مبینہ جنیاتی علوم کے تحت ایسی تاویلیں دی گئیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ لیکن اس سے بڑی بات ان کے صوفیانہ خیالات کا ان کی تحاریر میں اظہار تو ہوا، لیکن ان کی ذاتی زندگیوں میں اس کا کوئی نام و نشان کیوں نہیں ملا۔ جو پیغام قاری تک بھیجا جا رہا تھا اسے خود کے لئے مکروہ سمجھا گیا۔ حرام و حلال کی تمیز کا فلسفہ گمراہ کن تاویلی فکر سے آلودہ کیا گیا۔
لہذا ان خیالات کو تصوف کے لبادہ میں بھی عریاں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
فاروق سلہریا اپنے مضمون ’’راجہ گدھ ۔ منطق پر بانو قدسیہ کا ادبی حملہ ‘‘ شایع کاروان ڈاٹ نو پر اپنے مضمون میں کہانی کے ایک حصے کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔ پے در پے حادثوں سے پریشان ہو کر تنہائی کا شکار قیوم باقاعدہ شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس کی البتہ ایک ہی شرط ہے کہ اس کی ہونے والی بیوی باکرہ ہونی چاہئے۔ اس کی بھابھی اس کے لئے اندرون شہر سے روشن کا انتخاب کرتی ہے۔ سہاگ رات والے دن یہ عقدہ کھلتا ہے کہ روشن تو حاملہ ہے اور شادی سے قبل اس کے اپنے محلے دار افتخار سے تعلقات تھے جو اب سعودی عرب جا چکا تھا۔
“قیوم منٹو کا کوئی کردار ہوتا تو وشن کے پھولے ہوئے پیٹ کو محبت سے چوم لیتا۔ قیوم البتہ بانو آپا کی اختراع ہے لہٰذا وہ افتخار کو سعودی عرب سے بلوا کر روشن کو اس کے حوالے کرتا ہے اور خود پروفیسر سہیل کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب دریں اثنا مابعد الطبیعات کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ قیوم کو لےکر ‘سائیں جی’ کے پاس پہنچ جاتےہیں۔ ‘‘
یہ وہ کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں مصنفہ جو پہلے اپنے بیانیہ اور کرداروں میں خود کلامیہ کی طرز پر ذاتی خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ اب کھُل کر حرام و حلال کے فلسفہ کو خانقاہی اور بابا کلچر کے تحت بیان کرتی ہیں۔ اس تناظر میں فاروق سلہیریا لکھتے ہیں:
’’ان سب اتفاقات کے پیچھے البتہ ایک گرینڈ اسکیم ہے۔ گرینڈ اسکیم بھی خوامخواہ نہیں، اس کے پیچھے ایک گرینڈ تھیوری ہے۔ جی ہاں! اور وہ تھیوری ہے بانو آپا کا نظریہ حلال و حرام۔
“اس نظریہ حلال و حرام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۲۷۴ تا ۲۸۱): ہمارے حلال اعمال اور حرام کاریاں ہماری جینز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پاگل پن کی وجہ حرام جینز ہیں۔ جس انسان کی جینز میں حرام داخل ہو جاتا ہے اس کی قسمت میں پھر گدھ کی طرح مردار کھانا ہی رہ جاتا ہے۔ اس نظریے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ‘سائنس’ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ لیکن کون سی سائنس؟
“یوجینکس کے نسل پرستانہ نظریات! (دیکھئے ص: ۶۶ تا ۶۷، ۱۱۱، ۱۴۲، ۱۴۹، ۳۳۷، ۳۴۲ تا ۴۳، ۳۶۱، ۴۴۴)۔ ‘‘
یہیں سے گمراہ کن خیالات کا عالمانہ اظہار کرنے کی ان دیکھی اجازت مصنفہ خود بخود قاری کو مسمرائز کرکے حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ عام قاری کے اذہان پر ایسا فکری قاتلانہ حملہ ہے جو قاری اپنے اندر کے علمی ادھورے پن کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے۔
ایسا ہی منافقانہ رویہ سیاسی و جغرافیائی تناظر میں حالیہ برسوں میں مذہبی شدت پسندوں نے شمالی علاقوں پر قابض ہو کر عالمی شہرت پائی۔ تاہم ان کا بڑا فکری و فلسفیانہ منبع برخلاف توقع صوفیانہ فلسفے کو رد کرنا تھا۔
تصوف، شریعت، طریقت مذاہب کی کڑیاں ہیں۔ اور اسلام میں ہندوستانی ثقافت کی آمیزش نے اسے مہمیز دی۔ راقم فکری مبارزات کو انسانیت کے لئے مبداِ فیض سمجھتا ہے تاہم ان رویوں کو ذاتی مفاد و مفاخرت کے لئے سم قاتل سمجھتا ہے۔ ان سے جو مفتقری پیدا ہوتی ہے وہ ان ادیبوں کے رویہ اور زندگیوں میں کیوں پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاوی آسودگیاں کی کثرت اور فراوانی ان کے ادبی خیالات کو کھا جاتی ہے۔
کچھ لکھاریوں نے اسے رائٹ و لیفٹ کی عامیانہ مبارزت بھی سمجھا جو قطعی بدگمانی کا شاخسانہ تھا۔ بانو قدسیہ ایک اچھی تانیثیت پرست ادیبہ کہلائی جا سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور شہاب کو اپنا استاد مانتے (ریکارڈ میں موجود ہے ) ہوئے اُس کنفیوزڈ دنیا میں قدم رکھا جہاں سے وہ نسائی ادب کے حوالوں سے بھی جاتی رہیں۔
تنگ نظری کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے قراۃ العین کی وفات پر ان کے بارے میں تعزیتی ریمارکس تک دینے سے انکار کر دیا تھا۔ (حوالہ بانو صوفی ازم اور نسوانیت کے حصار میں از ظفر سید ایک روزن ڈاٹ کام )
تصوف اور اس کے انسلاکات پرانسانی گفتگو قابل تعریف ہے۔ اگر اس موضوع پر مکمل دیانت داری سے لکھا جاتا تو یقیناً اس ناول کے بارے میں علمی حلقوں میں ایک مباحث سامنے آتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بانو قدسیہ کے تخلیقی وفور اور خلق کئے ادب نے تصوف کی تفہیم کو سجادہ نشینی، مزارات اور خانقاہوں کے بابا کلچر سے منسوب و موسوم کیا۔ یہ وہی ادیبانہ فلسفہ تھا جو اشفاق احمد رکھتے تھے۔ جو درحقیقت عقائد کی انتہائی رسوماتی اور ثقافتی ابہام پر مبنی حقانیت کا اظہار ہے۔
ایسے گمراہ کن طرزِ احساس اور انتشار کی طرف لے جانے والی لاینحل فکری سوچ کہیں انسانی مسائل کو مبینہ طور پر لفاظی کے قبا میں اوڑھائے اگر کوئی ادیب افادی علامتوں اور دیومالائی رنگوں سے انسانی خمیر کو ایک مہم کے تحت کسی رشتے میں جوڑنے کی سعی لاحاصل کرے تو اسے کم تر ادب کی دہلیز پر ہی روک دینا لازم ہے۔
راقم کو راجہ گدھ پر لکھے مضامین اور ستائشی طرز فکر سے یہ اندیشہ لاحق ہونے لگا کہ اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو یہ عفریت نما خیالات کہیں نابالغ اذہان پر ان کی ’’مبینہ فکری صداقت‘‘ کو ثبت نہ کر دیں۔ اور اردو ادب کے کلاسیک دیوان کا حصہ نہ بن جائیں۔ ایک ایسے ادب کو جو ابھی اپنی نام نہاد عمومی مقبولیت کی بنیاد پر ادب کا حصہ بھی بننے لائق نہیں۔
تاہم اس پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے راقم بالخصوص بانو قدسیہ کے ’’راجہ گدھ ‘‘ کے مطالعاتی پہلو کو زیرِ بحث لائے تو انسانی فطرت کے اُن رومانی اور جمالیاتی پہلوؤں کو آنے والے دور کی بشارتوں سے الگ ہو کر نہیں دیکھ سکتا۔
سیمی شاہ، آفتاب بٹ اور کا کردار اس کی بہترین مثال ہے۔
اس سے کہیں زیادہ بیانیہ اور کرداروں کی زبان میں بھی مصنفہ خود بولتی نظر آتی ہیں۔ سیمی شاہ کو ناول کے بیانیہ میں ’’گلبرگی لڑکی‘‘ کہنا مصنفہ کے اُس تعصبانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے جو انہوں نے ذہن کے کسی نہاں خانے میں مغربی تعلیم یافتہ لوگوں سے روا رکھا تھا۔
اسی طرح ناول کی یہ سطر ’’ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ، کھوپڑی ڈھائی ڈھائی انچ کی ہوتی ہے اس میں مارکس کے نظریات بٹھانا چاہتے ہو ۔۔۔۔‘‘ مصنفہ کے ذہن میں پلتے ہوئے ان خیالات کا اظہار ہے جو تعصب سے کہیں بڑھ کر نفرت میں بدلتا نظر آتا ہے۔ متذکرہ ناول میں وقت کے نازل کردہ عذابوں اور ہجر کے گھاؤ سے سہمے ہوئے انسانوں کو امید و بیم کے حصار سے نکال کر ایسی مبہم اور تاریک تقدیر آدم کے فلسفے کی طرف موڑ دیا گیا ہے جہاں تدبیر، علمی و عقلی رحجانات کرداروں کے انسانی دسترس سے کہیں دور ہوتے نظر آتے ہیں ۔
کیا انسان اپنی زندگی کے ایسے مختصر سفر میں لاینحل پڑاؤ کے کسی امکان کو الہامی، مادی ، معاشرتی اور تہذیبی فلسفیانہ حوالوں سے پاٹنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ میرا یہ سوال ان تبصرہ نگاروں سے ہے جو راجہ گدھ کو ایک ادبی شاہکار سمجھتے ہیں۔
بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اس طرزِ فکر کے ادیبوں کے پاس پر فریب خواب ہی رہ گئے ہیں جنہیں وہ ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ ان کے ہاں صدیوں کی ٹوٹی ہوئی نیند کوئی ایسا منظر ہی نہیں تراش سکی جس پر انسانی خون کے دھبے انہیں نظر آئیں۔
عرض ہے کہ خاکسار کا تعلق کسی ادبی گروہ سے نہیں ہے۔ تاہم ممتاز افسانہ نگار ، ناول نگار اور دانشور صاحب کا نام زندگی کے تینتالیس برس میں پہلی دفعہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایک عام چلن، ایک روایت یا ایک مشہور خیال/ نظریہ کے خلاف لکھنا اور پوزیشن لینا اکثر خود کو ” ہم ذرا ہٹ کر ہیں” سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ بھئی ہم تو جب بھی کسی سرکاری لائبریری میں گھسنے کی کوشش کی ہمیں اس کے نظام الاوقات یا ضوابط کی بنا پر دروازے سے ہی باہر آنا پڑا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ان تمام افراد کے ہاں جو گھروں میں کتابوں کی کولیکشن رکھتے ہیں کے پاس نعیم بیگ صاحب کے معتوب گروہوں کی اکثر کتابیں نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس “اداس نسلیں” کم ہی نظر آیا ہے۔ آپ کتابوں کی دکانوں پر جا کر دیکھ لیں چاہے ایک مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس علاقے میں کسی کتابوں کی دکان پر چلے جائیں چاہے up scale locality میں دیکھ لیں ہمیں تو انہی معتوبہ مصنفین کی کتابیں نظر آئیں ہیں۔ بہر حال چونکہ عوام ” جاہل ” ہوتے ہیں اس لیے بیگ صاحب جیسے دانشوراں کی باتیں ان کے سر سے گزر جاتی ہیں۔
عثمان سہیل صاحب، سب پرانے نبیوں کے ماننے والوں نے کسی بھی نئے بات کرنے کے حق رکھنے والوں کو کافر کہا۔۔۔ جانے انسانی تاریخ میں اس قدر مماثلت کیوں ہے۔