(الیاس رئیس بلوچ)
بلوچستان میں سب اچھا ہے جناب۔ ایک تو آبادی کم ہے، دوسرا یہاں اللہ نے دولت بہت دی ہے۔ لوگ بہت خوش حال ہیں۔ زندگی کی ہر وہ سہولت باقی دنیا جس کے لیے ترستی ہے، ان بلوچوں کو میسر ہے؛ ہسپتال، اسکول، کالج اتنے زیادہ ہیں کہ لوگوں نے ان کو اپنا مہمان خانہ بنا دیا ہے۔
کوئی عورت زچگی کے دوران نہیں مرتی کیوں کہ بہترین سہولتیں انہیں میسر ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے ہسپتال میں ہر وقت ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں، مریضوں کو مہنگی سی مہنگی ادیات مفت دی جاتی ہیں. پورے پاکستان کے سب سے بہترین ہسپیتال بلوچستان میں ہیں. لوگ پاکستان کے دیگر شہریوں سے علاج کروانے بلوچستان آتے ہیں.
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نے کام کر دکھایا ہے۔ اب تو بلوچستان میں لگ بھگ 100% بچے اسکول جاتے ہیں، ہر اسکول میں ضرورت سے زیادہ استاد ہیں اور سب این ٹی ایس کی وجہ سے میرٹ پر بھرتی ہوئے ہیں، اور ہر ایک اپنی فرائض نیک نیتی سے ادا کر رہا ہے. آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کی وجہ سے سارے بلوچستان میں سب نوجوانوں کو روزگار مل گیا تھا مگر ان لوگوں نے کام کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ یہ اتنے امیر ہیں کہ انہیں معمولی سرکاری نوکریوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اس لیے سرکار نے مجبوراً دیگر صوبوں سے مزدور اور سرکاری افسر بلا رکھے ہیں تاکہ سرکاری دفتروں میں کام چل سکے۔
بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ گاڑیوں میں سفر نہیں کرتے کیوں کہ وہ اتنے آسودہ ہیں کہ جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ گیس کی سہولت ہر بلوچ کے گھر میں موجود ہے مگر بلوچ گیس استعمال نہیں کرتے کیوں کے وہ اپنے آباواجداد کے ورثہ یعنی لکڑی کو چھوڑ نہیں سکتا۔
بلوچستان کے بڑے شہروں سے لے کر دیہات تک بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور بلوچستان میں لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی. لیکن دیہات کے لوگ بجلی استعمال نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنے قدرتی ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔
بلوچستان سادہ جنت ہے تو گوادر جنت الفردوس ہے۔ وہاں کے باشندے خوش قسمت ہیں۔ وہ سمندر کی وجہ سے اتنے امیر ہیں کہ وہ سونے کی پلیٹوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا پانی آسمان سے آتا ہے۔ 24 گھنٹے ان کے گھروں میں پانی موجود ہوتا ہے. ہر گوادری کے گھر میں کئی کئی غلام کام کرتے ہیں. دبئی وغیرہ سے عرب لوگ گوارد میں کام کرنے آتے ہیں۔
بلوچوں کی خوش حالی اس وقت شروع ہوئی جب پہلی بار یہاں سے گیس نکلی۔ پھر ریکوڈیک نے بلوچوں کو اور امیر بنا دیا ہے۔ اب جب سے سی پیک شروع ہوا ہے تب سے بلوچوں نے اپن نجی جہاز لے لیے ہیں۔
لیکن سنا ہے آج کل کچھ بلوچ اس شاہانہ زندگی سے بور ہوگئے ہیں۔ وہ پھر اپنے گدان میں جانا چاہتے ہیں، پھر وہی جوہڑ کا پانی پینا چاہتے ہیں، وہی پیش سے بنا جوتا پہننا چاہتے ہیں، وہی سوکھی روٹی کھانا چاہتے ہیں، وہ اسی پتھر کے زمانے میں جینا چاہتے ہیں۔