(ناصر عباس نیر)
یہاں لیکچر سیمینار اکثر ہوتے ہیں اور ان میں خاصی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ آج بنگلہ دیش کے سفیر کا لیکچر تھا۔ ڈاکٹر کرسٹینا نے مجھے اطلاع دی تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ اس کا اہتمام شعبہ جدید ہندوستانی زبانوں کے سربراہ پروفیسر ہانس ہرڈر نے کیا تھا ۔ہرڈر صاحب بنگلہ زبان کے ماہر ہیں۔یہ لیکچرکمرہ نمبر زیڈ ۱۰ میں تھا ،جس میں پچیس تیس لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یہاں اکثر لیکچر انھی چھوٹے چھوٹے کمروں میں ہوتے ہیں،جن میں صرف وہی اساتذہ اور طالب علم آتے ہیں جنھیں اس موضوع سے واقعی دل چسپی ہوتی ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیشی سفیر مسعود منان کے لیکچر کا موضوع ’’بنگلہ کاریاستی زبان کے طور پرظہور‘‘ تھا،مگر انھوں نے ایک گھنٹے پر محیط اس لیکچر میں بنگلہ زبان کے علاوہ، بنگال کی قدیم زمانے سے موجودہ عہد تک تاریخ کا خاکہ پیش کیا اور ایک خاص تفاخر کا اظہار ابتدا تا آخر کیا؛ تفاخر کا باعث بنگلہ کے مشہور اور ایشیا کے پہلے نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور (۱۸۶۱ء۔۱۹۴۱ء)تھے۔(ٹیگور کو ۱۹۱۳ میں ادب کا نوبیل انعام ملا تھا)۔ بنگلہ دیشی سفیر اس بات سے آگاہ نظر آئے کہ باہر کی دنیا میں کسی قوم کا فخر اس کا کلچر ہوتا ہے۔ مجھیمیتھیوآرنلڈ کی کتاب کلچر اور انار کی ہیں لکھی گئی ایک بات یاد آ گئی۔ ’’اگر کل کلاں انگلستان سمندر میں غرق ہو جائے تو اسے تاریخ میں کوئلے کی صنعت کی وجہ سے یا شیکسپیئر کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا؟‘‘ سفیرصاحب کی گفتگو سے باربار ظاہر ہورہا تھا کہ بنگلہ دیشی اپنی زبان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ان کی تقریر کا ایک بڑا حصہ ۱۱؍مارچ ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ میں قائداعظم کی اس تقریر کے بعد کے وقعات پر مشتمل تھا، جس میں قائداعظم نے اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا کی تحریک نے جنم لیا اور اس تحریک کا واحد مطالبہ یہ تھا کہ بنگلہ کو بھی قوی زبان بنایا جائے۔ ۱۹۵۲ء میں اس تحریک نے شدت پکڑی اور پھر کئی دوسرے عوامل نے بالآخر اسلام کے نام پہ قائم ہونے والے ملک کے دو حصے کردیے۔
سفیر صاحب نے بنگلہ دیش کے قیام کو انقلاب کا نام دیا۔ وہ پاکستان کے سلسلے میں ناستلجیا نہیں رکھتے تھے،جیسا کہ ہمارے یہاں مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ناستلجیا پایا جاتاہے ۔مجھے فیض صاحب یاد آرہے تھے:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
مگر ان کے لیے ’’انقلاب‘‘ سے پہلے کا زمانہ ناانصافی کا زمانہ ہے۔ان کے لیے خون کے دھبوں کا وہ مفہوم نہیں تھا ،جو ہمارے ذہنوں میں ہے،اور نہ خون بہانے والوں سے ان کی مراد وہ ہے ،جو ہماری ہے۔ وہ پاکستان کا ذکر اسی طرح کررہے تھے، جس طرح انگریز استعمار کا ذکر کرتے ہیں۔وہیں مجھے احساس ہوا کہ آج کے پاکستانی اور بنگلہ دیشی دو اجنبی دنیاؤں میں رہتے ہیں،جس کا آغاز شاید ۱۹۴۸ ہی میں ہوگیا تھا،اوریہ اجنبیت شاید اس وقت تک رہے گی ،جب تک خون کے دھبے دھل نہیں جاتے۔لیکن جنوبی ایشیائی تاریخ بتاتی ہے کہ خون کے دھبے جب ایک دفعہ لگ جاتے ہیں تو سیاست انھیں مسلسل دہراتی رہتی ہے ؛اگر وہ لوگوں کے حافظے سے محو ہونے لگتے ہیں تو انھیں مزید شدت سے ابھارتی ہے۔
سفیر صاحب نے بنگلہ زبان کے ارتقا پر کم اور اس سے وابستہ قوم پرستی کا ذکر زیادہ کیا۔شاید اس لیے کہ وہ جرمنوں کو اپنی زبان، قوم اور کلچر کی اہمیت سے روشناس کرانا چاہتے تھے ۔ بنگلہ دیش کے ساتھ اتفاق یہ ہے کہ وہاں ایک زبان ہے ۔جہاں ایک زبان ہو، وہاں کی قومیت پرستانہ آئیڈیالوجی مستحکم ہوتی ہے مگر جہاں ایک سے زیادہ زبانیں موجود ہوں، وہاں قوم پرستی کئی قسم کے تضادات سے مملو ہوتی ہے؛ کثیر لسانی معاشروں میں قومی یک جہتی کے تصور کو ہر لمحہ لسانی فرقہ واریت اور کسی ایک زبان کی استعماریت کا شکار ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔
دوپہر مینزامیں کھانے پر ڈاکٹر کرسٹینا سے کئی باتیں ہوئیں۔ میں نے پوچھا کہ یہاں عام لوگ نائن الیون کے واقعے سے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں۔ شاید وہ اس سوال پر گفت گو نہیں کرنا چاہتی تھیں، مگر پھر گویا ہوئیں کہ عام جرمنوں نے اسے ایک اہم خبر سمجھا اور اب بھلا دیا ہے۔ واللہ اعلم! تاہم انھوں نے ایک دوسری بات یہ بتائی کہ جب افغانستان میں جرمن فوجی (نائن الیون کے بعد) بھیجے جا رہے تھے تو عام جرمنوں نے بہت مخالفت کی۔ جرمنی جنگ کے خلاف ہے کہ جنگ میں جب دوسری اقوام کے لوگ مارے جاتے ہیں تووہ بدلہ لیتے ہیں۔ تو کیا جرمن خوف زدہ ہیں ؟یا اس امر کا اچھی طرح احساس رکھتے ہیں کہ جنگ دونوں طرف تباہی لاتی ہے۔شاید ان کے لاشعور میں کہیں دوسری جنگِ عظیم اٹکی ہوئی ہے۔ آج یہی ٹی وی پر خبر آ رہی تھی کہ یوکرین کے ایک نوے سالہ آدمی نے نازیوں کے محافظ کی حیثیت ہیں ۲۷۹۰۰ لوگوں کے قتل میں مدد کی۔ اسے آج عدالت نے بری کر دیا کہ وہ کئی برس کے قید کاٹ چکا تھا اور بوڑھا تھا۔ اس طرح کی خبریں جرمنوں کو شرمسار کرتی ہیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد کے جرمنی نے بہ حیثیت قوم، ہٹلرکا وارث بننے سے سختی سے انکار کیا ہے۔انھوں نے خون کے دھبے دھونے کی کوشش کی ہے۔
آج موسم اچھا تھا، مگر میرے لیے، جرمنوں کے لیے بادل اور ٹھنڈ سخت خراب موسم کی نشانیاں ہیں۔ وہ دھوپ چاہتے ہیں، جو زیادہ تیز نہ ہو۔ جوں ہی نرم، مہربان دھوپ نکلتی ہے۔ ہر سمت گلابی جسموں کی بہار امڈی دکھائی دینے لگتی ہے۔ خصوصاً خواتین جسم کے فقط ان حصوں کو نفاست تک کو ڈھانپنے پر اکتفا کرتی ہیں، جنھیں ننگا دیکھنا کراہت پیدا کرتا ہے، وگرنہ باقی سارا بدن دھوپ میں ایک انوکھی لو دینے لگتا ہے۔
شام کو سٹیشن تک پیدل گیا۔ آج میں نے ایک نیاراستہ اختیار کیا۔مینزا کے مشرق میں سڑک پر مڑا آگے شیل کے پٹرول پمپ کے پا س سے دائیں جانب ہو کر سیدھا چلا گیا۔چند قدم پردریاے نیکر کا پل تھا۔ یہ نسبتاً اونچا اور چوڑا پل ہے۔ شام ہو رہی تھی، تیز ہوا چل رہی تھی۔ مشرق کی سمت سبزے میں بہار دیتے پہاڑ، اس میں درشن دیتا پرانا کیسل اور مغرب کی سمت آہستگی سے دائیں جانب مڑتا نیکر تھا۔ عجب منظر تھا۔ اگر جنت کا مفہوم، بے پایاں حسن ہے تو اس لمحے مجھے یہ منظرجنت لگا۔
چوہدری شفیق سے،ان کے بسٹرو پر ملاقات ہوئی۔ زبردستی تواضع کی۔ پاکستان، اسلام،جرمنی کے بارے میں باتیں ہوئیں۔کئی سال پہلے ایک مزدور کے طور پر یہاں آئے ،اور اب ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔طبیعت میں حد درجہ انکسارہے۔ مجھے اصرار کے ساتھ یہاں اپنی گاڑی میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے گیسٹ ہاؤس تک چھوڑ گئے۔
رات سونے سے پہلے سکائپ پر بیٹوں اور اباجی کو دیکھا، جی خوش ہوگیا۔ طاہرہ سے ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔