یہ تصویر پچھلے سال مارگلہ کے پہاڑوں پر لگنے والی آگ کی ہے۔ یہ تقریباً معمول بن گیا ہے کہ ہر سال مارگلہ (اسلام آباد) کے پہاڑوں پر آگ لگ جاتی ہے۔ سی ڈے اے کا عمل بھاگتا دوڑتا وہاں پہنچتا ہے اور دو دن کی طویل مشقت کے بعد آگ پہ قابو پا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے واقعات ملک کے دیگر پہاڑی علاقوں میں بھی سننے کو ملتے ہیں۔ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ ان واقعات کی انکوائری کی جاتی ہے مگر کوئی خاص وجوہات سامنے نہیں آتیں اور
نہ ہی کبھی کوئی مجرم کیفرِ کردار تک پہنچا دکھائی دیا ہے۔
یہ تو ایک طرح کی مجموعی بے حسی اور ہمارے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ہی مگر اب ضرروت اس امر کی ہے کہ ہمیں کفِ افسوس مَلنے کی بجائے ان پہلوؤں پر بھی زور دینا چاہیے کہ کیا ہم نے وہاں دوبارہ شجر کاری کی؟ کیا مستقبل میں کسی ایسے وقوعے کو روکنے کے لیے ہم نے کوئی منصوبہ سازی کی؟
آپ ان جگہوں پر جا کر دیکھ سکتے ہیں جہاں آگ نے درختوں کو خاکستر میں بدل دیا ہے وہاں آج تک کئی سال گزرنے کے باوجود کسی شجر کاری کا نام ونشان نہیں ملتا۔ہم بے حس قوم تو تھے ہی نیچر تباہی میں بھی سب سے آگے ہوں گے اس کا علم نہیں تھا۔
ہمیں اس ایک پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جہاں درخت نہیں وہاں درختوں کو فی الفور بحال کیا جائے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.