بِگل اور قومی صوت پیما، کھٹن راستے؟

(نعیم بیگ)

 

وولٹیئر نے کہا تھا ، ’’ سماج میں قتل کرنے کی ممانعت ہے، لہذا تمام قاتلوں کو اس وقت تک سزا ملنی چاہیئے جب تک اکثریت کے قتل کی دھوم بِگل کے شور میں دب نہ جائے۔‘‘
سرِل ائلمیڈا کی چھ اکتوبر کی اخباری سٹوری نے ایوانِ اقتدار کے در و دیوار ہلا دیئے ہیں۔ تردید پر تردید ، صحافی پر قانون کا اندھا اطلاق، عالمی اور ملکی میڈیا کا بھرپور احتجاج ، حکومتی سطح پر صحافیانہ قدر و قیمت کی از سرِ نو تشکیل ، عسکری حلقوں سے سول انتظامیہ کی ریاستی امور میں دشوار گزار پیچ و خم کی سیاست پر کسی قسم کے کمنٹس نہ کرنے کا عندیہ اور معنیٰ خیز خاموشی ،عالمی سطح پر تنہائی کے راگ پر خطے میں امن کی بلبل کا پرسوز آہنگ، پڑوس اور اطراف میں بجنے والے دشمنوں کے ڈھول کا شور و غوغا اور دوستوں کی اندونخانہ پوچھ گچھ، چھان بین اور بین السطور مشورے ۔۔۔ ( ان دوستوں کے کھربوں ڈالر کے مفادات اب اس سرزمین سے منسلک ہو چکے ہیں) یہ وہ سب باتیں ہیں جو گزشتہ تین چار دنوں میں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ شنید میں تھا کہ ایوان اقتدار سے صحافیوں کو ایک بار پھر نئے سرے سے حالات و واقعات کی کڑیاں ملانے کو کہا جائے گا۔ حقائق کے مبینہ طور پر’’ مسخ ‘‘ہو جانے پر انہیں سرزنش بھی کیا جا سکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی نئی بات بھی سامنے آئے۔
تاہم کابینہ کے اہم وزیر نے آج جس طرح غم و غصہ اور بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے اور حالات کے تحت درونِ خانہ کی خبر کو خود ہی دشمنوں کے حوالوں سے منسوب کر کے حکومتی پالیسیوں کے تصور کو فرجائیل کر دیا ہے۔
لیکن یہ سب ہے کیا؟
بِگل تو بجانے والے نے بجا دیا کیا ہمارے قومی صوت پیما یہ بتا سکتے ہیں کہ آواز کی دھن کے ساتھ ساز کی درست نشان دہی میں کتنے ڈیسیبل (ڈی۔بی )کا شور میسر ہے؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بگل بجانے والے اپنے فرائض کی انجام دہی میں وہی آواز نکالیں گے جس کے سُر نرسنگا میں پروئے گئے ہیں ، ہاں آواز کی طاقت کا اندازہ اسکے سننے والے کر سکتے ہیں۔
کیا واقعہ وہی ہے جس کی کل عالم میں دھوم مچی ہے یا سیاست کے تمام سائینسی و عمرانی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ہم منافقت کے وہی سنہری جال دوبارہ پھیلائیں گے جس پر ریاست پہلے سے ہزاروں نوجوانوں ، شہیدوں ، بچوں اور عورتوں کو قربان کر چکی ہے ۔ وقتِ نازک کا تقاضہ یہ نہیں کہ ملکی سطح پر کون اس وقت کیا کہہ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون اس وقت کیا کر رہا ہے؟
ہم عالمی تقاضوں پر کیوں پورا نہیں اتر رہے؟ کالعدم اور غیر کالعدم نان سٹیٹ ایکٹرز کیا اسقدر ریاستی مقتدر حیثیت اختیار کر چکے ہیں کہ ان ہولی پرندوں کو کوئی پابند و سلاسل نہیں کر سکتا یا انہیں روک نہیں سکتا۔ ابھی چند روز پہلے اسی ایشو پر معروف صحافی اور دانشور ایاز میر کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی حیثیت کسی طور پر کسی محب الوطن شخص سے کم نہیں تو انہیں کیوں باقاعدہ ریاستی مشنری میں ضم نہیں کر لیا جاتا تاکہ ان کے سروں کی قیمت کا معاملہ یکبارگی طے ہوجائے اور کسی پڑوسی ملک کو یہ کہنے کی جراتٗ نہ ہو کہ ہمیں فلاں چاہیئے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو عدالتی چارہ جوئی سے اس ٹنٹنے کو ہمیشہ کے لئے طے کر دیا جائے۔
اس وقت ملک کی سلامتی قوم کو عزیز ہے پوری قوم کا ایک ایک فرد اِس ایک بات پر متفق ہے کہ ہماری جغرافیائی سرحدیں نظریاتی سرحدوں سے ( جنہیں ہم اپنا ریاستی جزولاینفک بنا چکے تھے ) سے کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ پہلے جغرافیائی سرحدیں محفوظ کی جائیں باقی کام بعد میں ہو سکتے ہیں۔ مشرق میں پڑوسی اپنی سرحدوں پر سینکڑوں میل طویل باڑ لگا چکا ہے ، ہم ہیں کہ بابِ خیبر پر ایک چھوٹی سی امیگریشن رکاوٹ ( اپنے علاقے کے اندر ) بناتے ہیں تو مغربی باڈر سے مزاحمت آتی ہے۔
قوم اس وقت موجودہ عسکری قیادت کے اخلاص میں کسی قسم کا کوئی شائبہ نہیں رکھتی ، لیکن یہ ممکن نہیں کہ سول قیادت پانامہ لیکس اور کرپشن کے میدان سے نکل کر عسکری قیادت کو دباؤ میں لائے یا پھرعسکری قیادت ملکی سلامتی کی آڑ میں کسی قسم کی نئی مہم جوئی کو اپنے ذہن میں جگہ دے۔
جمہوری ادوار کا تسلسل ایک اچھا شگون ہے لیکن ریاست کی جغرافیائی سلامتی سب سے بڑھ کر ہے اس پر قوم کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی ۔ اس وقت قومی یکجہتی کا تقاضہ ہے کہ درون خانہ معاملات احسن طریقے سے نبٹائے جائیں ۔ اگر کوئی خبر ایوانِ اقتدار سے لیک ہوگی ( بھلے وہ لیک فیِلر کے طور پر کی جائے یا ڈس ا نفارمیشن کے طور پر ) اس پر ملکی سیکوریٹی ذمہ دار ادارے جواب دہ ہیں انکی پکڑ کی جائے ۔ وہ صحافی کسی طور پر جواب دہ نہیں جو اخبارات یا میڈیا کے لئے کام کرتے ہیں۔ ہاں خبر کے غیر مصدقہ ہونے پر انہیں ضوابط کے تحت ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ انکے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور اگر معاملات اس قدر دگردوں ہیں تو عدالت عظمیٰ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔
حال میں ہی ہائی کورٹ اسلام آباد میں بے ضابطہ تقریوں پر سپریم کورٹ نے سٹرن ایکشن لیا۔ ان تمام سفارشی اور بے ضابطہ تقرر پانے والے بیسیوں اہل کاروں کو جن میں گزٹیڈ افسران بھی شامل تھے نکال باہر کیا ۔۔۔۔ لیکن ذمہ داران کا کیا ہوا؟ ابھی تک خاموشی ہے۔ گمان اغلب ہے کہ ضرور کوئی کاروائی ہوئی ہو گی لیکن عوام الناس بے بہرہ ہیں۔
قوم اس وقت سِرل ائلمیڈا کی رپورٹ سے یوں صرفِ نظر کر سکتی ہے کہ متاثرہ حکومتی ادارے خود مکمل سچ کوسامنے لائیں اور قومی سلامتی کے نام پر ملکی تحفظ کے ایسے مقبول فیصلے کئے جائیں جس سے اولاً عالمی تنہائی ختم ہو ، دوئم ضرب عصب کے مثبت نتائج سامنے آئیں، سوئم پڑوسیوں سے جنگ کے ممکنہ خطرات کو دور کیا جائے ۔
قوم اس وقت امن کی متلاشی ہے جسے ہر قیمت پر خریدنا ہماری ضرورت ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔