(جنید الدین)
“میرا داغستان” کوئی ادبی شاہکار نہیں، نہ تو یہ کوئی ناول ہے اور نہ اس کا مصنف “رسول حمزہ توف” کوئی نوبل انعام یافتہ ادیب۔ “حمزہ توف” کوئی سربراہ مملکت بھی نہیں رہا اور نہ وہ خود کو فلسفی کہلوانے کا دعویدار ہے۔ تو پھر “میرا داغستان” ہے کیا اور “رسول حمزو توف” کون ہے۔
“میرا داغستان” ایک چھوٹے سے پہاڑی علاقے داغستان کا سماجی، معاشرتی، عمرانی، لسانی اور ثقافتی انسائیکلو پیڈیا ہے، جسے حمزہ توف نے ذاتی تجربات کی شکل میں سوانح عمری کے انداز میں قلمبند کیا اورنجیب محفوظ، اورحان کمال، جیمز جوائس اور چارلس ڈکنز کے برعکس فکشن کے میک اپ کے بغیر عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کی دنیا بھر میں بے پناہ پذیرائی کا سبب اس کے کرداروں کی سادگی اور ادیب کا بانکا طرز تالیف ہے۔
یوں تو پوری کتاب ہی دلچسپ واقعات، پہاڑی ثقافت اور وہاں کے لوگوں کی فطری سادگی کے واقعات سے مزیّن ہے، لیکن اس میں سب سے دلچسپ اور جذباتی حصہ وہ ہے جس میں عورتیں آپس میں لڑتے وقت ایک دوسری کو یہ بد دعا دیتی ہیں کہ خدا کرے تیری اولاد کو اس کی زبان بھول جائے اور یہ بد دعا اولاد کے مرنے سے بھی زیادہ منحوس سمجھی جاتی ہے۔
یہ مادری زبان ہی ہے کہ بظاہر کاکیشیائی النسل اور ہم مذہب ہونے کے، یورپ کے ہر ملک کی اپنی شناخت ہے۔
روسی ہو یا جرمن، فرانسیسی ہو یا انگریز سب کے آباؤ اجداد کوہ قاف کے پہاڑی علاقوں کے مکین تھے جو ایک ہی وقت آپس میں علیٰحدہ ہوئے اور ایک ساتھ ہی عیسائیت کو اپنایا۔ اپنے لمبے قد، چوڑے ماتھوں، سفید رنگ اور مذہب کے ایک ہونے کے باوجود جو چیز انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ انکی مادری زبانیں ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے، قومی ریاستوں کے قیام اور دوسری جنگ عظیم اور برطانیہ و فرانس کی استعماریت کے غروب کے بعد جس چیز نے جنم لیا وہ ایسی جدید نو آبادیاتی شہریت تھی جس کے مکین برطانیہ اور فرانس سے ملنے والی زبانوں کے لے پالک وارث تھے۔ یعنی عام سے ہٹ کر ایک ایسے طبقہ کا ظہور ہوا جس کے مطابق انسانی زندگی کی فلاح سابقہ حکمران ممالک کی زبان و تہذیب اپنانے میں پنہاں ہے۔ ایسا خاص طور پر ہندوستان میں ہوا جبکہ دیگر ممالک نے بہت جلد ان لسانی زنجیروں سے جان چھڑا لی۔ مثال کے طور پر چین نے جاپان، اور سربیا نے ترکوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی بات میں مضبوطی پیدا کرنے کی خاطر، عربوں کے دیگر ممالک پر قبضہ کرنے اور محکوم ممالک کی عربی سیکھنے کی مثال دیتا ہوں۔ لیکن تمام تر کوشش کے وہ ایرانیوں کو اس بات پہ مجبور نہ کر سکے کہ وہ عربی سیکھیں۔ اور یہ کیا تھا؟ یہ تھی ایرانی قوم کی عظیم تہذیب و ثقافت جس کا کھلم کھلا اظہار فردوسی اپنے شاہنامے میں کرتا ہے:
”وہ گو کا گوشت کھانے اور اونٹنی کا دودھ پینے والے بدو آج فارس پہ قابض ہو گئے ہیں اے آسمان میں تجھ پر تھوکتا ہوں۔”
گو کہ اس سارے عرصہ میں مختلف ممالک کے با اثر افراد نے مادری زبان، اسکی اہمیت، اسکی لوک داستانوں کی وسعت اور ان میں چھپے معانی کے بارے میں لازوال افکار پیش کئے،جیسے چیئرمین ماؤ نے یہ کہتے ہوئے کہ چین گونگا نہیں، انگریزی بولنے سے انکار کر دیا؛ اور منڈیلا نے اس فقرے سے کہ کسی بھی دوسری زبان کے برعکس یہ مادری زبان ہی ہے جس کی راہ دل سے نکلتی ہے، مادری کی حقانیت پہ مہر لگا دی۔
لیکن حالیہ پیش آنے والے ایک واقعہ نے کارل مارکس کے ہندوستان اور ہندوستانیوں کے اوپر لکھے ان مخطوطات کو سچ ثابت کر دیا کہ ہندوستانیوں کی کوئی تاریخ نہیں، کوئی ثقافت نہیں، بجز اس خطئہ ارض کے اوپر حملہ کرنے والے جنگی لشکروں اور قابض حکمرانوں کے۔ گو کہ بہت سے تاریخ دانوں نے اس بات پہ ناک بھوں چڑھائی ہوگی، لیکن بیکن ہاؤس سکول کی طرف سے طلبا کو جاری ہونے والے ہدایت نامے جس میں لکھا گیا ہے کہ طلبا کو اجازت نہیں کہ وہ سکول کی حدود میں پنجابی بولیں اور والدین و طلبا کی طرف سے اس کو تسلیم کر لینے کے بعد بھی کیا وہ الٹی سیدھی کتابوں کے صفحات کھنگالیں گے، حاشیے لگائیں گے یا مارکس اور اینگلز کے ان مضامین کے تناظر میں تاریخی مادیت کو تسلیم کر لیں گے۔
آخر بیکن ہاؤس کو یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ وجہ واضح ہے کہ ادارہ خود کو اسی لےپالک طبقہ کا سکول کہلوانے کا دعویدار ہے، اور خود کو اس طبقہ کا نمائندہ کہلوانے کیلئے سب سے ضروری چیز اس کا مہنگا ہونا یعنی فیس کا سٹرکچر ڈالر و پاؤنڈ کے لحاظ سے متعین کرنا اور والدین کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ ہم اور کچھ کریں نہ کریں لیکن بچے کا پینڈو پن ختم کروا دیں گے۔ پنجابی بولنے والے کو پینڈو قرار دلوانے میں بھی ایک مخصوص طبقہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ جس کی پنجابیوں سے جلن اس بات پہ بھی رہتی ہے کہ وہ گوشت والے چاول کو بریانی کیوں کہتے ہیں، حالانکہ اس بات پہ کبھی ایرانیوں نے اعتراض نہیں کیا۔ اور اسی پینڈو پن کے خاتمہ کے چکر میں ایک برائلر نسل کی پرورش ہوتی ہے جس کے پاس تہذیب و ثقافت سے نفرت کرنے کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں ہوتا۔
اعدادوشمار نکالے جائیں تو یہ واضح ہو جائے گا عملی میدان میں ایسے سکولوں سے تعلیم یافتہ نوجوان باقی اداروں کی نسبت بہت پیچھے ہیں۔ ہر ضلع میں ان کی شاخ اور بڑے شہروں میں ان گنت کیمپس ہونے کے باوجود سول سروس میں ان کے طلبا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوگی اور یہی حال میڈیکل کالجز میں بھی نظر آتا ہے۔ کیا ہر سال کم از کم پانچ ہزار فارغ التحصیل طلباء میں سے پانچ بھی سول سروس کا امتحان پاس کر سکتے ہیں، اور کیا اس ادارہ کے اساتذہ ہی ایسا کر سکیں گے۔ یقیننًا نہیں! تو پھر کس منہ سے یہ طلباء کو مجبور کرتے ہیں کہ انہیں کس زبان میں بولنا چاہیے اور کس میں نہیں۔ کیا یہ ہیر وارث شاہ سے بہترین عشقیہ نظم پیش کر سکتے ہیں۔ کیا بلھے شاہ سے زیادہ کھرے انداز میں عشق مجازی کو عشق حقیقی کے پردہ میں ڈھال سکتے ہیں۔ کیا غلام فرید سے درد انگیز شاعری بھی کسی نے کی ہے؟ کیا بابا فرید سے بہتر انداز میں کسی استاد نے شاگرد کو نصیحت کی ہے۔ کیا مرزا صاحباں کسی طور بھی رومیو اینڈ جولیٹ سے کمتر ہے؟
کیا روس جیسا دہقان زدہ معاشرہ بھی پگڑی سنبھال جٹا سے بہتر نعرہ تخلیق کر سکا ہے؟ کیا بھگت سنگھ بھی پنجابی نہیں بولتا تھا؟ اور کیا ہندوستانی چوکوں چوراہوں میں بابا نجمی کے مجسمے آویزاں نہیں کیے جا رہے۔ پیسے کے سوا تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تم نے پنجابی بولنے پہ نہیں، پنجابی سمجھنے اور پڑھنے پہ پابندی لگائی ہے۔ کبیر پہ، فرید پہ، ہاشم پہ، وارث پہ، بلھے پہ، راہی پہ، باقی پہ، شاکر پہ اور نجمی پہ جب تک ان کی کتابوں کی سیاہی کا آخری حرف نہیں مٹ جاتا، ہم بھی ان پابندیوں کے خلاف لکھتے رہیں گے۔
پنجابی شعر ہے:
اچیاں کنداں ڈک نہ سکن
پھلاں دی خوشبو