(اصغر بشیر)
چونکہ ادب کا ہر طالب علم تاریخ کو بات بے بات گفتگو میں لے آتا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے آیا تاریخ ادب کا حصہ ہے۔ تاریخ واقعات کا ایسا بیان ہے جس میں ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی ترتیب کو مد نظر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ واقعات کا تاریخی طور پر بے ترتیب بیان تاریخی واقعات کا بیان تو ہو سکتا ہے لیکن تاریخ نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف دنیا کے ہر ادب کی بنیاد انسانی تخیل پر ہے۔ دنیا کا ہر ادیب تخیل کو الفاظ اور مخصوص تکنیک کی مدد سے بیان کرتا ہے۔ اخلاقی جبر سے متاثر ہو کر اپنے تخیل کو اس طرح پرواز دینا کہ یہ پرواز ماضی میں ہونے والے واقعات میں مخصوص اخلاقی و مذہبی نصیحت و دلیل بھردے تاریخ سوزی کا عمل ہے۔ یہ عمل کسی حد تک کار آمد تو سکتا ہے لیکن اس کو تاریخ کہنا اور اس کے تاریخ ہونے پر بضد رہنا الف لیلوی حقیقت پسندی اور تہذیبی نرگسیت کو جنم دیتا ہے۔ کیا ہم اپنی تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بقا کی جنگ ہمارے ماحول میں موجود ہر شے کی روح میں شامل ہے۔ ہر وجود اور ہر خیال اپنے پیدائش کے ساتھ ہی بقا کی Factory Settings بھی لے کرآتا ہے۔ کسی بھی خیال کا اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار وجودیت سے انکار ہے۔ وجودیت کا یہ انکار ہمارے گھٹی میں رچا ہوا ہے۔ ہم اپنی غربت، کم علمی، بددیانتی، برائی، کند ذہنی اور کم مائیگی کو نہیں مانتے کیونکہ ان خیالات کی بقا اسی میں ہے کہ ان کے وجود کا قرار نہ کیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک خیال کی حقیقت کو کیسے جانا جائے؟ کسی بھی شے کی حقیقت جاننے کا بہترین طریقہ اس کا معروضی جائزہ ہے۔ یہ ہمیں سائنس نے بتایا کہ کسی چیز کی حقیقت کو جاننے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا جائزہ چند اصول و ضوابط کی مدد سے لیا جائے۔ ایسے اصول جو مختلف عوامل کی موجودگی میں بغیر متاثر ہوئے صحیح نتیجہ دیں۔ تہذیبی ارتقا کے اصول بتاتے ہیں کہ ہم تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہیں۔ ہماری تہذیبی نرگسیت کا ذمہ دار کون ہے؟
کسی بھی قوم کے تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑے ذمہ دار اس قوم کو تخیل دینے والے ہوتے ہیں۔ چونکہ کوئی بھی اعلیٰ انسانی فلسفیانہ گفتگو ایسے سوالات کے بغیر ناممکن ونا مکمل رہتی ہے جن کے جواب مذہب دیتا ہے، اس لیے اس کی حالت کوئی بھی ہو، مذہب موجودہ انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس لیے ایک قوم کے مذہبی رہنما اور ادیب اس کی سمت کا تعین کرتے ہوئے اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس لحاظ سے اپنی تاریخ اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ ادیب اور مولوی تو نہیں جو نجات بیچتے بیچتے عذاب بیچ کر چلے گئے ہیں۔
اس حوالہ سے ابولاعجاز حفیظ صدیقی کی تاریخی صداقت کے حوالے سے تحریر قابلِ غور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخی صداقت کے اعتبار سے تاریخ کی کسی کتاب کے سب سے زیادہ مشکوک اور ناقابل اعتبار حصے وہ ہوتے ہیں جو افسانوں کی طرح دلچسپ ہوں۔ چنانچہ تاریخ کے ان دلچسپ حصوں کو محققینِ تاریخ نے ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھا ور نا قابل استنا د و اعتبار ٹھہرایا ہے۔ میرتقی میر سے منسوب اڑھائی یا پونے تین شعر والا لطیفہ، فردوسی کا محمود غزنوی کی ہجو لکھنا، فردوسی کا محمود غزنوی کے شعرائے دربار کی بزم عیش میں بدیہہ گوئی کے ایک امتحان کے بعد بار پانا، بچپن میں حسن بن صباح، نظام الملک اور عمر خیام کا ایک دلچسپ معاہدہ، حافظ شیرازی اور امیر تیمور کی ملاقات، شیخ سعدی اور اباقا خان کی ملاقات نہایت دلچسپ واقعات ہیں۔ واقعات کی جزئیات و تفاصیل بھی فنکارانہ ہیں اور ان کی ترتیب و تنظیم بھی فنی نوعیت کی ہے۔ بس یہیں سے محققین کو ان واقعات کی صداقت میں شک پیدا ہوا کہ یہ واقعات یکسر فطریاور تاریخی نہیں ہوسکتے۔ تحقیق کا عمل شروع ہوا۔ چنانچہ ان میں سے بیشتر واقعات کا غلط، وضعی اور فرضی ہونا پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا۔ تاریخ کے ایسے دلچسپ حصے اگر عدم ثبوت کی بنا پر غلط قرار نہ دیے جاسکیں تو بھی انہیں تاریخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (۱)
حوالہ جات
۱۔ حفیظ صدیقی ، ابوالاعجاز، اصناف ِ ادب، سنگت پبلشرز، لاہور، ۲۰۱۲، ص ۳۵۰