محمد شاکر عزیز
قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ قوم دیوار ہے تو افراد اس کی اینٹیں۔ لیکن یہ اینٹیں اکیلی ہی دیوار نہیں بناتیں۔ صرف اینٹیں کھڑی کرو تو دیوار ایک حد کے بعد کھڑی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اینٹوں کو جوڑنے کے لیے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ اور قوم نامی دیوار کو مضبوط کرنے والے سیمنٹ کا نام مشترکہ اقدار ہیں، مشترکہ سوچ اور ایک ہونے کا احساس۔ افراد میں اگر یہ احساس مفقود ہو جائے، ماند پڑنے لگے تو اس کے نتیجے میں قوم نامی دیوار اینٹوں کی گھوڑی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ راج مستریوں کی اصطلاح میں گھوڑی اینٹوں کا ایک ایسا مجموعہ ہوتی ہے جو سراسر عارضی مقصد کے لیے ایک جگہ اوپر نیچے لگا دی جاتی ہیں بغیر کسی سیمنٹ یا جڑنے والے مادے کے، اکثر گارے کے بھی بغیر۔ افراد میں اقدار مشترک نہ رہیں تو وہ قوم کے اندر اینٹوں کی گھوڑیاں بن جاتے ہیں۔ ایک یہاں لگی ہے دوسری وہاں لگی ہے، اور ان گھوڑیوں کا کوئی مقصد مشترک نہیں ہوتا۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا بن جاتا ہے، لیکن یہ ایجنڈے عارضی، نا پائیدار اور عدم استحکام پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ افراد کے یہ گروہ نہ صرف قوم کو کمزور کرتے ہیں بلکہ خود کو بھی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے افراد میں قدرِ مشترک کا احساس پایا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
قدرِ مشترک کئی چیزوں کے اشتراک کا نام ہے۔ اس میں سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی، علاقائی، قبائلی، رنگ و نسل سے لے کر زمانے تک کے متغیر آ سماتے ہیں۔ انہیں میں کچھ متغیر تنوع بھی تشکیل دیتے ہیں لیکن متغیرات کی ایک اکثریت یکجہتی تشکیل دیتی ہے۔ جس کے تحت قوم آپس میں جڑی رہتی ہے۔ قدرِ مشترک کو ایک اور نام دیں تو سماجیات کی اصطلاح “سماجی شناخت” استعمال کی جا سکتی ہے۔ سماجی شناخت ایک تکنیکی اصطلاح ہے، لیکن یہاں ہم اوپر بیان کیے گئے تمام متغیرات میں سے ایک، کچھ یا تمام پر مشتمل احساسِ خودی اور پھر احساسِ یکجہتی کو سماجی شناخت کا نام دے سکتے ہیں۔ سماجیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ سماجی شناخت کوئی لوہا پتھر نہیں، بلکہ یہ مائع جیسی کوئی چیز ہے جو شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ سماجی شناخت کسی ایک متغیر پر مشتمل نہیں ہوتی، یہ کئی متغیرات کا مجموعہ ہو سکتی ہے، یہ مختلف مواقع پر مختلف متغیرات کو اپنا سکتی ہے۔ ذاتی طور پر میں نے جو کچھ پڑھا، دیکھا، سنا اور محسوس کیا، مجھے جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ سماجی شناخت کئی متغیرات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جس میں اوپر بیان کردہ تقریباً تمام تر چیزیں آ جاتی ہیں۔ اور یہ متغیرات مختلف مواقع پر، مختلف سیاق و سباق میں، ہماری روز مردہ زندگی کے ہر مقام، جگہ، وقت کے حوالے سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً میں ایک جگہ بیٹا ہوں، ایک جگہ استاد ہوں، ایک جگہ فری لانس مترجم ہوں، ایک جگہ بلاگر ہوں، ایک جگہ مسلمان ہوں، ایک جگہ پنجابی ہوں، ایک جگہ پاکستانی ہوں، ایک جگہ پڑھا لکھا نوجوان ہوں، ایک جگہ مریض۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اپنے روز مرہ میں مَیں کئی چہرے اپناتا ہوں، اپنی سماجی شناخت تشکیل دیتا ہوں۔ کبھی کوئی متغیر سامنے رکھتا ہوں کبھی کوئی، لیکن ان سب کے علاوہ میری ایک نسبتاً مستقل سماجی شناخت ہے، میری خودی، میری انا، جو میری یعنی محمد شاکر عزیز کی شخصیت وضع کرتی ہے، میری نظروں میں بھی اور میرے جاننے والوں، پڑھنے والوں کی نظر میں بھی۔
اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس ساری سماجی شناخت کے باوجود میں شناخت کے بحران کا شکار ہوں۔ جیسے اس قوم کا قریباً ہر فرد تذبذب میں مبتلا ہے کہ کدھر جائے، کیا کرے۔ کچھ متذبذب ہیں اور کچھ نے ایک شناخت کو اتنی شدت سے تھام لیا ہے کہ چاہے انگلیوں سے خون رسنے لگے، وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اور اس شناخت کو خود پر اتنا طاری کرتے ہیں کہ وہ دوسرے متغیرات سے مکمل طور پر انکار کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا شناخت کسی ایک سماجی متغیر کا نام نہیں، سماج میں موجود بے شمار متغیرات مل کر آپ کی شخصیت تشکیل دیتے ہیں۔ یہ کم ہوں یا زیادہ وہ الگ بات ہے لیکن کثیر متغیرات موجود ضرور ہوتے ہیں، جب کوئی شخص یا اشخاص کسی ایک متغیر کو خود پر ایک حد سے زیادہ طاری کر لیتا/ لیتے ہیں تو جو چیز سامنے آتی ہے اسے میں انتہا پسندی، فکری قحط سالی اور اپنی سماجی شناخت کے ایک حصے کا قتلِ عام گردانتا ہوں۔
اجتماعی سطح پر دیکھوں تو میرے سامنے دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک جو متذبذب ہیں، جو کوئی ایک سماجی شناخت اپنانے/ اس کا اقرار کرنے سے گریزاں ہیں، یا ڈرتے ہیں اور اسی ڈر میں دوسری سماجی شناخت اوڑھے رہتے ہیں، دوسری جانب وہ ہیں جو اتنے سخت دل ہو چکے ہیں کہ اپنے شخصی تنوع کو قبول نہیں کرتے اور خود کو ایک خول میں بند کر لیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے” اللہ نے تمہارے قبیلے بنا دئیے تاکہ تم پہچانے جاؤ” (مفہوم)۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر۔۔۔الخ کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ قرآن قبیلے کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ قرآن ایک سماجی شناخت کا ذکر کرتا ہے کہ ہاں تنوع رکھا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی نبی ﷺ کی زبان سے کہلوا بھی دیا گیا کہ خبردار خود کو افضل نہ سمجھ بیٹھنا۔
میں ایک پاکستانی ہوں، ایک مسلمان ہوں، میں ایک خاص جغرافیائی خطے کا رہائشی بھی ہوں، میں ایک خاص زبان بھی بولتا ہوں، میں ایک خاص پیشے سے منسلک بھی ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سارے متغیرات، یہ ساری شناختیں میری تعریف کرتی ہیں، میری شخصیت کو سماج میں تعمیر کرتی ہیں۔ مجھے وہ بناتی ہیں جو میں ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہر ایک کی نہیں ہے۔ اس ملک کی اساس اسلام قرار دی جاتی ہے۔ میں بڑے بڑے مدلل مضامین پڑھتا ہوں جن میں نظریہ پاکستان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے، پاکستان کی “نظریاتی بنیادیں” کھودنے والوں پر لعنت کی گئی ہوتی ہے۔ تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ فکری بحران، فکری قحط سالی کیوں؟ ایک ہی شناخت کو خود پر اوڑھ لینے کا عمل کیوں؟ انتہا پسندی کیوں؟
کچھ نظریہ ساز، پاکستان کے رکھوالے اور پھر اسلام کے رکھوالے، پاکستان کو 712 ء سے تخلیق شدہ بتاتے ہیں جب محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ باقی سارے متغیرات نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں جو انہیں، مجھے اس قوم کو شناخت عطاء کرتی ہیں۔ زبان، رنگ، نسل، جغرافیہ، پیشہ ،پانچ ہزار سالہ تاریخ اور آج کا زمانہ کچھ متغیرات ہیں جو مذہب کے علاوہ ہماری شناخت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ان سب کو نظر انداز کر کے صرف مذہب کیوں؟ مذہب کو اپنانا افضل ہو گا، نبی ﷺ کے ساتھ خود کو موسوم کرنے سے بڑی بات بھلا دنیا میں کوئی ہو سکتی ہے؟ لیکن پھر قرآن قبیلوں کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ اللہ نے رنگ اور نسل کیوں الگ الگ رکھ دئیے؟ اتنا تنوع کیوں ہے؟ ہم عرب میں ہی کیوں نہ پیدا ہو گئے؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے؟ عمومی مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ عین حق لگتا ہے۔ آخر اسلام دنیا کا آخری دین، اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں رہنی چاہیئے۔
لیکن پھر بار بار اس یقین کا انکار کیوں ہوتا ہے؟ 1947 میں پاکستان کے بعد برصغیر میں کیا صرف مذہب سماجی شناخت تشکیل دینے والا اکلوتا فیکٹر رہا ہے؟ کس کس کی مثال دوں؟ سقوطِ ڈھاکہ گنواؤں؟ جغرافیے کے نام پر بلوچوں کی بغاوت یاد کرواؤں؟ کراچی میں مہاجر نامی قومیت کی تشکیل کا ذکر کروں؟ پختون ، پنجابی ، سندھی کی اصطلاحات پیش کروں؟ کون کونسی مثال دوں جس سے یہ بات واضح ہو جائے کہ صرف مذہب سماجی شناخت تشکیل نہیں دیتا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری اور ابو الکلام آزاد کے خطبات تحاریر گنواؤں؟ یا اسلام کا مقصدِ دعوت بیان کروں جس میں انسانیت اولین ہے، ساری دنیا اسلام کے لیے امتِ دعوت ہے۔ اسلام دعوتِ دین کے لیے مذہب سے ماوراء ہو جاتا ہے، اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے مسلمانیت کا قتل نہیں۔ اسلام دین میں جبر کا قائل نہیں۔ کیا کیا دلیل پیش کروں؟
ایک طرف یہ کم شدت والے مذہبی چادر اوڑھنے والے ہیں۔ دوسری طرف وہ بندوق بردار ہیں جو اپنی ہزار سالہ تاریخ کا انکار کر کے صرف ایک چیز کو خود پر طاری کر چکے ہیں۔ خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں اور اس میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ وہ نبی ﷺ جو جنگ میں ناحق درخت بھی کاٹنے سے منع کرے اس کے نام لیوا بے گناہ سروں کی فصلیں کاٹ کر اس پر ذرا برابر شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔
مجھے آج کہنے دیں کہ اس ملک میں فکری انحطاط یہی نہیں، فکری قحط سالی ادھر ہی نہیں اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو مذہب کو زندگیوں سے نکال چکا ہے، اور اب صرف انسان کہلوانا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں “انسان” کی سماجی شناخت انہیں زیادہ غیر جانبدار بنا کر پیش کرتی ہے۔ حالانکہ وہ بھی ایک حقیقت سے انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مذہب انہیں ڈیفائن کرتا ہے، جیسے ان کے اجداد کو ڈیفائن کرتا تھا۔ مذہب ان کے خون میں بہتا ہے وہ مانیں یہ نا مانیں۔ ان کے نام، رہن سہن کے طور طریقے مذہب سے متاثر ہیں۔ وہ مصنوعیت جتنی مرضی طاری کر لیں لیکن وہ متغیر ، مذہب نامی متغیر ان کی سماجی شناخت کا اہم جزو تھا، ہے اور رہے گا۔ لیکن اس سے جب انکار کیا جاتا ہے تو نتیجہ ایک اور قسم کے فکری بحران کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایک ایسا خلاء جسے پورا کرنے کے لیے وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، کبھی ادھر سے اینٹ اٹھائی کبھی ادھر سے پتھرا ٹھایا اور عجیب الخلقت چیز تشکیل دے لیتے ہیں، چیز یعنی اپنی سماجی شخصیت۔ جس پر غصہ، ترس یا ہنسی آتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ڈر بھی آتا ہے۔ اس قوم کے فکری بحران سے ڈر لگتا ہے۔ شاکر ، اور شاکر جیسے بے شمار افراد اس قوم کی کمزور ہوتی دیوار، گھوڑیاں بنتی دیوار سے تعلق کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا آپس کا بانڈ غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک قدر کو اختیار کر کے دوسری سے انکار کرتے ہیں۔ کبھی مذہب سے، کبھی جغرافیے سے، کبھی رنگ سے، کبھی نسل سے، کبھی زبان سے۔ کوئی مہاجر ہوا جاتا ہے، کوئی پنجابی، کوئی پختون ہوا جاتا ہے، کوئی مسلمان، کوئی پاکستانی ہوا جاتا ہے، کوئی سیکولر، کوئی انسانیت نواز، کوئی لبرل۔ کوئی مشرق کو رخ کیے ، کوئی مغرب کو ، کوئی شمال کو اور کوئی شمال مغرب کو ۔ ایک دوسرے کی جانب پشت کیے بیٹھے یہ افراد، جن کے مابین اکثریتی اشتراکی اقدار کی قحط سالی طویل ہوتی چلی جاتی ہے، شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔