رابی وحید
التمش خاندانِ غلاماں کا ایک مقبول اور طاقت ور حکمران تھا جس نے تقریبا ۲۶ سال حکمرانی کی۔ التمش نے اپنی زندگی میں ہی کئی بار اپنے بیٹوں کی نااہلی کا اظہار کیا تھا۔التمش کی خواہش تھی کہ اُس کی بیٹی آئندہ کی حکمران بنے۔ بظاہر یہ اظہار ناممکن اور بہت عجیب تھا مگر وقت نے اسے ثابت کر دکھایا۔امرا نے رضیہ سلطانہ کو التمش کی وصیت خیال کرتے ہوئے آئیندہ کا حکمران تصور کر لیا۔
رضیہ سلطانہ ایک طاقت ور عورت تھی۔ تاریخ کے صفحات میں اس عورت کی حاکمیت کا بہت چرچا ملتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ رضیہ سلطانہ کی ماں بھی نیم حکمران تھی ۔ التمش کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا رکن الدین فیروز حکمران تو بن گیا مگر وہ نہایت نااہل ثابت ہُوا۔ اس کا ثبوت اُس کی ماں کا امورِ سلطنت سنبھالنا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فیروز کی ماں ’’شاہ ترکان‘‘ ایک لونڈی تھی جو التمش کے دربار تک رسائی میں کامیاب ہوئی اور جلد امورِ سلطنت میں دلچسپی لینے لگی۔ یہ ایک ظالم عورت تھی جس نے اپنے بیٹے فیروز کی شہ پہ حرم کی عورتوں کو قتل کروانا شروع کر دیا۔اپنے بدلے لیے اور وہ سب کام کئے جو کسی حاکم کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں ۔
چناں چہ دوسرے صوبوں کے حکمرانوں نے التمش کی وصیت پہ عمل کرتے ہوئے دہلی پہ فوج کشی کی اور رکن الدین فیروز کو قید کر لیا گیا ساتھ ہی اُس کی ماں ’’شاہ ترکان‘‘ بھی گرفتار ہوئی۔ یوں امرا کی دخل اندازی سے رضیہ سلطانہ نئی حکمران بن گئی۔
تاریخ بھی عجیب سفاک اور ظالم ہوتی ہے ۔بعد میں سب کچھ جھوٹ بتانا شروع کر دیتی ہے جو بظاہر اُس وقت سچ دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔شرط یہ ہے کہ تاریخ کسی نے درست لکھی ہو۔ ہماری تاریخیں تو بادشاہوں کے درباریوں نے لکھی ہیں۔ اس لیے ہم تک بس اسی طرح چند اوراق پہنچے ہیں، اُن کا تجزیہ البتہ ہم آج کے جدید علوم کی مدد سے کر سکتے ہیں۔
رضیہ سلطانہ ۱۶۳۲ میں تخت نشین ہوئی اور صرف تین سال حکمران رہی۔ برصغیر کی تاریخ میں اس عورت کا بہت اہم کردار ہے۔برصغیر کی روایتی فکر کوایک نیا موڑ دیا۔ رضیہ ایک اعلیٰ حکمران ہونے کے ساتھ اعلیٰ منصف بھی تھی۔رعایا میں اُس کی انصاف پسندی کی شہرت تھی۔ التمش کہتا تھا کہ ’’رضیہ کے سر میں مرد عورت کا دماغ اور سینے میں جنگ جُو جواں مرد کا دل ہے۔‘‘ یہ بھی عجیب بات ہے کہ وہ رضیہ کو مردوں سے زیادہ بہتر قرار دینے کے لیے بھی اُسے مردوں سے تشبیہ دیتا تھا۔
مگر آپ دیکھیے کہ عورت عورت ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی مرد مقابل بن جائے۔ خواہ اُس کے اندر کتنی ہی اعلیٰ اوصاف ہوں ، دل ہارنا اور اپنی تانیثیت کے ہاتھوں مجبور ہو جانا عورت کی فطرت سی ہے۔
میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں تاریخ کے اس ناقابلِ فراموش کردار کو پڑھا تھا۔ ہمیں کالج میں پڑھانے والی پروفیسر نے رضیہ سلطانہ کے کردار کو ایک فیمنسٹ کے طور پر بہت مجبور کردار بتایا تھا خاص طور پر جب وہ اپنے ایک غلام کے ہاتھوں ’’بدنام‘‘ ہونا شروع ہوتی ہے۔میں جب تاریخ کے ان صفحات کو پڑھتی ہوں تو مجھے بہت دکھ محسوس ہُوتا ہے کہ ایک طاقت ور عورت کو معاشرہ حکمران تو بنا سکتا ہے مگر ایک انسان سمجھنے سے پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔
رضیہ بہت بولڈ کردار کی مالک تھی وہ مردوں کے ساتھ بے تکلف باتیں کرتی اور انھیں سرزنش کرنے میں کسی عورت پن کا لحاظ نہ کرتی۔ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک حبشی غلام ’’یاقوت‘‘ سے رضیہ کو خاص دلچسپی تھی وہ بے چارہ تو اصطبل کا انچارج تھا مگر اُسے رضیہ کی نظرِ خاص نے امیرِ اُمور بنا دیا تھا۔ ایک عورت کو بطور عورت سمجھنے کی بجائے معاشرے اُسے ایک ایسی مخلوق سمجھتا ہے جو مردوں کی دنیامیں داخل نہ ہوسکے۔اگر مرد کو شکست ہوتی نظر آئے تو معاشرے اُسے سبق سکھانے کا بندوبست بھی کرسکتا ہے۔
رضیہ اس حبشی غلام کے ساتھ اکثر نظر آتی۔ امرا کو حبشی غلام ’’یاقوت‘‘ کے ساتھ اُس کی حد تک بڑھی بے تکلفی ایک نظر نہ بھاتی۔ خاص طور پر جب وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کے گھوڑے سے نیچے اُترتی۔
ہماری پروفیسر رضیہ کو پڑھاتے ہوئے جب رضیہ کی شادی پر پہنچتیں تو خود ہنسنے کے ساتھ پوری کلاس کو بھی ہنسا دیتیں۔بھلا اس میں ہنسنے والی کیا بات تھی۔ چلیں آپ پہلے سنیے پھر اس میں سے ہنسنے والی بات ڈھونڈتے ہیں۔
اسی یاقوت کے ساتھ بڑھے تعلقات نے رضیہ کو امرا میں ناپسندیدہ حکمران بنا دیا تھا۔ یوں وہ امرا کے ساتھ ایک بڑی فوج لے کے بغاوت کو کچلنے نکلی ،بٹھنڈہ کے قریب اُس کی جنگ ہوئی ۔ اس جنگ میں اُس کے ساتھ اُس کا غلام ’’یاقوت‘‘ بھی تھا۔ رضیہ کو شکست ہوئی، رضیہ کو گرفتار کر لیا گیا مگر اُس کا غلام یاقوت مارا گیا۔رضیہ بٹھنڈہ کے قلعے میں قید کر لی گئی۔ بٹھنڈہ کے گورنر’’ التونیہ‘‘ نے اُسے جان بخشی کے لیے شادی کی آفر کر دی۔ بے چاری عورت کیا کرے ،وہ حکمرانی میں بھی مرد کی کسی مجبوری کا نشانہ بن سکتی ہے۔یوں رضیہ نے جان بخشی کے عوض التونیہ سے شادی کر لی۔
معاشرتی طور پر ہم تجزیہ کر سکتے ہیں کہ رضیہ جیسا بلند بانگ کردار بھی اپنے عورت پن سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔ کہتے ہیں کہ رضیہ نے حکمران بنتے ہی مردانہ لباس پہننا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو سلطانہ نہیں کہتی تھی۔ وہ سمجھتی کہ سلطانہ تو کسی سلطان کی ہوتی ہے وہ خود سلطان ہے۔ رضیہ نے اپنے آپ کو ہمیشہ رضیہ سلطان کہا۔ مگر اُس کی تمام مرد برابری کے اوصاف ایک دم ایک مرد کی حاکمیت میں آتے ہی ختم ہو گئے۔ ہنسنے والی بات تو ہے یہ اور میری استاد ٹھیک ہی ہنسا کرتی تھیں مگر کیا ہم نے اس پر غور کیا کہ ایک عورت کو تو اپنے برابری کے اوصاف سے دستبردار ہونا پڑتا ہے مگر مرد جب کسی حکمران عورت کے ہاتھوں قید ہو تو کیا اُسے ایک عورت مجبور کر سکتی ہے کہ اُس سے شادی کرے ،ورنہ قتل کر دیا جائے گا؟ ’’یاقوت‘‘ کی مثال دیکھیے ۔ رضیہ جیسی طاقت ور عورت بھی اُس سے شادی نہیں کر سکی یا اُس سے کھل کے محبت کا اظہار نہیں کر پائی۔ کیوں کہ عوام اور امرا کو پسند نہیں تھا۔ اگر زیادہ بغور تجزیہ کیا جائے تو اسی خفیہ دل لگی نے رضیہ کو تخت سے محروم کیا تھا۔ مگر دوسری طرف دیکھیے، ایک فاتح حکمران جنگ کے بعد عورت کو قتل نہیں کرتا ’’یاقوت‘‘ کو مر واکے خود اُس سے شادی کر لیتا ہے۔
عورت خواہ سماج میں حکمران ہی کیوں نہ ہو وہ مرد کے برابر نہیں آ سکتی۔ پدرانہ سماج میں عورت کو وہی کردار دیا جاتا ہے جو مرد متعین کرتا ہے۔ مرد ہی رضیہ سلطانہ بناتا ہے اور مرد ہی عورت کے روپ میں اُس کی دوبارہ کایا کلپ کر تا ہے۔