محمد حمید شاہد
ہر تخلیق کار کو زندگی میں کم از کم ایک بار اس سوال کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے کہ اس کے ہاں تازگی اور توانائی کہاں سے آئے گی۔ یہ جو اُس کا زمانہ بعد میں پڑتا ہے، کئی زمانوں کے گزر جانے کے بعد؛ تو یہ اُس کے فن میں کیسے ظاہر ہوگا ؟ یہ کیوں کر ممکن ہو پائے گا کہ اس کے احساس کے نئے پن کو سمولینے،سما لینے کے لیے مروّجہ اظہار وبیان کے وسائل تبدیل ہو جائیں۔ تبدیلی کی بابت سوچنا، خواہش اور کوشش کرنا سب کچھ ایک تخلیق کار کی فطرت میں شامل سہی، مگر فن کار فارم میں ایک حد تک ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔ سو ہوتا یوں ہے کہ جب اس تبدیلی کی نوعیت کا تعین ہوجاتا ہے توایک اور اُلجھن سے واسطہ پڑتا ہے کہ صاحب، جس صنف کے لیے اُس کا مزاج موزوں ترین ہے،کیا وہ صنف اس کی مجوزہ تبدیلی کو قبول کرلے گی؟ یوں، دوسرے معنوں میں کہا جا سکتا ہے ہرتخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کے دورانئے میں اپنی محبوب صنف کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی اور اپنی محبوب صنف کی تہذیب کر رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ میرے ساتھ یہاں تک متفق ہو جاتے ہیں تو میں یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ ہرعہد کا بڑا تخلیق کار جس فارم کو اظہار کے لیے چنتا ہے، وہ اس کا مجتہد بھی ہوتا ہے۔ تخلیقی شریعت یہ تبدیلی مانگتی رہتی ہے مگر صرف اس فن کار سے،جو اپنے فن کے ساتھ کامل خلوص کے جذبے سے وابستہ ہوتا ہے۔
ہر لکھنے والے کے سامنے یہ سوال بھی رہا ہے کہ اس کا تخلیق پارہ کس اعتبار سے اہم بنتا ہے؛ اتنا اہم کہ اس پر عظمت کی چھوٹ پڑنے لگے۔ ڈھنگ سے شایدہی وہ کو ئی فیصلہ کر پائے کہ اعلیٰ مضامین چننے سے فن پار ہ عظیم ہوتا ہے یا ایسے قرینے رکھ دینے سے،جن سے کامل ابلاغ ممکن ہو، مگر اصل بات تو اس سوال کے مقابل ہونا ہے،ہر بار ایک سا جواب پا لینا نہیں ہے۔ اچھا،کیا کامل ابلاغ ممکن بھی ہے؟جب کہ ادب کا معاملہ یہ ہے کہ اسے زبان پر تکیہ کرناپڑتا ہے۔ زبان، جو فرد کا فرد سے بامعنی رابطہ ممکن بناتی ہے۔ لیجئے معنی بیچ میں آگیا، تو یوں ہے کہ کم از کم ایک معنی تو ہم نے ہرلفظ سے وابستہ کر رکھا ہوتاہے، مگر کیا ہر لفظ کا صرف ایک معنی ہوتا ہے؟،اب جو غور کرتے ہیں تو ُ کھلتا ہے جی نہیں، ایک نہیں معنی تو کئی ہوتے ہیں۔ لفظ زبان ہی کو لے لیا جائے،تو یہ جیبھ بھی ہے اور نطق بھی۔یہ بولی بھی ہے اور گفتگو بھی۔ یہ قول اقرار بھی ہے اور بیان بھی۔ صرف بیان نہیں بیان کرنے کا ڈھنگ بھی تو زبان ہے۔ اچھا اور آگے بڑھیں اوراسی زبان کو دوسرے لفظوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو زبانِ تیغ سے تیغِ زبان تک اور زبان کھلنے سے زبان لچکنے تک کے سارے مرحلے سامنے آ جاتے ہیں۔ پھر زُبان کو لذت سے جوڑ لیں یا چٹخارے سے، اس میں بھدرک کاتصور جاگے یا اس کے موٹے پڑنے کا۔ اس کی لڑکھڑاہٹ،لغزش اورلکنت کو دیکھیں یا پھر اس کے حلقوم سے کھینچے جانے والے منظر کو، صرف اس ایک لفظ سے وابستہ معنی کی کئی سطحیں بنتی چلی جاتی ہیں۔ ابھی تو ہم نے اس ایک لفظ کو جملے میں رکھ کر دیکھنا ہے اور زبان والے اسی جملے کو کسی اور جملے کے ساتھ جوڑ کر معنی کی اور سطحوں کو کھوجنا ہے۔ تو یوں ہے کہ زبان تو اکہری سطح پر رہ کر بھی اتنی شفاف نہیں رہتی کہ ابلاغ اور کامل ترسیل کے باب میں لکھنے والے کو مطمئن کر سکے، تو ایسے میں کیا ہوکہ جب معنی کی تہیں بنتی چلی جائیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ ادب کا وسیلہ زبان سہی مگر اس میں خرابی یہ ہے کہ وہ ابلاغ اور ترسیل کو راہ بھی دیتی ہے اور مزاحم بھی ہوتی ہے، تو کیا آپ اس تسلیم کر لیں گے؟
اگر ایسا ہی ہے، جیسا کہ میں نے گمان کیا ہے، تو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بڑا موضوع زبان میں آتے ہی اتنا بڑا نہیں رہتا جتنا کہ آپ نے اسے بڑا سمجھ کر زبان کی نذر کیا ہوتا تھا کہ اس میں سے کچھ زبان نے دبا لیا ہوتا ہے۔ اچھا،خرابی اس سے کہیں پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ جسے آپ نے اپنی دانست میں بڑا موضوع خیال کر رکھا تھا، اگر ہم مان بھی لیں کہ وہ بڑا ہو گا تو کیا وہ پورے کا پورا آپ کی عقل میں سما گیا تھا۔ اگر اس کا جواب یہ آتا ہے کہ، جی عقل نے اسے پالیا تھا ؛ تو صاحب مضمون کچھ چھوٹا نہیں ہو گیا؟، آپ کی عقل سے چھوٹا کہ اس فریم میں پوری طرح آگیا تھا۔ اور اگر کہا جاتا ہے، نہیں جی، اس کے کنارے اوجھل رہے ؛ تو یوں ہے کہ اگر نامکمل مضمون کو آپ زبان کی نذر کریں گے تو مکمل ابلاغ کیوں کر ممکن ہوگا۔
تخلیق کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ان مشکلوں کاادراک رکھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس باب میں محض اور صرف زبان پر تکیہ کرتی ہے نہ مضامین پر، اس باب میں وہ جانتی ہے کہ اسے کوئی اور وسیلہ بھی تلاشناہو گا۔ ایسا وسیلہ کہ لفظ محض اپنے حصے کا مضمون اور اپنے آپ سے چپکا ہوا لغوی معنی ہی منتقل نہ کرے، معنیاتی امکانات کا ایک سلسلہ بھی پیدا کرتا جائے۔
یاد رہے اظہار کے وسیلے، یعنی زبان اور اس زبان میں فن کی تجدید کے عمل سے گزری ہوئی روایت کے ساتھ، تخلیق کار جس سطح پر جاکر جڑتا ہے،اس سے لین دین کرتا ہے یا اس سے اُٹھ کر کائنات میں بظاہر متعین مگر فی الاصل اپنے غیر متعین مقام کے حوالے سے اپنے وجود میں رد عمل پاتا ہے،وہی اس کا اسلوب متشکل کر رہا ہوتا ہے۔ لکھنے والا جتنا اپنے تخلیقی وجود کے آہنگ میں ہوگا اتنا ہی خالص اس کا اسلوب بنتا چلا جائے گا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جب تجھ سے جب دوسرے منہا ہو جائیں تو ُ تو ہوگا۔تخلیق کار بھی اپنے خالص پن سے وجود میں آتا ہے۔ اسی خالص پن سے تخلیق کار کے ہاں تشکیل پانے والا اسلوب اپنی جمالیات مرتب کرنے لگتا ہے۔
اب ہم پھر ایک بارمضمون اور اس مضمون کے لیے برتی جانے والے زبان کی طرف جاتے ہیں کہ فرد اپنے محبوب موضوع کے ساتھ زبان کی ایک سطح پر یا پھر کئی سطحوں سے جڑا ہوتا ہے۔ زبان کی ایک سطح برتنے سے موضوع کے سامنے والے علاقے روشن ہوتے ہیں اور دوسری سطحوں کو برتنے سے اس کے عقبی علاقے یا پھر اس مضمون کا جوہر گرفت میں آسکتا ہے۔ وہ موضوع چونکہ پوری طرح حسیات کے احاطے میں نہیں آیا تھا لہٰذا نارسائی کی نذر ہو جانے والے علاقوں کی سمت کا تعین کرکے اس کے امکانات بھی زبان کی ایک سطح میں رکھ لیے جاتے ہیں۔ چوں کہ فن اس باب میں بااختیار ہوتا ہے لہٰذا آزادی سے ایک ایسا نظام وضع کر لیتا ہے جو پہلے سے موجود نظام سے متصادم ہوئے بغیر مختلف ہو جاتا ہے ؛ بالکل ایسے ہی جیسے ہر پیدا ہونے والے بچہ مختلف ہوتا ہے۔ اپنے ماں باپ سا مگر ان سے مختلف۔ یوں ہر شخص کا تخلیقی وجود یا یوں کہہ لیں، تخلیقی مزاج الگ ہوتا چلا جاتاہے۔ یہی سبب ہے کہ لگ بھگ ایک جیسے ماحول میں رہنے والے، ایک ہی زمانہ پانے والے جب غزل کہتے ہیں، نظم یا افسانہ لکھتے ہیں توایک ہی مضمون کوایک ہی زبان میں برتتے ہوئے بالکل الگ ہو جاتے ہیں۔
بہت سے لکھنے والوں کی نئی تحریروں میں بھی بوسیدگی کی دھول اڑتی رہتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ابھی تک ایسالکھنے والے تخلیقی عمل کو محض اور صرف متن کاری سمجھے ہوئے ہوتے ہیں اور اس سوال کے مقابل ہو ہی نہیں پاتے کہ ان کے ہاں تازگی اور توانائی کہاں سے آئے گی۔ایسے لوگوں کو مشورہ دیا جانا چاہیے کہ اُنہیں کچھ لکھنے سے پہلے یہ ضرورسوچنا چاہیے کہ آخر وہ لکھتے ہی کیوں ہیں؟ اور کیا ان کا لکھنا تخلیقی تاہنگ سے وابستہ ہونا ہے یا محض اس ریاض کی عطا، جس سے ترکھان بھی کاریگربن جاتا ہے؟ اگر اس سوال کا ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں نکل پاتا، تو انہیں خبر ہو جانی چاہیے کہ ان کی تحریروں کے پھسپھسے یا بوسیدہ ہونے کاسبب کیا ہے۔ ادب محض کسی متنی ساخت کانام نہیں ہے۔ تازگی اورتوانائی کی بابت سوچنے سے کہیں پہلے لکھنے والے کے پاس ادب سے تخلیقی سطح پر جڑے رہنے کا جواز ہونا چاہیے۔
مجھے یاد آتا ہے جب میرے اور محمد عمر میمن کے بیچ ماریو برگس یوسا کے حوالے مکالمہ چل رہا تھا تو ہم دونوں اس پر متفق تھے کہ ادب میں اخلاص یا عدم اخلاص محض اخلاقی معاملہ نہیں ہے؛ جمالیاتی معاملہ بھی ہے۔ ادب کے اس جمالیاتی معاملے کو یوسا نے ادبی ووکیشن سے جوڑ کر دیکھا، تو بات دل کو لگی تھی۔ اچھا اب اگر میں یہ کہوں کہ ایک تخلیق کار پورے اخلاص کے ساتھ رواں زندگی سے جتنی سطحوں سے وابستہ ہوتا ہے اتنی ہی جمالیاتی تہوں کے بھید اپنے تخلیق پارے میں بنتا چلا جا تا ہے تو یہ بات بھی خلاف واقعہ نہیں ہے۔ یہاں میں نے رواں زندگی سے جڑنے کی بات کی تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب ہرحال میں تازگی اور توانائی رواں زندگی کے مظاہر سے ہی اخذ کرتا ہے؛ کہ یہاں ایک بار پھر زبان اور اس کی کارکردگی کو بھی پیش نگاہ رکھنا ہوگا۔ زبان جواب تک اپنے برتے جانے کی وجہ سے ایک ساخت رکھتی ہے، اور اس ساخت کااحترام کیے جانے کا تقاضے بھی رکھتی ہے۔ یہی زبان تخلیقی عمل کے دوران غیر محسوس انداز میں بدلتی چلے جاتی ہے۔ روایت سے اکتساب لفظ کو اگر تہذیبی معنیاتی سلسلے سے منسلک کرتا ہے تو تخلیق کارکے اپنے زمانے سے رشتے لفظ کو اس پرزم کے سامنے کر دیتے ہیں جس سے یہی معنیاتی سلسلہ تازگی، معنی کی توسیع اور نئی جمالیات کی دھنک اچھال دیتا ہے۔ یادرہے لفظ کا روایتی استعمال تحریر کو بوسیدہ کر دیتا ہے اور روایت کو یکسر مسترد کرنے اور تہذیبی معنی تلف کرنے والا اپنی تحریر کو اتھلا بنالیتا ہے۔ اچھا،یہ تو سب جانتے ہیں کہ زبان رواں لمحے میں یا اچانک پیدا نہیں ہو جاتی۔ مگراسے بھی تو جاننا ہوگا کہ زبان میں معنی کی،ایک اور تہہ کسی بھی وقت کے دورانئے میں بن سکتی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ تہیں مسلسل بنتی رہتی ہیں۔ تو یوں ہے کہ روایت کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے اس میں توسیع کے امکانات رکھنے سے ممکن ہو جاتا ہے کہ کوئی تخلیق تازہ اور توانا ہو جائے۔
ایک سچا تخلیق کار نہ تو ایک مضمون کو سو رنگ میں باندھ کر مطمئن ہو سکتا ہے اور نہ ہی عصری حسیت کو روایتی زبان میں برت کر۔ زبان اہم ہے بجا۔ معنی اور مواد اہم ہے،یہ بھی درست، مگر جب تک کسی فن کار کے ہاں اس کا تخلیقی وجود اپنی جمالیات مرتب نہیں کرتا، اس پر تازگی اور توانائی کے بھید کا در نہیں کھل پاتا۔دوسرے لفظوں میں تخلیقی وجود کی مرتب کردہ جمالیات تخلیقی شخصیت کا آہنگ بناتی ہیں اوریہ اسلوب، کسی تخلیق کار کی ان توفیقات کے سوا ہوتاہی کیا ہے کہ جن کے وسیلے سے اس کی تخلیقات کا ایک خاص آہنگ مرتب ہوتا ہے اور ان میں تازگی اور توانائی کے امکانات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔