( ڈاکٹر محمد اظہارالحق)
کسی ملک کی بقا اور ترقی کا دارومدار اس کے تعلیمی اداروں اور بالخصوص اس کی جامعات کی ترقی پر ہوتا ہے۔کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کسی ایک شعبے میں تخصص حاصل کرنے کی غرض سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد جامعات کا رخ کرتی ہے۔ یہاں نہ صرف علمی پیاس بجھاتی ہے بلکہ علم کے ان مراکز سے شمسی توانائی کے ذخیرے کی طر ح علمی توانائی کا ذخیرہ لیکر اپنے ملک و قوم کی اندر جہالت کے اندھیروں میں علم کی شمع کو جلاتے ہیں، اور مختلف میدانوں میں ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بڑی تعداد میں ہنر مند افراد کو تیار کیا جاتا ہے، جو ملکی ترقی میں اپنا پھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے اندر ایک باشعور طبقہ وجود میں آتا ہے۔ یہ افراد ملکی اور بین الاقوامی حالات پر نہ صرف نظر رکھتے ہیں بلکہ ملک کے خلاف اندرونی اور بیرو نی سازشوں کو سمجھنے، ان کے اسباب جاننے اور انکا سدباب کرنے کے لئے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں، اور ناہیں ناکام بنادیتے ہیں۔
ہمارے ہاں، بدقسمتی سے ،ملک پر شروع ہی سے ایک مفاد پرست طبقہ مسلط کیا گیا ہے جو ملک کے وسائیل پر قابض ہے۔وہ جانتا ہے کہ اگر ملک کے اندر علم کی روشنی پھیلتی گئی ، لوگوں کے اندر شعور آتا گیااور اسی طرح قومی جذبہ پیدا ہوتا گیا تو جلد ہی ملک کی یہ چراہ گاہ ان کے ہاتھ سے نکل جائیگی۔،اور انکے اقتدار کا سورج غروب ہو جائیگا۔ چنانچہ اس طبقے نے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خاطراپنے ملک کے اس باشعور حصے کو، جس نے سب سے پہلے اس ملک کے قیام کیلئے نہ صرف قراردادیں پیش کیں، بلکہ مسلم قومیت اور اسلامی تشخص کو اجاگر کیا، اور اس کیلئے قربانیاں بھی دیں۔یہ اس طبقے کا علمی شعور ہی تھا جس نے اسے مستقبل کے حالات کا درست اندازہ لگانے میں مدد دی، بلکہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ بھی سامنے آیا اور پھر عملی جدوجہد بھی کی۔لیکن ملک کے بنائے گئے مالکوں نے حالات کے تیور کو سمجھا اور اس باشعور اور پڑھے لکھے طبقے، مشرقی بنگال، کوراستے سے ہٹانے کے منصوبے بنائے جانے لگے۔اور بالآخر، ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے اپنے اس مشرقی بازو پر دشمنوں سے مل کر ایک بین الاقوامی سازش کے تحت کاٹ دیا گیا۔اپنے قومی جسم کو کاٹتے ہوئے اس پر کوئی عار بھی محسوس نہیں کی۔یہ طبقہ ایک بار پھر، آج پوری قوت کیساتھ علمی شعور و آگہی کو بقیہ پاکستان سے کرچنے کے لئے اپنی کوششوں میںمگن ہے۔ وڈیروں، سرداروں اور خان خوانین کے نام سے انہوں نے غریب عوام کے ایک بڑے طبقے کو یرغمال بنایا ہوا ہے، اور علم و شعور سے مسلسل اسے دور رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ آج بھی مختلف صوبوں میں آج بھی جہاں ان کی جاگیرداری ہے، وہاں وہ تعلیمی اداروں کے قیام میں رکاوٹ بنا ہواہے۔اور اگر کوئی ادارہ قائم ہو بھی جائے، تو وہ ان کا مہمان خانہ اور مال مویشیوں کے باڑھے کا کام دیتا ہے۔ اساتذہ کو گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور انہیں گھر بیٹھے تنخوا ملتی ہے۔ بچے بیچاروں کو یا توگلی کوچوں میں خاکبازی کی تربیت کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، یا پھر وہ وڈیروں اور جاگیرداروں کی زمینوں کام اور ان کی رکھوالی کاکام لیا جاتا ہے۔اور خوش قسمتی سے کوئی ادارہ پنپ جاتا ہے تو وہاں کے نظام کو کچھ اسطر ح سے بگاڑ دیا جاتا ہے کہ وہاں سے ڈگری مل جائے لیکن قومی شعور نہ ملے ، قومی جذبہ اور قومی یکجہتی کا احساس نہ ہو۔ بلکہ ہر قیمت پر ذاتی مفاد کے حامی اور علمبردار پیدا ہوں۔ چنانچہ ان اداروں میں نقل اور سفارش اور سیاسی مداخلت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، تاکہ تعلیم کے نام پر جہالت کو عام کیا جاسکے۔ اور کسی میں قومی اور ملکی مفاد کا احساس اور شعور پیدا نہ ہوسکے ۔ اس کا عملی مظاہرہ ہمیں بلوچستان ، سندھ اور ٹرائیبل ایریاز میں پوری آب و تاب کے ساتھ ملتے ہیں، جہاں تعلیم کی بجائے ڈگریوں کے حصول کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کے استعمال کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ ایک امیدوار کی بجائے حصولِ ڈگری کےلئے دوسرا فردامتحان دیتا ہے ۔ امیدوار امتحان نہ بھی دے پھر بھی وہ سرٹیفیکیٹ اور ڈگری لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر بھی اگر ادار ے میں پڑھانے والے افراد موجود ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح علم کی روشنی پھیلارہے ہوتے ہیں تو انہیں اغوا کرلیا جاتا ہے یا پھر وہ ٹارگیٹ کلنگ کی نظر ہوجاتا ہے ، یہ کیوں؟ اس لئے کہ ان کے پڑھانے والے لوگوں کو یہ وارننگ دی جائے کہ اگر انہوں نے علم کو پھیلانے اور نوجوان نسل کو شعور دینے کی کوشش کی تو ایسے لوگوں کا انجام یہی ہوگا۔
پھرلوگوں کی اکثریت کو، ا۔ ایک طرف جاہل اور ان پڑھ بنانے کی کوشش ہوتی ہیں، وہاں دوسری طرف اس اکثریت کو اکٹھا نہ ہونے دینے کیلئے انہیں لسانی ، علاقائی اور نسلی نعرے دے کر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار کیا جاتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ یہ اکثریت اگر یک جان اور یک زبان ہوگئی رو یہ ان کے اپنے وجود کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ چنانچہ انگریز کے مشہور مقولے ” لڑاو اور تقسیم کرو” پر عمل کرتے ہوئے ان کے پیدا کردہ ایجنٹ اپنی قوم کو تقسیم کرنے اور لڑانے میں اپنی توانائی صرف کرتے نظر آتی ہے ۔
اس وقت قوم کے اندر جو سمجھ بوجھ اور شعور موجود ہے، اور جس قدر علم کی روشنی یا ایٹمی قوت کو آگے بڑھانے والے سائنسدان نظر آتے ہیں یہ انہی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹی کی پیداوار ہیں، سیاسی میدان میں بھی قومی سوچ رکھنے والی لیڈر شپ اگر پائی جاتی ہے تو یہ بھی انہی جامعات کی پیداوار ہے ۔ اگر نظر دوڑائی جائے تو پورے ملک کا علمی اور ادبی طبقہ جامعہ کراچی ، جامعہ پنجاب، جامعہ پشاور ، بلوچستان یونیورسٹی کا مرہون منت ہے ۔ ہر میدان میں ملک کے سربرآور وہ شخصیات انہی اداروں کی پیداوار ہیں اور یہی افراد آج بھی سامراج اور ملک کے مفاد پرست ٹولے کی راہ مین رُکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
چنانچہ اس وقت ملکی اور غیر ملکی دشمن اور مفاد پرست عناصر کی نظر یں پبلک سیکٹر کی جامعات پر لگی ہوئی ہیں اور ان کے اس مثبت اور ہمہ گیر کردار کو ختم کرنے اور ان اداروں کو اپنے مفادات کےلئے استعمال کرنے یا انہیں ختم کرنے کےلئے بہت بڑی سرمایہ کاری کی جارہی ہے ۔ پاکستان کی ان عطیم درسگاہوں کے کردار کو ختم کرنے کےلئے اس وقت بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:۔
رٹہ سسٹم کی ترویج:۔
جامعات میں طلبہ سکولوں اور کالجوں سے ہو کر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے سے جو تعلیمی نظام رائج تھا وہ موضوعاتی (Subjective) طرز تعلیم تھا۔ بچوں کو تعلیم وتربیت اس طرح سے کی جاتی تھی کی انیں اگر کسی موضوع پر لکھنے کا کہا جاتاتو وہ اس پر سوچتے اور اپنے خیالات کو مجتمع کرکے اس پر لکھ سکتے تھے اور لکھ لیتے تھے اور اسطرح اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہوجاتی تھی ، جو طالبعلم میں خود اعتمادی پیداد کرنے اور سوچنے اور سمجھنے میں مددگار ہوتا۔
اب اس صلاحیت سے بچوں کو عاری کرنے کےلئے اور سوچنے سمجھنے کی بجائے ان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنے کےلئے انہیں معروضی طرز سوالات (Objective) طرز امتحان کو رواج دیا گیا ہے ۔ چنانچہ بچہ اگر چہ کتنا ہی قابل اور سمجھدار کیوں نہ ہو ، اگر اس کے اندر چیزوں کو رٹنی کی صلاحیت نہیں تو وہ ELT, NTS اور اسطرح کے امتحانات میں ناکام ہوجاتا ہے ۔ اور نتیجتاً رٹے باز طلبہ آگے اور باشعور طلبہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح جامعات میں آنے والے طلبہ اپنے مضامین میں کمزور ہوتے ہیں اور گزشتہ ایک عشرے کے اعددو شمار اگر اکٹھے کر لئے جائےں اور ان طالبعلموں کا موازنہ پچھلی دہائیوں کے طلبہ سے کیا جائے تو اہلیت کا فرق بلکل نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے ۔ یوں جامعات سے نکلنے والے طلبہ کی اکثریت شعور کی اہلیت کی بجائے رٹہ باز طلبہ کی ہوتی ہے جو عملی صلاحیت سے عاری ہوتی ہے ۔
جامعات کی فیسیں:۔
حقیقی تعلیم چونکہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد / بچے حاصل کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں آگے بڑھا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف تعلیم ہی ہے۔ مالدار طبقہ کی اکثریت کے بڑے بڑے کاروبار اور روزگار ہونے کیوجہ سے تعلیم ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماضی قریب تک غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کی اکثریت اپنی قابلیت کیوجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ اب جاگیردارانہ ذہن پر یہ بات گراں گزرنے لگی کہ غریب ہو اور تعلیم یافتہ ہویا کوئی بڑا منصب یافتہ ہو ، یہ ان کےلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ غریب جو چند سو یا دو تین ہزار میں ماسڑکی ڈگری لے لیتا تھا ، ان کےلئے یہ ” مفت” تعلیم اور پھر افسری اور ملک کی بے لوث خدمت ، اس حکمران اور مرعات یافتہ طبقے کو گوارا نہ ہوا۔چنانچہ بیرونی سرمایہ دارعں کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی بنائی کہ قدم قدم پر روپیہ خرچ کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا۔چنانچہ داخلہ لینے سے NTS ٹسٹ پاس کرنے کےلئے کئی بار ہزاروں کے داخلے ، داکلہ ملنے کے بعد ڈھائی تین ہزار روپے داخلہ فیس پر ملنے والے ڈگری کی فیسیں دس گنا بڑھا کر اور ہر سال دس فیصد کااضافہ کرکے گزشتہ دس سالوں ، اب یہ تیس ہزارروپے تک پہنچا دی گئی ہے ، اور ہر سل اسمیں دس فیصد اضافہ جاری و ساری ہے ۔ ہاسٹلوں کے اخراجات اس پر مستناد ہیں۔
سہولیات میں کمی:۔
BS چار سالہ کورسز:۔
چونکہ جامعات میں دو سالوں میں ماسٹر کی ڈگری مل جاتی تھی اور اس پر ایک عام ڈگری یافتہ کو فرد کو روزگار بآسانی مل جاتا تھا، اب ماسٹر کی ڈگری کا راستہ اگر ایک طرف فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے غریب اور متوسط طبقے پر تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف BA کی ڈگری جو دو سال میں مل جاتی تھی، اب BS کے نام سے چار سالہ کورسز کا اجراءکردیا گیا ہے وہ طالبعلم جو بمشکل دوسالوں کی فیس ادا کرکے بی اے کی ڈگری لے لیتا تھا، اب ایک طرف اس کےلئے دو سال کی مدت مذید بڑھا دی گئی ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب چار سال تک فیس ادا کرتا رہے گا۔ دوسری طرف دو ہزار کی فیسیںدیگر ڈگری حاصل کرنیوالے کو اب نئے “تجارتی تعلمی منصوبے” کے تحت کم از کم بیس ہزار روپے خرچ کرنے ہونگے۔ تو اس طرح عام غریب اور متوسط طبقے کے طالبعلم ایم اے کے ڈگری کا خواب دیکھنے کی بجائے شاید چار سالہ BS کی ڈگری بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
جامعات میں داخلے کے راستے مسدود:۔
ان چار سالہ BS کورسز کا فوری اثر جو یونیورسٹیوں پر ہونے لگا ہے وہ یہ ہے کہ ایف اے / ایف اے سی کے بعد کالجز میں چار سالہ کورسز کا آغاز کر دیا گیا ہے اور بتدریج اس کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے۔ اور بی اے / بی اے سی کے بعد یونیورسٹیوں میں ماسٹر ڈگری کےلئے آنے والے طالبعلموں کا رخ جامعات کی بجائے کالجوں کی طرف کردیا گیا ہے ۔ اور بڑی تعداد میں طلبہ کی جامعات آنے کی رفتار اور تعداد کو راستے ہی میں روک دیا گیا ہے ۔ اس طرح جامعات میں اب طلبہ کے آنے کی تعداد مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔ کئی جامعات اب محدودتعداد کی نشستوں کے پُر کرنے کیلئے بار بار اشتہار دیتے ہیںلیکن طلبہ کی تعداد پھر بھی پوری نہیں ہو پاتی۔
ساتھ ہی جامعات میں طلبہ کی تعداد کوکم ثابت کرنے اور جامعات کے نظام کو ناکام ثابت کرنے کیلئے ماسٹر کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی جامعات میں BSکے چار سالہ کورسز کا جراءکریں ۔ ایک طرف کالجز میں داخلوں کے دروازے کھول دیئے گئے اور نسبتاً ، وقتی طور پر، کم فیسیں رکھیں گئیں تاکہ طلبہ کو اس طرف راغب کی جائے ۔ دوسری طرف جامعات کو بھی BS میں داخلے کروانے کو منصوبہ دیا گیا ۔ چنانچہ جب ایک طالبعلم کو گھر کے قریب ایک سہولت ملیگی تو وہ گھر سے دور ، جامعات میں آخر کیوں داخلہ لے گا۔ نتیجتاً جامعات میں داخلوں کا پروگرام متاثر ہو گا، بتدریج جامعات میں طلبہ کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جائیگی اور پھر جلد انہیں “ناکام” ثابت کرکے این جی اوز کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائیگا۔
جامعات کے بجٹ میں کمی:۔
جامعات کو ناکام بنانے اور ناکام ثابت کرنے کےلئے جو کسر رہ گئی تھی وہ وفاق کے ذریعے سے جامعات اخراجات کے لئے باقائدہ گرانٹ پر تیس فیصد کٹوتی لگا کر پوری کی گئی ۔ مشرف دور میں پہلے جامعات کےلئے فنڈز کے دروازے کھول کر انہیں نئے منصوبے کے تحت نئے پراجیکٹ شروع کیے تو اب بجٹ میں کٹ لگا کر رقم کی فراہمی روک دی گئی ۔ جب منصوبے کےلئے حکومت رقم فراہم نہیں کریگی تو بالآخر وہ منصوبے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو جائیگے اور نہ صرف منصوبے ختم ہوں گے بلکہ معمول کے جاسی اخراجات بھی پورے نہیں ہوں گے ۔ اسی صوتحال کے شکار جامعات میں اس وقت سرفہرست بلوچستان یونیورسٹی، اور گومل یونیورسٹی(گومل یونیورسٹی میں تو ملازمین کو تنخواہیں بھی اب بر وقت نہیں مل پا رہی ہیں ، چہ جائیکہ وہ تعلیم کے ترویج کےلئے کوئی اقدام کرسکے) ہے۔ جبکہ دوسری جامعات بھی تیزی کیساتھ اس طرف بڑھ رہی ہیں اور اس سے دوچار ہونیوالی ہیں۔یہ وہ چند بڑے بڑے واضح طور سے نظر آنے والے اقدامات ہیں۔
نااہل انتظامیہ:۔
جامعات کو تباہی سے دو چار کرنے اور علمی لحاظ سے ناکام بنانے کےلئے جو کمی رہ گئی تھی اس کو پورا کرنے کےلئے ایک طرف تعلیم کو وفاق کے ہاتھ سے نکال کر صوبوں کو دے دی گیا ۔ پھر صوبوں میں گورنر کے ہاتھ سے تعلیم کو نکال کر سیاستدانوں کے ہاتھوں میں اسے دے دیا گیا ، جنہوں نے سیاسی بنیادوں کو بغیر کسی میرٹ کے ، نیچے سے اپنے پسندیدہ افراد کو وائس چانسلر بنا کر جامعات پر مسلط کیا جو بیرونی سرمایہ داروں اور ان کے آلہ کار افراد کے ایجنڈے کو اُن کی منشاءکے مطابق آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسے افراد کے زیر نگرانی بڑی تعداد میں نہ صرف جعلی ڈگریوں کا کاروبار پروان چڑھا، بلکہ ان کی سرپرستی میں رشوت اور کرپشن کا بازار بھی گرم ہوا۔ حتیٰ کہ فیل اور کم نمبروں والے طالبعلم مطلوبہ رقم دیکر نہ صرف فسٹ ڈویژن میں پاس ہو رہے ہیں بلکہ پیسوں کے بل بوتے پر وہ ٹاپ بھی کر جاتے ہیں۔
یہ تمام اقدامات جو گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ تیزی کیساتھ جاری ہیں، بتدریج جامعات میں تعلیمی نظام کو نہ صرف کمزور کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں ناکام بھی بنا رہے ہیں ، تاکہ ان کو ” ناکام” ثابت کرکے حکمرانوں کی پرائیویٹائزیشن کی پالیسی کے تحت انکی بھی نجکاری کی جائے ۔ اور پھراین جی اوز ، جو کہ بیرونی امداد کے ذریعے سے ملک میں کھمبوں کی طرح ، بغیر کسی روک ٹوک کے اُبھرآئی ہیں ، اسی بیرونی امدد کے ذریعے سے ان قابل فخر جامعات کو ان کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے، اور تعلیم کو ختم کرکے اسے تجارت بنا کر پیسوں کے ذریعے ڈگریاں فروخت کی جائیں ۔ اور وہ ادارے جو ہر طرح کے نامساعد حالات میں بھی قوم کو قابل فخر افراد فراہم کرتے رہے ہیں، انہیں بانجھ بنا دیا جائے اور نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری ۔
یہ حالات پڑھے لکھے طبقے کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر تعلیم کو اسی رخ پر بہنے دیا گیا، اور اس کے آگے بند باندھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی، باشعور طبقہ ذاتی مفادات سے بڑھ کر قومی مفادات کےلئے فکر مند نہ ہوا اور اصلاحِ احوال کےلئے قدم نہ اٹھایا تو ہم بحثیت قوم بہت جلد ذلت کے بدترین گڑھے میں گر جائیں گے ۔ اور اس کےلئے صرف ایک دھکے کی مزید ضرورت پڑے گی۔ پھر بعد میں ہم اصلاح کرنا بھی چاہےں اور دس گنا زیادہ قوت صرف کرکے بھی مطلوبہ اصلاح کرنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔ اب بھی سنبھلنے کا وقت ہے۔ کاش کہ ہم حالات کو سمجھیں اور اصلاحِ احوال کےلئے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر آگے بڑھیں۔
(خصوصی شکریہ: ڈاکٹر اظہار الحق صاحب، تنظیم اساتذہ پاکستان)