(سمیرا کیانی)
تدریس اس دنیا کا سب سے قدیم اور ارفع پیشہ ہے۔کائنات کا سب سے پہلا استاد اللہ تعالیٰ ہے۔جس نے آدمؑ کو علم دے کر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا۔حضرت آدمؑ کے بعد تمام انبیاء،آئمہ ،اولیا اور صوفیا استاد کے درجے پر فائز ہوئے۔استاد انسانیت سکھاتا
ہے۔تغیر وتبدل کا سبب بنتا ہے۔تہذیب و تمدن کو جلا بخشتا ہے۔ اچھے برے میں تمیز سکھاتا ہے ۔ذہن بدلتا ہے ۔قوم کا معمار ہوتاہے ۔ تب ہی تو کہا جاتا ہے
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
اپنی ان بے مثل خدمات کے عوض انبیا ء کا یہ وارث ہر معاشرے میں عزت و تکریم کا حقدار ٹھرایا جاتا ہے۔
رسولؐ کا فرمان ہے ’’بوڑھے مسلمان،عالمِ دین،حافظِ قرآن،عادل بادشاہ اور استاد کی عزت کرنا ،تعظیمِ خداوندی میں داخل ہے۔‘‘
اسی وجہ سے استاد کی تکریم ہماری تہذیبی اقدار میں شامل رہی ہے۔بدقسمتی سے آج ہماری تہذیبی و معاشرتی اقدار بدل گئی ہیں جس کا نوحہ
سید ضمیر جعفری کی زبانی سنئیے:
تھا کبھی علم آدمی ،دل آدمی ،پیار آدمی آج کل زر آدمی ،قصر آدمی ،کار آدمی
گویا مادی ترقی نے روحانی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔آج ہم صرف ملازمت کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔تربیت،تہذیب،ادب اور اخلاق سب اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔آج ہماری خودسری اور خود اعتمادی قوم کے کردا ر کی فلک بوس عمارت کے معمار اور روحانی باپ کواس عزت و تکریم سے محروم کر رہی ہے ۔جس کا وہ مستحق ہے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ شریراور خودسر شاگرد استاد پر چغلی اور بہتان کے تیر برسانے کو عیب نہیں سمجھ رہے۔ استاد کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔کمرۂ جماعت میں اوٹ پٹانگ اور بے سروپا سوالوں سے استاد کو زچ کرتے ہیں۔ان کے ایسے سوالوں کا مقصد علم میں اضافہ نہیں بس استاد کی تضحیک ہوتا ہے۔
ایسے شاگردوں سے نمٹنے کا ہر استاد کے پا س اپنا طریقہ ہوتا ہے۔سب سے کامیاب طریقہ تو یہ ہے کہ کمرۂ جماعت میں تدریس کے عمل کا آ غاز سابقہ واقفیت کے جائزے سے کیا جائے ۔ ایسے نوجوانوں کو شاباش دینے اور ان کی لیاقت کا اعتراف کرنے کے بعد باقی شاگردوں کی جانب متوجہ ہونا چاہئیے۔اس کے ساتھ ساتھ شاگرد اس بات کو ذہن نشیں کر لیں ’’ جائے استاد خالی است ‘‘ ۔جس کا لغوی مطلب ہے کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے ۔وہ بادشاہ گر ہوتا ہے ۔سکندرِ اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ اپنے استاد کو اپنے باپ پر فوقیت کیوں دیتے ہیں؟اس نے کہا
’’ باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔باپ سببِ حیاتِ فانی ہے اور استاد سببِ حیاتِ جاودانی۔‘‘
انسان اس دنیا میں جو بھی مرتبہ اور فضیلت پاتا ہے استاد کے طفیل پاتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے استادوں کا احترام کریں۔ان کی توقیر میں لمی نہ ہونے دیں ۔جو اقوام اپنے اساتذہ کی تذلیل کرتی ہیں۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ انہیں تنزل سے کوئی نہیں بچا سکتا۔روما کی عظیم سلطنت صرف اس لئے زوال کا شکار ہوئی تھی کہ وہاں تعلیم دینے کا فریضہ غلاموں کو سونپا گیا۔صبح کو وہ بطو ر استاد طلبہ کو پڑھاتے اور شام کو وہ ہی طلبہ ان کی پیٹھ پر کوڑے برساتے۔
اس لئے ہمیں ہوشمندی سے کام لینا چاہئیے۔استاد کی عزت و توقیر کا خیال رکھنا چاہئیے۔اس لئے کہ استاد کی عزت کرنا تعظیمِ خداوندی میں شامل ہے۔
ہمیں ان اسباب کا تدارک کرنا چاہئیے جو استاد کی توقیر میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔اس کی ایک اہم وجہ نجی تعلیمی ادارے ہیں ۔جہاں کھاتے پیتے خوشحال گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی
یہاں تو امراء کے بچے پڑھا کے بھی مفلسی ختم نہیں ہو رہی اور عزت و وقار کا سودا بھی ہو رہا ہے۔کیونکہ یہاں کے شاگرد اور ان کے والدین سمجھتے ہیں کہ ہم نے زیادہ فیس کے عوض استاد خرید لیا ہے۔
اس ساری صورتِ حال کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم اور اساتذہ کی بہبود پر حکومتی اور سرکاری سطح پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔