تعلیم پر ایک نظر از پروفیسر شیو وسوناتھن
(ترجمہ و تلخیص: ابو اسامہ)
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سوشل ورک ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
ایک روز مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے مطابق تین سب سے زیادہ اہم وزارتیں کون کون سی ہیں؟ اس سلسلے میں عام طور پر دیا جانے والا جواب دفاع، داخلہ اور وزارت مالیہ ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ خارجہ اور مالیہ کو ایک ہی وزارت کے تحت ملا دیں ۔ ہاں ! مجھے اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ اگر قانون اور تحفظ ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہو تو مذکورہ وزارتیں حد درجہ اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا تخلیق کے وسیع نصب العین کے لحاظ سے دیکھیں تو صحت، ماحول اور تعلیم اہم ترین وزارتیں ہیں، کیوں کہ یہ مستقبل کے لیے ایک لا ئحہ عمل اور فریم ورک بناتی ہیں ۔ اس لیے آج میں تعلیم کے موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ مغرب کے دانشورانہ ماحول نے ہمیں یکسر در کنار کردیا ہے۔
بر صغیر میں تعلیم ایک نقال انسان پیدا کر رہی ہےاور ایک چوتھے درجہ کی امریکی نقلچی سماج کی بنیاد رکھ رہی ہے جو کہ عالمی منظر نامے میں ہمارے لیے رسوائی کا سبب بھی ہے۔ بیرون ممالک میں ہم اپنی گرامر کی قابلیت سے لے کر نیو یارک ٹائمز میں دو انچ کالم کی جگہ پانے کی کوشش میں اس قدر محو ہیں کہ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ ہم فکری اور علمی سطح پر ہم نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
مقابلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی علامت ہے مگر ہمیں یہ بھی غور کرنا ضروری ہے کہ آخر ہم کیا اور کس سے مقابلہ کر رہے ہیں؟ ہماری لیڈر شپ فکری اعتبار سے انیسویں صدی تک پہنچنے پر کافی خوش ہے مزید وہ اس سماج کو چودھویں صدی کا انسان سمجھ کر سلوک کر رہی ہے۔ مزید براں مجموعی طور پر ہماری فہم غلط سمت پر ہے کیوں کہ ہماری زبان اور اور ہمارے تصورات ٹھیک نہیں ہیں۔ ہماری فہم شماریات اور پیداوار تک محدود ہے۔
ہمارے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اس انداز میں گفتگو کرتے ہیں گویا وہ تعلیم پر نہیں کسی بلڈنگ کے بارے میں بحث کر رہے ہوں۔ تعلیم کی تعمیر ایک الگ ہی معاملہ ہےجب کہ نمبر کا کھیل تو ایک خاص قسم کے ٹارگٹ پر نظر رکھتا ہے۔ حالانکہ دوسرا حصہ معیار، تکثیریت اور علمی مواد سے متعلق ہے۔ آئ آئ ٹی اور آئ آئ ایم جیسے اداروں کے فروغ کے لیے ہم اس قدر دیوانے ہیں گویا کلوننگ اداروں کی ایک فہرست بنانا ہمارا قومی مشن ہے ۔ ہم میں سے کوئی بھی ان اداروں پر تنقیدی نظر نہیں رکھتا ہے۔ ہماری کل تنقید کا محور ان اداروں کی داخلہ پالیسیوں کے ارد گرد گھومتا ہےجب کہ وہاں صورت حال یہ ہے کہ ان اداروں میں ہونے والی ریسرچ امریکہ کے کسی صوبائی اور درمیانی یونیورسٹی کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
بد قسمتی سے ہم اب بھی میکالے کے وارث ہیں۔ میکالے کا بھوت تو گاندھی جی کی بصیرت پر بھی حاوی ہے اور یہ بدقسمتی اس لئے ہے کیوں کہ میکالے ہمیں ایک درمیانی انگریزی بولنے والے طبقہ بنانے میں کامیاب ہے۔ ہمارا طریقہ تعلیم ابھی کالج ٹیوشن والا ہی ہے۔ ماہر انتظامیہ سی کے پرہلاد اور ماہر معاشیات امرتیا سین کے بجائے کے کے دیو دت اور رودر دت کو پڑھ کر ہماری نسل جوان ہور ہی ہے۔
کالج ٹیوشن کیا ہے؟ یہ تلخیص اور یکجا کرنے کی انتہائی خوش فہم کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جس نے میکالے کے خواب کو سچ کردکھایا۔ اس نے ہمارے پورے علمی اثاثے کو مغرب کی ایک شیلف کے برابر کہا اور ہم نے واقعتا اکتا دینے والی کتابوں سے مغرب کو ایک شیلف تک محدود کردیا ۔ پھر ہم نے ان کتابوں کو مزید آسان کیا، یہاں تک کہ ان کی اصلی روح کو در کنار کرتے ہوئے صرف ظاہری لوازمات سے خود کو آراستہ کار لیا ہے۔ ہم نے مغرب کو متن سے گھٹا کر ایک درسی متن کے درجہ تک لے آئے ہیں۔ علم کی دنیا میں’کنجی کتابوں’ کا رواج عام ہے۔ یہ کتابیں دراصل ناشر کی روح کو تسکین دیتے ہیں کیوں کہ وہ ایک ہی کتاب کے چالیس ایڈیشن فروخت کرنے میں کامیاب ہیں۔ ہم نے تعلیم کو لاٹھی کی شکل میں تبدیل کر دینے کے در پے ہیں۔ کالج ٹیوشن کا آخری مقصد آئی آئی ٹی میں داخلہ لینا ہے اور پھر آئی آئی ٹی اسی درسیات کو اپنا لیتا ہے۔ اگر تقل کرنے کو خوشامدی کا پیمانہ مانا جائے تو ہندوستان ایک مضحکہ خیز نقل چی تہذیب ہے۔ یہ ممکن ہے کہ نقل کی مدد لے کر کوئی چند دنوں تک گزارا کر لے مگر ایک جمہوری سماج میں یہ تخلیق کا بدل کبھی نہیں ہو سکتی۔
سب اہم نکتہ یہ ہے کہ بر صغیر ایک ایسی تاریخ نہیں پیدا کار سکتا جس میں کلونیل ازم کے تشدد کی نقالی کی جائے۔ ہمیں بحیثیت قوم علم اور تعلیم کے ایسے روادار ڈھانچے بنانے کی ضرورت ہے جس میں کرافٹ ایک نئے طریقے سے سامنے آئے اور ہماری بولی اور زبان دونوں ہی محفوظ ہوں۔
ہمارے پاس جدید یونیورسٹی کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ ہماری یونیورسٹی ابھی بھی انیسویں صدی کی امتحانوں والی مشین ہے جس کا کام بڑے پیمانے پر کلرک اور عوامی افسران پیدا کرنا ہے۔ ہم امتحان کے میدان میں مہارت رکھتے ہیں مگر تحقیق میں بحثیت مجموعی بدھو ہیں۔ ہم علم کی تخلیق میں کورےہیں ۔ اسی لیے علمی دنیا اور تخلیقی میدان میں ہندوستان زوال پزیر ہے۔
بنیادی تعلیم سے ایڈوانس اسٹڈی مراکز تک ہمیں ایک مضبوط اور لچکدار علمی نظام کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر پورے نظام میں کسی بھی قسم کی گڑبڑی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ کسی بھی ایک حصہ کو نقصان پہونچانا دراصل پورے نظام کو متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی مشترکہ علم کے نظریہ کے لیے ضروری ہے کہ اس میں علم کے نظریہ کو پہلے شامل کیا جائے۔
ہمیں اپنے سماج میں علم کی اقسام کو متحرک رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ علم کی جمہوریت سازی کا یہ تقاضا ہے کہ قبائلی، کسان، خانہ بدوش اور پھیری والے پائیداری اور بقائیت کے علمبردار ہیں جو علم کی مختلف اقسام سے آراستہ ہیں۔ ہماری غیررسمی معیشت ایک ایسا علمی نظام ہے جس کو سراہتے ہوئے بھی کوفت ہوتی ہے۔ علم کی جمہوریت سازی کا مفہوم در اصل جمہوریت کی جمہور سازی ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم علمی معیشت سے پہلے علمی تہذیب وثقافت کا حصہ بنیں۔
نالج کمیشن دراصل ہندوستان میں خاطر خواہ کام نہ کر سکی۔ ہندوستان کے پاس کوٹھاری اور رادھا کرشنن رپورٹوں کے بعد کوئی بھی کامیاب پالیسی منظر عام پر نہ آ سکی ۔ بنیادی طور پرہمیں ایسے حالات سے دو چار ہونا چاہیے جو تعلیم کو سائنس، ماحولیات اور ثقافت کے نئے خیالات جوڑے۔ ہماری تعلیم کا ماڈل انیسویں صدی کا ہے اور ہماری پالیسی چند ایک اضافوں کا مجموعہ ہے۔ آپ ذرا سمجھیں کہ اس دور میں ہمیں کیا چاہیے؟ ہمیں ایک ایسی ‘تعلیمی رپورٹ’ کی ضرورت ہے جو ایتھنوگرافی کے اعتبار سے شاندار ہو جیسے کوئی کلونیل فرہنگ ہوتی ہے اور جو اقلیتوں پر دوسری مبصرانہ رپورٹوں جیسے سین گپتا اور سچر رپورٹوں کے درمیان رابطہ کی ایک کڑی کے مانند ہو۔
علمی معیشت کا نظریہ محض نیشن اسٹیٹ تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس کو تہذیبی، کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایک ایسا پروجیکٹ جو ان تمام مسئلوں کو مستقبل کے ایک علمی بصیرت میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ کیا ہماری سیاسی لیڈرشپ اس طرح کی بصیرت کو نافذ کرنے میں دلچسپی لے گی؟
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.