کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں سرورالہدی کے چمبر میں ان سے اپنےمرحوم دوست “دانیال طریر”کی تنقیدی کتاب “معاصر تھیوری اور تعین قدر”لینے گیا تھا ،جو اس سے چند روز قبل مجھ سے سرور الہدی نے مستعار لی تھی ، چمبر میں ان کا ایک طالب علم بھی موجود تھا جو جامعہ ہی سے کسی موضوع پر سرور صاحب کی نگرانی میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کر رہا ہے ، میں پہنچا تو سرور صاحب اور اس طالب علم کے درمیان کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی ، سرور صاحب نے حسب عادت بہت خلوص اور محبت سے مجھے اندر بلایا اور میرے ہمراہ میرا جو عزیز دوست سید طیفور تھا اس کا بھی استقبال کیا ۔ ہم دونوں کچھ دیر تو خاموش بیٹھے رہے پھر سرور صاحب سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ سرور صاحب عام طور پر بہت آہستگی اور پر خلوص انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور اپنی بات کو زیادہ تر بہت دھیرے دھیرے ہر لفظ پر بہت زور دے کر کہتے ہیں ۔ ایک بات جو میں نے ان کی گفتگو کے دوران اکثر نوٹ کی ہے کہ وہ ہمیشہ صرف ادبی اور علمی موضوعات پر ہی بات کرتے ہیں ، کبھی میں نے انہیں ادھر ادھر کی باتیں کرتے نہیں پایا ، اس دن بھی حسب عادت انہوں نے فاروقی صاحب کا کسی مسئلے پر ذکر چھیڑا اور ان کی تنقیدی صلاحیتوں پر بانداز لکچرر تقریر شروع کر دی ، میں بہت دیر تک خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا ، بعض مقامات پر ان کی تائید کی اور بعض باتوں سے اختلاف کیا ، انہوں نے دونوں کو سنجیدگی سے سنا اور مسکرا کر ہر بات کا جواب دیا۔
باتوں باتوں میں میں نے سرور صاحب سے گذشتہ چالیس، پچاس برسں میں ہمارے یہاں جو تنقید لکھی گئی ہے اس پر اپنا یہ تاثر ظاہر کیا کہ :
آخر ہمیں اس عہد میں جس میں ہم11/9 کے بعد داخل ہوئے ہیں اور زندگی کے بالکل ہی مختلف النوع مسائل سے دو چار ہیں ان تنقیدی کتابوں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے جس کو فاروقی اور ان کے معاصرین نے ساٹھ کی دہائی میں لکھنا شروع کیا تھا؟
اس حوالے سے میں نے اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ:
محمود ہاشمی، وحید اختر ، شمس الرحمان فاروقی ، باقر مہدی ، وارث علوی ، گوپی چند نارنگ اور محمد حسن جیسے جتنے بھی ناقدین ہمارے یہاں گذرے ہیں ان کی ایک ایک، دو دو کتب سے ہم یہ تو جان سکتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی سے نوئے کی دہائی تک کس طرح کی تنقید اردو زبان میں لکھی جا رہی تھی ، لیکن اس کے بے تحاشا مطالعے سے ہم کچھ کشید نہیں کر سکتے۔
حالاں کہ میں نے تنقید کا مطالعہ کرتے ہوئے فاروقی اور معاصرین فاروقی سے بہت کچھ سیکھا ہے، لیکن اب جب میں اس سیکھے ہوئے کی طرف ایک نگاہ دوڑا تا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں نے” شعر شور انگیز” ، “انبوہ زوال پرستاں “،” معاصر اردو ادب”، “اردو شاعری پر ایک نظر” ،” کاغذ آتش زدہ “اور “تنقیدی کشمکش “،جیسی کتابیں نہ پڑھ کر دوسری زبانوں میں لکھی جانے والی تخلیق کا مطا لعہ کیا ہوتا تو غالبا میری تخلیقی اور تجزیاتی دونوں طرح کی بصیرتوں میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہو تا جس میں میں ایک فی صد بھی ان کتب کے مطالعے سے نہیں پیدا کر پایا ۔
تنقید کے بر عکس تخلیق کی بڑی اہمیت میرے دل میں ان دنوں روسی ادب کے مطالعے سے بھی بڑھی ہے ۔ تنقیدکے مقابلے میں تخلیق کے مطالعے کا ایک یہ فائدہ بھی مجھے نظر آیا کہ تنقید پڑھتے ہوئے آپ لاکھ کتابیں بھی پڑھ جائیں، تو وہ آپ کو از اول تاآخر یاد نہیں رہیں گی ،کہیں کہیں سے کچھ کچھ جملے پوری کتاب کے مطالعے کے بعد یاد رہ جاتے ہیں جو کوئی واضح موقف قائم کرنے میں اتنے زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتے جتنا ہم ان کے متعلق تصور کر لیتے ہیں ، جبکہ تخلیق کے مطالعے کا یہ فائدہ ہے کہ کوئی کہانی یا کوئی نظم آپ نے خواہ کتنے ہی عرصے پہلے پڑھی ہو اس کا ایک گہرا تاثر آپ کے دماغ پر تا عمر قائم رہتا ہے ۔
سرور صاحب میری اس بات سے کس حد تک متفق ہیں، میں نے یہ ان سے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی اور نہ انہوں نے زبر دستی مجھے اس موقف کو تبدیل کرنے کی ہدایت دی۔میں نے ان سے جب 11/9 کی بات کی تب بھی میں اس بات پر مصر تھا کہ اس سے پہلے تو ہمارے یہاں تنقید کی پھر کچھ اہمیت تسلیم کی جا سکتی تھی کیوں کہ اردو والوں کی ادبی ذمہ داری میں اس حادثے سے قبل اتنا اضافہ نہیں ہوا تھا جتنا کہ اس واقعے کے بعد ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اردو سے وابستہ ایک بڑی جماعت ایسی ہے جس کو اس حادثے کے بعدکمیونل کرائسس کا سامنا کرنا پڑا ہے ، جس کے بعد ان کو اپنی ایک ایسی شناخت اس ملک میں قائم کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس ملک اور اس قوم کے آئینے میں بصورت افتخار دیکھے جائیں اور یہ بات ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو زبان کے دائرے میں رہ کر ہم تنقید کے سہارے اپنی ایسی مختلف شاخت تو قائم کرنے سے رہے، جس سے اس ملک میں ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا یا جائے اور ہم کو ملک و قوم کا سرمایہ افتخار سمجھا جائے ۔ البتہ تخلیق کے سہارے ہم یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔
حالاں کہ صرف ایک ملکی اور قومی شناخت ہی میرے لئے انحراف تنقید کا سبب نہیں بنا، پھر بھی یہ ایک ایسا تلخ اور روشن نکتہ ہے جس سے آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں ۔
اس کے علاوہ کئی ذیلی مسائل ہیں، جن میں سر دست:
اچھی تنقید کا بحران
تنقید بنام ذاتی تاثر
تنقید کا استحصال
تنقید ی کتب کی نا قدری اور نا اہلی
تنقید کے نام پر مدح سرائی
اور تنقید کے نام پر ذاتی بغض اور عناد سے بھرے ہوئے متون
ان سب مشترکہ تاثرات سے یہ موقف قائم ہوا ہے ۔
علاوہ ازیں اردو کے نصاب کے طور پر تخلیق کے بجائے تنقید کو زیادہ اہمیت دینا ،جیسا حماقت آمیز عمل بھی اس میں شامل ہے،کیوں کہ فن کے شعبے میں فن کے مقابلے فن پر کی جانے والی تنقید کی کتابوں کو پڑھوانے پر دن بہ دن بہت زیادہ اصرار کیا جانے لگا ہے۔
میں نے ذاتی طور پر یونیورسٹیز کے اردو شعبوں کو جہاں تک دیکھا ہے اس سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ فاروقی اور ان کے قبیل کے لوگوں کی تنقید پڑھنے کے بعد یونیور سٹیز کے تمام شعبے اتنے روکھے اور بے مزا ہو چکے ہیں کہ ان میں (خواہ وہ کہیں کا ہو) تخلیق کے رجحان سے پیدا ہونے والے اذہان خال خال نظر آتے ہیں ۔ یہ بات جو میں نے سرور صاحب سے بھی کہی تھی وہ یہاں بھی رقم کئے دے رہا ہوں کہ یہ تمام تنقیدی کتابیں اب از کار رفتہ ہو چکی ہیں، جن کو ہمیں ایک بریکٹ میں بند کر کے طاق نسیاں پر رکھ دینا چاہئے۔
اردو والے تخلیق سے جس قدر نا آشنا ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ تخلیقی متون کو اہمیت دی جائے اور ان کے مطالعے کو فروغ پہنچایا جائے۔ تنقید جو سالن میں نمک کے برابر ضروری ہے وہ اب صرف حمید شاہد اور صلاح الدین پرویز ، ناصر عباس نیر اور معید رشیدی جیسے لوگوں کا حصہ رہ جانا چاہئے جو تخلیقی انداز میں تنقید کرنے کا ہنر جانتے ہیں یا پھر ان لوگوں کا جن کے ذریعے ہم تنقید سے کچھ کشید کر سکتے ہیں۔ جو تنقید کے نام پر ایک وسیع و عریض جہان علم و فن سے ہمارا تعارف کرواسکتے ہیں ۔لیکن یہ واقعہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جماعت بہت کم اشخاص پر مشتمل ہے ۔ کسی خاص تناظر میں کسی خاص بات کو ایک ایسے علمی نکتے سے نوازنے والے تنقیدی بصیرت کے حاملین ،جو متن کو اس کی اصل اہمیت سے کہیں زیادہ بڑھا دیں وہ ہمارے درمیان خال خال ہی پائے جاتے ہیں ۔تنقید کے کاروبار کو ایسے نادر لوگوں کے حوالے کرنے سے ایک بہتر صورت یہ بھی پیدا ہو گی کے ناقدین کی وقعت میں بھی اضافہ ہو گا اور تنقید کے ذریعے وسیع موضوعات کا احاطہ کرنے والا متن اردو والوں کے ہاتھ لگے گا۔
تخلیق کا رجحان اردو والوں کو متنبی ، امر القیس ، حافظ ، سعدی ، امیر خسرو ، بیدل ، شیکسپیر ، ورڈر ورتھ ،شیلی ، گوگول ، ٹالسٹائی، کبیر ، تلسی داس،جائسی ، رابندر ناتھ ٹیگور، انیس ، خوشحال خان خٹک، دیوندر ستھیارتی اور نہ جانے کن کن جہان رونگ و بو میں پھرا سکتا ہے۔ جن کے متن سے انسانی احساسات کی دنیا میں اتنی بو قلمونی پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ زندگی کے موجودہ مسائل سے بہ آسانی نبردآزما ہونا سیکھ سکیں گے۔ تخلیق کا مطالعہ افہام و تفہیم کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے اور انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے ، اور مذہب سے کہیں بہتر انداز میں اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشتا ہے۔
تنقید کا ڈھیر اور بصیرتوں کے بحران کا نوحہ
تالیف حیدر
جن اندیشوں کا اظہار مضمون نگار نے کیا ہے وہ وقت کی آواز ہیں ۔۔۔ بلاگرز ۔۔۔ ویب سائٹ مدیر اور لکھآری ہوشیار باشد ۔۔۔۔