(قاسم یعقوب)
انیسویں اور بیسویں صدی سائنس،ادب اور سماجیات میں بے پناہ تحرّک لے کے آئی۔سائنس میں نفسیات نے انسان کے لاشعور کی گہرائیوں کا ادراک کرتے ہوئے Collective شعور کا نظریہ دے کے ’انسانیات‘ کو ذات کے اندر سے ایک ایسے دھاگے میں پرو دیا جس میں ساری فکر ایک رو میں بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔بالکل ’ایلیٹ‘ کے نظریۂ روایت کی طرح جو سارے متون کے زمانی فاصلوں کوایک ہی ’حال‘میں پیش کر تا ہے۔یوں غالب،راشد،مجید امجد اور معاصر شعری متون ایک ہی ڈھانچے میں جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فلسفے میں برگساں نے زمانِ مسلسل کے خیالات سے انسانی فکر میں نئے کوندے بھر دئیے۔ڈارون نے انسانی حیاتیاتی ارتقاء کی تو جیحات میں حیران کن حد تک جینیاتی فکر کو متاثر کیا۔فزکس میں آئن سٹائن نے نظریۂ اضافیت سے کائنات کی نئی تعبیر پیش کی۔بیسویں صدی اصل میں فکر ی تبدیلیوں کی صدی تھی۔انسان نے صدیوں سے بند مباحث کے دھاگے کا سِرا ملتے ہی کھولنا شروع کر دیا۔دھاگہ تھا کہ کھلتا ہی چلا گیا۔
جب ہم ادب کی جمالیاتی اور تکنیکی فکریات میں تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں تو اصل میں یہ تبدیلی پوری تہذیب کا،پوری صدی پر محیط اُس شعور کا اگلا پڑاؤ بھی ہے جس نے ہزاروں سال کی انسانی فکر کو زبان کے مروّجہ ڈھانچے میں توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ادب کا چوں کہ براہِ راست تعلق زبان سے ہوتا ہے اور یہ زبان ہی ہے جو اُن تعقلات کو جذبات اور احساسات کی شکل دیتی ہے جس کے ثقافتی پراسس میں اِن کو تشکیل دینے والاشخص موجود ہوتا ہے۔
زبان کے جملہ تحرّکات کے مطالعے کو’ تھیوری‘ کا نام دیا گیا۔تھیوری ادب کے تنقیدی ڈسکورس کا سائنسی سٹریکچر فراہم کرتی ہے۔زبان کا مطالعہ ایک خالصتاً فلسفیانہ نقطۂ نظر سے کیاگیا۔فلسفیانہ نقطۂ نظر سے مراد اُن کے ریشنل اور سائنٹفک اپروچ کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہے۔ہمارے ہاں تھیوری کی فلسفیانہ میکانیات کو اس لیے بھی رَد کر دیا گیا کہ یہ زبان اور ادب کا مطالعہ کم اور فلسفہ زیادہ ہے۔لہٰذا فلسفے کو فلسفے کے میدان میں رہنا چاہیے۔یہ اور اس طرح کے لا تعداد اعتراضات تھیوری اور اُس کے متعلقہ مباحث کے ردِّ عمل میں اُٹھائے گئے۔
تھیوری نے دیگر فکری شعبہ جات کی طرح زبان اور اُس کی بنیاد پرسائنس، ادب، سماجیاتی متون،اسطور،مذہبیات اور وہ تمام پیرا ڈائمز جو دیگر متون کے مقابلے میں ایک پیراڈائم بنائے ہوئے کھڑے تھے ،سب کو چیلنج کیا ہے۔ادبی یا لسانی تھیوری کے بنیادی طور پر چار بڑے موڑ ہیں۔پہلے دو موڑ خالصتاً ادب کے جمال کی تزئین کے سوالات پر مشتمل ہیں جب کہ باقی دو اہم موڑ براہِ راست ادب کے نہیں بلکہ کائناتی فلسفے کی کوکھ سے پھوٹی مجموعی فکر کے نئے موڑ تھے۔ ہاں یہ ادب اور ادبیات کو سب سے زیادہ متاثر کر گئے کیوں کہ ان علوم کا فکری ڈھانچہ لسان(Language) تھا۔ (یہ امر بھی الگ بحث کا متقاضی ہے کہ ان مباحث نے زیادہ کس فکر کے تاروں کو ہلایا۔اس کی زَد میں آنے والے علوم کیا سماجیاتی متون اور مذہبی افکارہیں یا ادب کی ساختیاتی گرہ کشائی؟)
۰ روسی فارملزم (Russian Formalism)
۰ نئی تنقید (New Criticism)
۰ ساختیات (Structuralism)
۰ پس ساختیات (Post-Structuralism)
رشین فارملسٹس (Russian Formalists)نے ادب کو متن کے اندر سے جاننے کی کوشش کی کہ ایک عام تعقل(Concept) کیسے ادب بن جاتا ہے۔کیسے ایک غیر حسی لسانی منطقہ فن پارہ میں ڈھل جاتا ہے۔انھوں نے اس فارم کی تشکیل کرتے ہوئے ’’اجنبیانے کے عمل‘‘ کی کھوج لگائی اور اس پر بہت وضاحت سے لکھا۔یعنی متن کی استعاراتی جڑت (Figurative Relations) میں اُن تمام فنی امور کی پہچان جو متن کو ادب اور غیر ادب میں تقسیم کر دیتے ہیں۔جبکہ نئی تنقید نے فن پارے کے اندر اُن لوازمات(Infrastructure) کو مرکزی ڈھانچہ بنا دیاجو کسی ادبی متن(Text) کی ادبیت کو نشان زَد کرتے تھے۔نئی تنقید نے مصنف کو منہا کر کے متن کو تنہا کر دیا اور پھر اُس کے فنی لوازمات کو خوب چھانٹا۔نئی تنقید اور رشین فارملزم ، دونوں ادب تک محدودتھیوریٹیکل تنقیدی روّیے تھے۔مگر ساختیات اور بعد میں پس ساختیات نے لسانی فلسفے کی طرف سے ادب کی نئی جہات متعین کیں۔
ساختیات(Structuralism) پہلی دفعہ غیر ادبی متون کے مباحث سے ادب کے فکری منطقوں کو چیلنج کر رہی ہے۔ساختیات کا بانی سوسئیر اصل میں لسان کی ’ثقافتی تجربیت‘کے عملی نتائج کے بعد ساختیاتی فکریات کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ساختیات کی ادب میں قبولیت (Acceptance)کا بڑا دارومدار اس سائنسی نقطۂ نظر سے وابستہ اُس فکر کو قبولنے کا ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔
ساختیات کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے ہمیں زبان سے وابستہ ہر متنText) ( کو ساختیاتی تعبیر سے دیکھنا پڑتاہے جس سے علمی منطقہ نظریاتی منطقے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ساختیات کی رو سے متن کا کوئی مصنف نہیں ہوتا بلکہ متن ایک رشتوں کا جال (Web of Relations) ہے۔ایک چیز اس لیے موجود ہے کہ اُس کی تفہیم ایک فریم آف ریفرینس میں ہو رہی ہے۔ایک تنہا چیز بھی تنہا نہیں اُس کے ساتھ ایک پوراWeb of Relations موجود ہے۔اس طرح کائنات کی ہر چیز ایک رشتے میں موجود ہے۔زبان کی مثال میں سوسئیر نے ’لانگ‘ اور’ پیرول‘ کو بنیاد بنایا۔اسی کی بنیاد پر اس نے ہر متن کی شعریات اُس کے سٹریکچر میں ڈھونڈ نکالی۔ہم کمپیوٹر کو ایک ایسا لفظ دیتے ہیں جو اُس کے کسی فریم آف ریفرنس میں نہیں کھڑا وہ اُس لٖفظ کی شناخت نہیں کر پائے گا اور ہاتھ اُٹھا دے گا۔انسانی ذہن بھی اسی طرح کام کرتا ہے۔وہ کسی ایسے تصور کا احاطہ نہیں کر سکتا جو اُس کے فریم آف ریفرنس میں موجود نہیں ۔ایسا نہیں ہوتا کہ فریم آف ریفرنس سے باہر بھی کچھ ہوتا ہے ۔یعنی اگر چیزیں وہاں موجود نہیں تو کسی اور جگہ بھی نہیں ہوں گی ۔یہ فریم آف ریفرنس اُس کا سیاق (Context) ہے۔
ساختیات نے یہ انکشاف کر کے حیران کر دیا کہ کوئی چیز غیر ثقافتی(Without Culture) نہیں ہوتی۔چیزیں اپنی کلچرائزڈ شناخت سے اپنا اثبات کرواتی ہیں۔اُس نے اپنے اس قضیے پر نشان(Sign) کو بنیاد بنایا ۔نشان وہ علامت ہے جس میں ایک Signifier ہوتا ہے اور اس Signifier کا دوسرا پہلو Signified ہوتا ہے۔سگنی فائر لفظ کے صوتی یا گرافک امیج کو ہمارے دماغ کے Web of Relations میں جب بھیجتا ہے تو وہاں دماغ اپنے سے پہلے موجود اُن تمام تصورات کو چھانٹتا یا Tally کرتا ہے۔بالکل کمپیوٹر کی طرح ۔جس کی مثال میں انٹر نیٹ کے سرچ انجن کا ستعمال دیکھا جا سکتا ہے۔وہ لفظ یعنی گرافک امیج کے ملتے ہی وہ تمام تصورات (یہاں اُس کے اہداف ہوں گے) اُٹھا لاتا ہے جو اُس سے Tally کرتے ہیں۔ذہن بھی دماغ کے سرچ انجن میں Signifier کے مروجہ تصور کی تلاش پیش کرنا شروع کر دیتا ہے مگر ذہن اپنے دیگر تناظرات اور شعور کی حالتوں کا بھی ادراک کر رہا ہوتا ہے لہٰذا وہ زیادہ بہتر اور قریب ترین تصور کو پیش کرتا ہے۔گویا انسانی ذہن تمام کا تمام تجربی،شعوری اور ثقاتی بنیادوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔چوں کہ ہر شخص اپنے تناظر Context کی پیدا وار ہے۔اس لیے اُس کے تجربے،شعور اور Cultural Practice میں فرق ہو گا۔ہم بعض اوقات ایک ہی احاطۂ ثقافت میں رہنے کی وجہ سے اپنے تعقلات میں قریب قریب ہو تے ہیں مگر کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ہر ذہن اپنا Frame of Reference خود تیار کرتا ہے۔Sign یا نشان کا سارا نظام صرف محض زبان کے فریم ہی میں نہیں کھڑا ۔ہاتھ کے اشارے سے کسی کو بلانے میں بھی ایک نشانSign) ) عمل آرا ہوتا ہے۔ہاتھ کی حرکت کرتی انگلیاں Signifier بن جاتی ہیں اور اس Image سے جو Perception بنتاہے وہ اُس کا Signified ہے۔ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے عمل کے پیچھے اصل میں اُس طاقت(Force) کی دریافت ہے جو معروض کے دباؤ پر ذہن میں تعقلات کا ظہور کرتی ہے۔ ہم سوسئیر کے لسانی سٹریکچر کا استعمال اشاروں کی زبان پر بھی لاگو کر سکتے ہیں اور اُس پر بھی جب زبان وجود میں نہیں آئی تھی۔گویا زُبان کا تصور بڑا تصور ہے۔اسی لیے سو سئیر نے زندگی کے ہر منطقے کو متاثر کیا۔
ساختیاتی فکر کادوسرا بڑا انکشاف مرکز(Centre) کا لا مرکز یا Decentralised ہو جاناتھا۔یعنی مرکز یا تخلیق کار متن یا رشتوں کے جال سے باہر نہیں بلکہ وہ اسی جال کے اندر اپنا پیٹرن تشکیل دیتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کسی متن کی تخلیقی اتھارٹی نہیں ہوتی بلکہ پہلے سے موجود جال یا Web کی اتھل پتھل ہوتی ہے۔چیزوں کو تشکیل یا Arrangeکیا جاتا ہے تخلیق یا بنایا نہیں جا سکتا ہے۔جو چیز بھی بن رہی ہے اپنی ثقافتی بنت یا Web of Relation میں ہے۔اپنی تشکیل کا ثقافتی اثبات کروائے بغیر Abstract یا ادُھوری بن جائے گی۔
پس ساختیات یا ردِّ ساختیات ،ساختیات کا ردّ نہیں۔ہمارے ہاں کچھ کم فہم لوگوں نے اپنی فہم کے مطابق ردّ کے معنی Rejection کے لے لیے۔جس سے ایک تاثر یہ لیا جانے لگا کہ جیسے تھیوری یا علوم اپنا آپ رد کرتے ہیں اور اب جو ردِّ ساختیات کا فلسفہ سامنے آیا ہے اس کا بھی رد آ جائے گا۔اس سے تو لگتا ہے کہ ’احمقوں کی جنت‘ کا تصور اب پرانا ہو چکا اب ’احمقوں کی دنیا‘ ہونا چاہیے ۔
ردّ ساختیات اصل میں ساختیات کی توسیع ہے۔ردِّ ساختیات کا سارا ’جال‘ساختیات کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ردِّ ساختیات نے زبان کے یک زمانی (Synchronic) یادو زمانی (Diachronic) تصور کا انکار نہیں کیا۔ اسی طرح رشتوں کے جال میں موجود ہر لفظ یا متن کی ثقافتی تشکیل ہی پر ردِّ ساختیات کھڑی ہے۔
ردِّ ساختیات کا لسانی سٹریکچر چیز وں کے تصورات یا Signifieds کو ہر وقت التوا میں دیکھتا ہے ۔یوں ساختیات میں معنی خیزی کا ظہور اُس کی ثقافتی تشکیل میں پنہاں ہے مگر ردّ ساختیات میں معنیاتی تفہیم ایک گورکھ دھندے میں اپنا سفر کرتی ہے اور وہیں سے مسلسل التوا کے مراحل میں اپنا آپ تلاش کرتی ہے۔گویا کوئی Texts اتھارٹی نہیں رہا ۔اُس کا ایک تناظر اُسے ایک خاص Span of Time میں معنی دیتا ہے اور موج کے اگلے دھارے میں وہ کچھ نئے معنی پہن کے سامنے آ سکتا ہے۔یوں کوئی چیز اپنے نشان (Sign) میںSignifierاور Signified کا رشتہ مستقل نوعیت کا نہیں بناتی۔(یاد رہے کہ صوتی یا گرافک امیج کا تصور اپنے جال یعنی ذہن میں چمکنے کے بعداپنی تصدیق لیتا ہے اگر اُس صوتی یا گرافک امیج کی تصدیق (Tally) نہیں ہوتی تو اُس کو کسی طور کھولا نہیں جا سکتا۔ گویا ہم چیزوں کو دیکھتے نہیں بلکہ ان کو پڑھتے بھی ہیں۔گرافک امیجز کی مثال میں ہم کسی بھی زبان کے مانوس رسم الخط کو پیش کر سکتے ہیں۔اگر اُردو کا رسم الخط برازیلی میں لکھ دیا جائے تو اُردو ریڈرزبان جاننے کے باوجود اُس خط کو پہچان نہیں پائے گا۔یعنی اُس کو اپنے ذہن سے اُن امیجزکی تصدیق نہیں مل سکے گی۔اسی طرح صوتی امیجز(Sound Images) عمل کرتے ہیں۔ آواز جس تلفظ کے آہنگ کو ہمارے دماغ میں کھولنے کی کوشش کرے گی وہ اُس کا تصور یا قریب ترین تصور ہو گا ۔ نتیجے کے طور پر ہم اُس کا بصری یا ادراکی تصور (Visual or Perceptional Image) بناتے ہیں ۔
ساختیات اور ردِّ ساختیات کی بحث اُردو تنقیدی یا فکری ڈسکورس میں قبولِ عام کیوں نہ ہو سکی ۔اِس کی دو وجو ہات ہیں:
۰ اُردو کا تنقیدی ڈسکورس اور تخلیقی Span نہایت محدود فریم کے اندر کام کرتا رہا ہے۔قضیے کی انشائی تعبیر اور تاثراتی تقسیم ہر تنقیدی سطح پر موجودرہی۔جس نے فکر کو اپنے ابعاد پھیلانے کا موقع ہی نہ دیا۔دوسری طرف ہمارا تخلیقی میدان کسی بڑی فکر کا داعی نہیں ہے سوائے چند ناموں کو چھوڑ کے تخلیق کار اپنی تخلیقی جہات کی تعمیری یا تخریبی اوصاف سے واقف نہیں رہے۔لہٰذا اس قسم کے مباحث کا کیا فائدہ!!
۰ دوسری طرف ایسے احباب ہیں جو لسانی فریم میں موجود فکری پارہ سیمابی کی لرزش کو محسوس کرنے کی اہلیت تو رکھتے تھے مگر اپنے خوف یا تقلیدانہ نظریات کی ملفوفی حالت کو بچانے کے در پہ ہو تے ہیں۔پورا تنقیدی فلسفہ کھلنے سے پہلے ہی وہ اعلان بغاوت کر دیتے ہے۔
نئی تنقید اور رشین فارملزم کے برعکس ساختیا ت اور ردِّ ساختیات نے زندگی کے ہر میدان میں حملہ کیا اور اپنی تصدیق چاہی۔دنیا کا ہر ڈسکورس ایک متن بن گیا اور اُس متن کی ایک من مانی (Arbitrary) فارم بھی سامنے آئی۔اُس متن میں ،بین المتونیت کے حوالے سے، دیگر متون کے ریفیرنسس کام کر رہے ہیں۔ہر متن پر ایک Power Discourse کام کر رہا ہے۔گویا دنیا کا ہر متن ایک تناظر کے باہر اپنی سچائی کھو بیٹھتا ہے۔دنیا کے کسی متن کی کوئی اتھاریٹیٹو فارم(مطلق العنانیت) نہیں ہے۔ہر متن اپنے قوانین بناتا ہے،لکیریں کھینچتا ہے،ضابطے تراشتا ہے مگر ہر چیز ایک تناظر سے باہر Abstract ہوجاتی ہے۔زمانہ یا عہد بھی تناظر ہوتا ہے،علاقہ یا لوگ اور اُن کا کلچر بھی تناظرہی کی طرح کام کرتے ہیں۔
جب یہ سوال کیا جائے کہ مذہبی فکر دنیا میں مطلق فکر ہے تو بہت سے پیراڈائم اپنے اپنے Contexts میں اس کو ماپتے ہیں جس سے شدید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔بنیاد پرست اس صورتِ حال سے سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ مارکسی فکر چوں کہ ٹھیک نہیں تھی اس لیے اُس کے ہاں ظلم کا دور دورا رہا ،قتل و غارت ہوئی،یوروپی فکر ظلم پر مبنی تھی اِس متن نے انسانیت کو شدید نقصان پہنچایا۔مگرمذہبی فکر پر بات کرتے ہوئے ہم مذہبی فکر اور پریکٹس کو دو خانوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ یوں سارا الزام پریکٹس پر ڈال دیا جاتا ہے اور مذہبی فکر کو بچا لیا جاتا ہے۔ کوئی فکر یا فلسفہ انسانیت کُش نہیں ہوتا اس لیے دنیا کے تمام مذاہب انسان دوست پیغام پریقین رکھتے ہیں مگر اسی تھیوری کو دیگر انسان دوست افکار پر لاگو نہیں کیا جاتااس لیے کہ اس سے ایک مذہبی اٹھاریٹیٹو رویے کی نفی ہوتی ہے۔
دنیا کی ہراِنسان دوست تہذیب ، کلچر اور فکر نے انسان کی بنائے دنیا کو بہتر انداز سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی۔تھیوری پیش کی اور اُس پر عمل داری کا مخلصانہ خواب دیکھا۔یہ اور بات کہ اُس کی عمل داری میں انسان اِتنا اُلجھا کہ اصل مدعا جاتا رہا۔اگر مذہب اور الہامی افکار نے دنیا اور انسان کی بہتری کے لیے ضابطے تعمیر کئے تو جدید فکر نے بھی انسانی سماج کوسماجیاتی بنیادوں پر وسعت عطا کی۔اگرمذہب نے حلال حرام کے فلسفۂ نفی اثبات سے فکری دھارے کو آگے بڑھایا ہے تو ٹریفک کے قوانین سے یو این او کے چارٹر تک ہر جدید فکر نے بھی ’انسانیت‘ کے خوابوں کو ثمر آور کیا ہے۔
عموماً ساختیاتی فکر کی Decentred فکر کا دھچکا لگنے سے دو طرح کے رویے پیدا ہو ئے ہیں:
۰ اس قضیے کا مثبت حل ڈھونڈا جائے ۔بے شک وہ صرف اپنے تئیں ہی ٹھیک ہو۔مگر علمی قضیے کا علمی منطقے سے جواب دیا جائے۔ایسا رویہ تب بنتا ہے جب تھیوری کی فلسفیانہ فکری اپج کا مکمل ادراک ہو اور نظریہ بھی عزیز ہو۔ایسی صورتِ حال میں یقیناً حل کسی علمی قضیہ کی بنیاد پر ہو گا۔ہمیں ایسی فکر کو بھی خو ش آمدید کہنا چاہیے۔کوئی نظریہ برا نہیں اور اُس کافکری رَس پھیکا نہیں ۔اُس کے سوتے اگر ٹھنڈے ہیں تو نئی بحثوں سے اُس کے مندرجات کو زمانہ آشنا کیا جاسکتا ہے مگر یہ سب تب ممکن ہے جب علمی رواج سماج کا مستقل حصہ بن جائے۔
۰ دوسرا طبقہ وہ ہے اس سارے ’مناظرے‘ کی نشت و برخاست سے بے بہرہ ہے۔اُس کا کردار اُس گونگے کی طرح ہے جو کسی مصروف سڑک کے کنارے کھڑا ہے اور حسِ سماعت کی محرومی پرشکوہ کناں ہے۔یہ رویہ اپنا مطلب کا مواد تلاش کرتاہے ۔اُسے ہر گز کوئی غرض نہیں کہ فوکو ،ڈریڈا،رولاں بارتھ اور لیوی اسٹراس کا نظامِ فکر کیا کہہ رہا ہے۔اُسے کچھ پتا نہیں کہ تہذیبوں کے متون ایک دوسرے کے اندر کس طرح بین متونیت کا شکار ہوتے ہیں ۔اسے کچھ غرض نہیں کہ زبان کا سارا Texture من مانے ہونے سے تصورات کس رخ پر متعین ہو رہے ہیں ۔تھیوری کا امتزاجی Texture کیا کہتا ہے۔ہم کہاں سے کمزور ہیں ،ہم کہاں سے اپنی فکر کا تخلیقی کوندا بھر سکتے ہیں۔کون سی جمالیات ہمارے اذہان کے تعفن زدہ ماحول میں خوشبو بھرا جھونکا بن سکتی ہے اورکس طرح کی ’وابستگی‘ کی ا ب پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ رویہ عموماً غیر سنجیدہ اورilliterate طبقے کا ورثہ ہے۔کچھ پلے پڑے نہ پڑے، وہ تھیوری کی تمام سوشل جہات کو سنتا رہے گا پڑھتا رہے گا مگر ایک دم چونک پڑے گاجب مذہب کی اتھاریٹیٹو فارم یا طے شدہ نظریات کو خطرہ محسوس ہو گا ۔ خطرہ ٹلتے ہی ایسا شخص فوراً ’بحال‘ہو جائے گا۔اُردو طبقہ فی الحال اسی فضا میں سانس لے رہا ہے ۔اُردو کا لسانی تنقیدی ڈسکورس اپنے پڑاؤ کی کسی مرحلے میں نہیں۔یہ بس سٹاپ پہ کھڑاوہ مسافر ہے جس کی بس قریب آ گئی ہے اور ایک آدمی اُسے کبوتر پکڑنے کی ترکیب بتا رہا ہے ظاہری بات ہے کہ اُسے بس پکڑنی ہے کبوتر وں سے اُسے کیا لینا۔