ثقافتی تھیوری اور ما بعد جدیدیت: عصری فکری مسائل
از، فرخ ندیم
ادب اور تنقید میں انسانی جذبات و احساسات کو( انسانی) جلد، شناخت، موضوعیت، اور ثقافت سے الگ دیکھنے کی روایت جن اوراق پہ لکھی گئی تھی وہ اپنے وقت میں کم اہم یا کم دلچسپ نہیں تھے نہ ہی موجودہ عہد میں ان کی افادیت بالکل ختم ہوئی ہے۔لیکن مغرب ہو یا مشرق، زمانہ اور اس کے ذرائع پیدا وار بدلتے ہیں تو سوچ کا سپیس بدلتا ہے اورتصورات کی کشش بھی بدل جاتی ہے۔ ادبی تھیوری کا’ ظہور‘ ایسے ہی ہے جیسے دنیا میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی جامعات میں قدیم و جدید متون کو پھر سے دیکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔یہاں تک کہ کچھ نقاد تو یہ اصرار کرنے لگے کہ تاریخِ ادب کی تجدید لازم ہے ورنہ ماضی قریب کی نصابی ساختیں نئی صورتوں کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ ہمارے ہاں مفاہمت اور مزاحمت دونوں طرح کے رویے پائے جاتے ہیں۔ادبی ، تنقیدی یا ثقافتی تھیوری کوئی ایسا عجوبہ یا گورکھ دھندہ نہیں ہے کہ اسے یکسر مسترد کردیا جائے۔استرداد ویسے بھی ایک غیر جدلیاتی نظریہ ہے۔یہ طے ہے کہ انسان کا لفظ سے رشتہ کثیر الجہت ہے، اس میں جذباتی، معاشی، نظریاتی، شعری کوئی بھی دلچسپ محرک ہو سکتا ہے۔ انسان( مرد و زن) کو ابلاغ یا نطق کی ضرورت کیوں ہے، اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ وہ پہچانا یا پہچانی جائے یا اس کی ضرورت ، تکلیف، خوشی، خوف اور مسئلہ وغیرہ کا دوسروں تک ابلاغ ہو۔ایک ادبی متن بھی پہچان یا شناخت ہے اور شناخت کبھی غیر ارتقائی اور غیر ثقافتی نہیں ہوسکتی ۔ انسان خود بھی ثقافتی متن ہے اور نظریہ ساز بھی، سو یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔البتہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک معاشرت میں کس گروہ یا طبقہ کے پاس شناخت سازی کے اختیارات زیادہ ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ صرف صارف ہوں۔ایسے ہی جیسے دنیا کی بڑی آبادی دستور ساز نہیں بلکہ عمل پیرائیت کی روایت پہ عمل کرتے زندگیاں گزار دیتی ہے۔ انسانی شناخت وضع کرنے میں کوئی ایک محرک یا سبب ذمہ دار نہیں بلکہ کثیر الجہت تجربات ہوتے ہیں جن میں جگہ، مکان، سماجی اور پیداواری ذرائع اور رشتے، ذات پات، روایات، مذہب،تاریخ،انفرادی اور گروہی طاقت،وسائل، سماجی یعنی معاشی حیثیت یا مقام، بلاغت اور بلوغت کی طاقت،تعلیم و تربیت، جینڈر یعنی جنسی شناخت اور کئی طرح کے حادثات و واقعات بھی شامل ہوتے ہیں جو روز بروز انسان کے دل و دماغ کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں اور ردِ عمل میں انسان کا ثقافتی اور نفسیاتی سپیس متعین ہوتا ہے۔صرف یہی سپیس نہیں بدلتا بلکہ ابلاغ کی صورتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اوراگر تخلیق کارکا سپیس ہے تو اس کے موضوعات بدلیں گے، اور متن کے اسلوبیاتی اور جمالیاتی تجربات کی نو عیت اورحیثیت میں بھی تبدیلی آئے گی۔ تخلیقی سپیس میں تغیر قانون حرکت سے معتبر ہے۔ حرکت تناظر سیاق اور متن تینوں خطوط پہ ہوتی ہے اور دیکھی پرکھی جا سکتی ہے۔ تھیوری یہ بھی دیکھتی ہے کہ یہ حرکی توانائی متن کی سطح پہ کس قسم کی تبدیلیوں کا سبب بنی۔ یعنی جن خطوط پہ ایک ٹیکسٹ ڈسکورس میں بدلتا ہے ان کو واضح کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس ڈسکورس یعنی کلامیہ کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ جدید و مابعد جدید اصطلاحات میں لفظ ڈسکورس، عمومی طور پر، متن کے نعم البدل کے طور پہ بھی استعال کیا جا رہا ہے۔لیکن ان دونوں مکانات میں فرق ہے۔ پہلی پہچان یہ ہے کہ متن( ٹیکسٹ) ایک خاص صنفِ ادب ہے جبکہ ڈسکورس اس خاص صنفِ ادب میں سیاق و تناظر سے تعلق؛ مثال کے طور پہ تاریخی، مذہبی، مسلکی، نظریاتی، فکری،نظری، تسلطی، اطلاقی، نسلی( سفید، سیاہ، گندمی رنگوں)، سماجی، ثقافتی( کوڈز یعنی رموز)، نسائی /تانیثی ، طبقاتی شعور کی مداخلت اور شمولیت ہے جو نہ صرف معنی کا تعین کرتے ہیں بلکہ معنوی وسعت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ دوسری پہچان یہ کہ ٹیکسٹ ساخت یعنی ہیئت ہے جس کا انحصار لسانی اکائیوں( سائنز) کے انتخاب و انسلاک(ترکیبِ نحوی) پہ ہے اور جو لغوی معنی پہ دال کرتے ہیں، جبکہ ڈسکورس کے معنی اصطلاحی اور ثقافتی ہوتے ہیں۔ اس طرح ،عصری تنقیدی فکر کی رو سے، کسی صنفِ ادب میں معنی خیزی اور تعبیر کا عمل اس کے متن سے زیادہ ڈسکورس سے منسلک ہوتا ہے۔ روایتی، تاثراتی ، غیر ترقی پسند، اور جدیدیت کی تنقیدکا زیادہ فوکس متنی( جمالیات کی) تنقید ہے۔ اردو کی موجودہ ما بعد جدیدیت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے ، اس میں ڈسکورس کے مندرجات کی قبولیت مرحلہ وار ہو رہی ہے۔ جس روایت میں ٹیکسٹ سے ڈسکورس کے درمیان فاصلہ اور سفر کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اس کی حد متنی جمالیات ہی ہو سکتی ہے۔ ساختیات کو سیمیات سے الگ دیکھنے کی روایت بھی ادھوری تعبیر ہے ، سیمیات کا کینوس لسانیات اور ساختیات سے بھی زیادہ وسیع ہے ۔لفظ کے لغوی معنی اور ثقافتی معنی میں فرق کو پرکھا جائے توساختیات اور پسِ ساختیات میں بھی کم و بیش یہی فرق نظر آتا ہے۔( اور جب ثقافتی معنی کا جینیاتی مطالعہ کیا جائے گا تولفظ اور معنی سے پہلے اس’’ شے‘‘ کی اہمیت واضح ہو جائے گی جس کے سبب کسی ثقافت میں لفظ اور معنی کا رشتہ قائم ہوا)۔ رولاں بارت کا پسِ ساختیاتی سفر ، جو کہ سیمیات کی رو سے طے ہوتا ہے، بھی اسی فرق کے سبب سے ہے۔ ناول اور کہانی کے تجزیات میں ٹیکسٹ کی جگہ بیانیہ استعمال ہوتا ہے۔ اس بیانیہ کے دو حصے ہوتے ہیں ایک کو کہانی اور دوسرے کو پلاٹ کہا جاتا ہے۔ کہانی کرداروں کے’ افعال‘ اور امدادی افعال( واقعہ) کی ترتیب پہ تشکیل پاتی ہے جبکہ پلاٹ میں وجوہات، اسباب اور محرکات ، منظر، جزئیات و جزبات نگاری وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔( متنی تنقید گرامر کو تجریدی اصول سمجھتی ہے، مثال کے طور پہ فعل کی تعریف کرنا ،ہونا اورسہنا کے انسلاکی رشتوں سے تفہیم کی جاتی ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کرنا ہونا اور سہنا تین مکانی یعنی سماجی اور ثقافتی کیفیات بھی ہیں)۔ ان دونوں کی وحدتِ تاثر کو نیریٹو ڈسکورس یعنی بیانوی کلامیہ کہا سمجھا جاتا ہے۔ڈسکورس انیلیسز کے ماہرین ان تمام سپیسز یعنی مکانات( مخصوص اور امتیازی لسانی اکائیوں، سائنز) کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں جو بیانوی ساختوں میں شعوری اور لاشعوری طور پر موجود ہوتے ہیں۔اس ثقافتی نفسیاتی اور نظریاتی تنوع کے پیشِ نظرعصری تھیوری نے فلسفہ، لسانیات، تاریخ، نفسیات، سماجیات، انسانیات کے فکری نظامات کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا اور ثقافتی متون کی تفہیم وتعبیر کی کوششوں کو ایک نئی توانائی سے ہمکنار کیا۔ جو لوگ تھیوری اور جمالیات میں رشتہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روسی ہیئت پسندی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔برطانوی لبرل ہیومین ازم اور نئی تنقید بھی تھیوری کا حصہ سمجھی جاتی ہیں جو شعر و ادب کی جمالیاتی ساختوں پہ بھرپور مباحث اٹھاتی ہیں۔ساختیاتی فکر ادبی جمالیات کا صوتی ، نحوی اور معنوی سطحوں پہ مطالعات پیش کرتی ہے۔ جس طرح مارکس از م اور پوسٹ ماڈرن ازم نے زمان و مکان کے فرق کو زمانی مکان اور مکانی زمان جیسی تراکیب سے واضح کردیا ہے اسی طرح تھیوری نے ادب اور لسان میں طویل جنگ کو دو لفطوں متن اور ڈسکورس میں بدل دیا ہے۔تھیوری میں لسانی تشکیلات اور ڈسکورس کا امتزاج ہی اب ادبی متن کہلاتا ہے۔ تخیل کی جتنی بھی اڑان یا کارفرمائی ہے وہ اسی سماجی لسانی نظام کے مرہونِ منت ہے جس میں ادیب سوچتا ہے۔ تخیل لا لسان نہیں ، نہ ہی لسان لا انسان، نہ ہی انسان لاتجربہ، نہ تجربہ لا سماج، نہ سماج لا ساخت، نہ ساخت لا نشان، نہ نشان لا نظریہ….اس طرح یہ ثقافتی اکائیاں ایک دوسرے کی نہ صرف تکمیل کا سبب بنتی ہیں بلکہ ایک زمانی زمان یا مکانی زمان میں وسیع معنوی نظام ساخت کرتی ہیں۔ تھیوری کا وصف چونکہ تھیورائزیشن کا عمل ہے اس لیے تھیوری کی زبان ادب کے اس ما بعد طبیعاتی تصورِزندگی اورتخیل( ودیعتی زبان و ادب) سے گریز کرتی ہے جو تاثراتی اور روایتی تصورِ ادب کی بنیاد ہے ۔
جو کام دنیا بھر کے ادبی متون سست روی سے کر رہے تھے ادبی تھیوری نے بہت جلد کر دکھائے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم تبدیلی متن کی مغالطوں کے بوجھل پن سے آزادی ہے۔ ایک دور تھا جب تنقید کے نام پہ کچھ بھی لکھ دیا جاتا، نام کی نسبت سے سند بن جایا کرتا۔ادب ایک تہذیبی رویہ سمجھا جاتاتھااور سمجھا یاجاتا ہے ،سو تہذیب( کرنے) کے نام پہ جونظریاتی دل نے چاہا اور جو نظریاتی تخیل میں آیا لکھ دیا۔ ادیب کی حیثیت ثقافت کار کی ہوتی ، اور زبان سہولت کار۔یہ کس نے سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب لفظ تہذیب و ثقافت بھی تمام مجرد لفظیات سمیت رد تشکیل کے مراحل سے گزریں گے اورلفظ اور معنی میں تعلق کو لسانی سیاست سے بھی انسلاک کر کے دیکھا جائے گا۔ انسان کو ثقافتی متن سمجھا جائے گا اور اس کی موضوعیت کی ثقافتی نظریات کی رو سے تعریف کی جائے گی۔نیچر، کلچر اور جینڈر کے درمیان جدلیات سے نیا نصاب سامنے آئے گا جو انسانی جلدسے اس کی زبان تک ، زبان سے حقیقت تک، حقیقت سے تشکیل تک،شناخت سے بحران تک، علت سے معلول تک،کلامیہ سے سٹیریو ٹائپنگ تک، آرکیٹائپ سے ساخت تک،دال سے مدلول تک، جنس سے جینڈر تک، سیاہ سے سفید تک، مرکز سے’ دوسرے‘ تک۔ اپنے سے غیر تک،طاقت سے کلامیہ تک اور کلامیہ سے بیانیہ تک، بیانیہ سے نظریہ تک اور نظریہ سے آئیڈیالوجی تک،رمز سے کشائی تک، ثقافت سے کثافت تک، پلیس سے سپیس تک، نسا ء سے نسائیت تک، شعور سے لا شعور تک، لفظ سے معنی تک اور معنی سے التوا تک، یہی نہیں ادب کے تصورِ جمالیات پہ بھی پسِ ساختیاتی اطلاق کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ ادب عالیہ کی مبادیات کس طور متشکل ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عصری تنقید نام نہادیات کا ساختیاتی اور پسِ ساختیاتی مطالعہ بھی ہے جس میں ان تمام تصورات اور معقولات کا تنقید ی جائزہ لیا جاتا ہے جن کی صفت نام نہاد ہے۔
ترقی پسندوں اور جدیدیت کے طرف داروں نے جو تنقیدی ورثہ چھوڑا ہے اس سے دستبردار ہونے کا مطلب اپنے مقامی فکری کلچر میں عدم تسلسل کو فروغ دینا ہے۔ میرے نزدیک یہ دو مکانی حالتیں اور ساختیاتی سچائیاں ایسے ہی تھیں اور ہیں جیسے روس میں مارکسی اور ہیئت پسندوں کی تحرکیں تھی۔ حالات کا فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں ہیئت پسندی جبر کا شکار تھی تو یہاں ترقی پسندی۔جبر صرف تیسری دنیا ( مشہور قابلِ نفرت اصطلاح)کا مسئلہ نہیں ترقی یافتہ اقوم میں بھی کچھ لوگ آئیڈیالوجی کے جبر کو جھیلتے نظر آتے ہیں۔جو جھیلتے ہیں ان کو مزید جھیلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو نشرواشاعتیاتی اور اداریاتی بیانیوں میں معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ اکثریت کی ’’آئیڈیالوجی‘‘ اکثر یک جہت ، یکسو، یک رنگ ،یونی پولر، یونی لیٹرل،مونولاجک ،حقانیت ، قطعیت اوریکسانیت کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اب اس کی صوابدید پہ کہ وہ دوسری ثقافتی اور نظریاتی اکائیوں کو کتنا مکان ( سپیس)دیتی ہے۔ جبکہ کلچر کی کائنات مختلف ہوتی ہے۔ کلچر آئیڈیالوجی کے غیر متعلقات کا نام ہے اور ان خالی جگہوں( گیپس) کو پر کرتا ہے جو آئیڈیالوجی کی قلم رو نہیں۔ ثقافتی سرگرمیاں سماجی جمہوری ہوتے ہوئے مکالماتی اور جدلیاتی اور جمہوری قدروں کی پرداخت کرتی ہیں۔اور اگرایک طبقہ جو آئیڈیالوجی کی بکل مار کر متن کے مرکز میں بیٹھ جائے جس سے مکالمہ کی فضا اس کے سیاہی مائل رویوں کے سبب گھٹن زدہ ہو جائے اورکسی دیدہ دانستہ ثنوی نظام کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی روایت کاٹ کے رکھ دی جائے، جائز سوالیہ نشانات بھی نشانے پہ ہوں، پسماندگی کو قسمت ٹھہرائے جانے کا باقاعدہ قلمی بند بست کا جائے، انسانی جوہر کو تعصب کے آلاتِ جراحی سے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے، محض سگنی فائرز کی کیمیا گری سے سچ ساخت کیا جائے جس سے رائے عامہ ہموار کی جائے، ہونٹ سلے نسائی وجود کو حیائی کلامیوں کی ارفع صورت سمجھا جائے تو لفظ تہذیب اور اس کے معنی میں التوا پہ شک غیر استدلالی ہے ۔ یا چند احباب کی’’ترقی پسند‘‘ لبرل ازم کا اطلاق اس پسماندگی پہ بھی کردیا جائے جو بھٹے کی تپش کے ساتھ ایک ایک پائی کے لیے جون جولائی کی جھلسا دینے والی دھوپ اور حبس برداشت کرتی ہو، اور، ویران سی سڑکوں پہ کھلے آسمان تلے بوسیدہ سے ڈھابوں پہ رات آٹھ بجے کے پلے بیک نیوز بلیٹن کے ساتھ دسمبر جنوری میں ٹھٹھرتے ہاتھوں سے ٹھنڈے یخ پانی سے برتن صاف کرتے ’’چھوٹے ‘‘ کو وسائل کی بجائے اس پہ استعماری آئیڈیالوجی کا بوجھ ڈال دیا جائے تو ایسی لبرل ازم ہو یا کوئی دوسرا نظریہ،بھی ثقافت کی کھوکھلی تدوین ہے بلکہ عملی طور پہ رجعت پسندی کی نوید ہے۔ عام طور پہ معاشروں میں جہالت کو ذہنی پسماندگی سے مشروط کردیا جاتا ہے۔ مگر جہالت ساز ذہن سازی پہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ غیر جانبداری بلاشبہ اچھی چیز ہے لیکن کیمرہ اس وقت تک دھات کا ہوتا ہے جب تک کسی ہاتھ میں نہ ہو، جونہی یہ کیمرہ آنکھ سے لگا، نظریاتی ہوجاتا ہے۔ کیمرائی سیاست کی رد تشکیل کے مطابق بلاوجہ ننگیت آزادی کی آڑھی ترچھی لکیروں کے متن میں چھپی سرمایہ دار کی ولاسٹی اور پالیٹکس آف لَسٹ ہے۔ جیسے کیٹ واک کرنے والی ماڈل کو شاید علم نہیں کہ ’’واک کرنے ‘‘اورپیدل چلنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، جیسے روٹی کا متبادل بسکٹ سمجھنے والی شہزادی کی ذہنی ساخت کام کرتی ہے اگر یہی رویہ ادیب کا ہے تو یہ سنجیدہ ادب نہیں جذباتی اور نفسیاتی سیاست اور سرگرمی ہے۔ تہذیب (اشرفیوں سے مشروط) شرافت، تعلیم، وسیلہ،ذہانت،عدالت،حاکمیت، شجاعت،سخاوت،ثقافت، حکمت،ودیعت،وجدان، عقل، دانش، وضع داری، حرارت، سرشاری، شادابی، تروتازگی ایک ہی طبقے کا لسانی نظام یا سمبالک آرڈر کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک نظم جس کا ایک مصرعہ تھا ،’ زندگی بچے کی مسکراہٹ ہے‘،کے بارے اگر یہ پوچھا جائے کہ کس کے بچے کی؟ تو معنی ہی نہیں بدلتا شاعر کا موڈ بھی بدل جاتا ہے۔
مغرب میں تو تھیوری کی اہمیت تخلیق سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی کہ ہے تخلیق میں تخلیق کار کی ذاتی اسطورہ کا عمل دخل ہے۔ یہ کہنا بھی زیادہ ریلونٹ نہیں رہا کہ تخلیق نہیں ہوگی تو تنقید بھی ختم ہو جائے گی، ایسی نظری تنقید کے لیے عرض ہے کہ تھیوری کوادبی تھیوری کے ساتھ تنقیدی اور ثقافتی تھیوری بھی کہا جاتا ہے اس لیے اس کا سروکار محض ادبی متون نہیں بلکہ تمام سماجی سرگرمیاں ہیں جن میں ادب ایک حصہ ہے۔ تھیوری کا حاصل کل ڈسکورس انیلیسز ہے جس کا اطلاق کسی بھی سماجی سرگرمی پہ ہو سکتا ہے۔اس کے لیے شعر و ادب شرط نہیں۔مارکسی، نومارکسی، تانیثی، ما بعد نو آبادیاتی، تحلیلِ نفسی اور ماہرینِ لسانیات ادب کے نقاد بھی ہیں لیکن محض ادبی متون کی تنقید کی وجہ سے بڑے مفکرین یا نقاد نہیں۔ان لوگوں نے تنقید کو تحقیق سے مشروط کردیا ہے جس کے سبب مشہور مقولوں اور کبیری( ادبی) بیانیوں کا سپیس ختم ہو چکا ہے۔
کچھ سال پہلے ادب کی ثقافتی یامادی تعبیر کوئی ماننے کو نہ تو تیار تھا نہ ہی مروج ادبی نظریہ تصویر کے دوسرے رخ کی طرف جانے کی اجازت دیتا۔ ادب کی ساختیاتی معصومیت کے سوال پہ مرنے مارنے والے یہ تو اب جان ہی چکے ہونگے کہ جس زمین پہ وہ (متنی) غیرجانبداری کی علمبرداری کرتے رہے بنیادی طور پہ، تاریخی ارتقا میں، گرم سرد جنگوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اشتراکی فکر کی گرم پانیوں تک رسائی کی میتھ پہ بحث معدوم ہوئی تو مابعد نائن الیون خون آشام’ عہد‘ ؟ نے متون کا رنگ سرخ کردیا۔بدلتے وقت کے ساتھ مکانی میٹامارفسزبھی متون کا حصہ بننے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ جامعات میں ادبی تھیوری پہ( کچی پکی ) مباحث جب ادبی حلقوں میں پہنچیں تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔یہ سوال کہ یہ کتاب اردو میں کیوں لکھی گئی کا جواب بھی جامعات کے کانٹری بیوشن سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا ہماری نظروں سے اس لیے اوجھل ہے کہ وہ ترجمہ نہیں ہو پاتی، اردو کے ہر قاری کی رسائی اصل متن تک نہیں البتہ جن لوگوں کی اصل متن تک رسائی ہے ان کا کام ہے کہ وہ عصری مباحث کو مقامی علمی ادبی ماحول سے روشناس کرائیں تا کہ ہم مقامی مکانی حالتوں کا عالمی فکری نظام سے مکالمہ کروا سکیں۔