یاسر چٹھہ
مسلم برصغیر میں نصاب تعلیم کا ارتقاء اس طرح
ہوا ہے کہ شروع شروع میں تعلیم قطعی طور پر مذہبی حیثیت کی حامل تھی۔ یعنی اس وقت علم سے مراد محض مذہبی علوم تھے۔ اس کا زمانہ عہدِ سلطنت کے شروع کے سالوں کا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ نصابِ تعلیم میں نظری و عقلی مضامین کے لئے بھی جگہ بننا شروع ہوئی۔
اس سلسلے میں سکندر لودھی کا زمانہ دو اہم باتوں سے عبارت ہے۔ محمد تغلق کے زمانے میں فلسفہ اور دیگر نظری علوم کی طرف توجہ دینے کے سلسلے کی بنیاد پڑی۔ سکندر لودھی کے عہد میں اس روایت کی اس قدر آبیاری کی گئی کہ سلطنت کے مدارس میں معقولات کا چرچا ہونے لگا۔
عہد سلاطین میں دہلی کی مرکزی مسلم سلطنت کے علاوہ ہندوستان میں اور بھی کئی خودمختار مسلم ریاستیں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ چند ایک ایسے صوبے بھی تھے جو برائے نام دہلی کی مرکزی حکومت کے تابع تھے۔ یہ صوبے بعض اوقات خودمختاری کا درجہ بھی حاصل کر لیتے تھے۔
مسلم برصغیر کی تاریخِ علم کے حوالے سے ان ریاستوں میں سے بہمنی ریاست بیجا پور، گولکنڈہ اور جونپور کی ریاستیں خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ ان ریاستوں نے علوم وفنون کی افزائش میں بہت سے اہم کارنامے سر انجام دیئے۔ بہمنی حکمران کو اس کی علمیت اور علم دوستی کی بناء پر دکن والوں نے ارسطوئے زمان کے خطاب سے نوازا ہوا تھا۔ بہمنی خاندان کے عہدِ حکومت کے آخری دنوں میں گو کہ وہاں علمی اور تہذیبی سرگرمیاں ماند پڑگئی تھیں۔ پر اس کے باوجود مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہمنی سلطنت نے اسلامی علوم و فنون کی ترویج و فروغ میں نمایاں طور حصہ لیا۔
عہدِ مغلیہ سے قبل ہندوستان کی وہ مسلم ریاست جو علم و ادب میں باقی ریاستوں میں سب سے آگے نکل گئی تھی، اس کو جونپور کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ تاریخی و سیاسی حالات کے زیراثر دہلی کی مرکزی مسلم ریاست سے الگ ہوکر ایک خودمختار ریاست کے طور پر نمودار ہوچکی تھی۔ اس چھوٹی سی ریاست کے علمی و ادبی کارناموں کی بازگشت صدیوں تک سُنی جاتی رہی ہے۔ شیر شاہ سُوری یہاں کے علمی مراکز کے بہت معترف تھے اور انہوں نے انہی مدرسوں سے ہی خود بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ شاہجہاں بجاطور پر جونپور کو ہندوستان کا شیراز کہا کرتے تھے۔
دہلی پر مغلوں کے حملوں کا دباؤ بڑھا تو بہت سے
عالم اور فاضل پناہ ڈھونڈتے جونپور آگئے۔ ان کی آمد سے یہاں پر علمی سرگرمیوں کو چار چاند لگ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر، دہلی سے بھی بڑا علمی مرکز بن گیا۔ عہدِ مغلیہ میں بھی اسے ایک اہم علمی مرکز کا رتبہ حاصل رہا۔ لیکن ہر عروج کا زوال بھی ایک سخت گیر حقیقت کی طرح آ جاتا ہیں۔ محمد شاہ کے عہد میں ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس نے جونپور کے علمی مرکز کی تباہی کا دروازہ کھول دیا۔
یہ واقعہ سنہ 1735 ع میں نواب سعادت خان نیشاپوری کے اودھ، بنارس اور جونپور کا صوبیدار مقرر ہوکر آنے سے جڑا ہے۔ صوبیدار کے منصب پر پر فائز ہونے کے بعد جونپور کا دورہ کرنا تو بنتا تھا، سو نواب سعادت نے حسب روایت دورہ کیا۔ اس وقت جونپور شہر میں ساٹھ کے قریب علمی مراکز موجود تھے۔ شہر میں اس کے قیام کے دوران شہر کے علماء نے شائد نئے صوبیدار کے ایک خاص فرقے کی حمایت میں متشدد خیالات کی وجہ سے انہیں نظر انداز کیا اور ان کا استقبال کرنے بھی نا آئے۔ اس بات پر نواب سعادت خان بگڑ گئے۔ نواب صاحب نے قہر میں آکر حکم دیا کہ علمائے شہر کی کی تمام جاگیریں اور سرکاری مراعات بحق سرکار ضبط کرلی جائیں۔ یہ جاگیریں مدارس کے اخراجات چلانے کے کے لئے خون رواں کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہ علماء ان وسائل کے بغیر اپنا کام جاری نا رکھ سکے۔
چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں یہ عظیم الشان تہذیبی مرکز علمی طور پر کھنڈر بن گیا۔ یہاں کے طلباء اور اساتذہ شہر چھوڑ کر چلے گئے اور مدرسے ویران ہوگئے۔ سنہ 1774 ع میں گو کہ نواب آصف الدولہ نے ضبط شدہ مراعات واپس کرنے کا ارادہ کیا مگر ان کا یہ ارادہ رُو بہ عمل نہ ہوسکا۔ اس میں رکاوٹ ایلیچ خان کی مخالفت تھی۔ اس طرح یہ عظیم الشّان علمی مرکز جس کے بنانے میں عشرے لگے، لیکن ایک جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھ کر قلیل عرصے میں اجڑ گیا۔
اسی زمانے میں جونپور پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ اٹھارہویں صدی کے آخری برسوں میں ایک ممتاز انگریز ماہرِتعلیم ڈنکن نے جونپور کی تباہی کو دیکھا تو انہیں بھی بہت افسوس ہوا۔ اپنے افسوس کو وہ لفظوں میں کچھ یوں زبان دیتے ہیں:
“جونپور، جو مسلمانوں کے علوم و فنون کا مرکز اور علماء کا مرجع تھا، جس کو شیرازِ ہند کا خطاب حاصل تھا، جہاں بہت سے مدارس تھے، اور جس کی اب گذشتہ عظمت کی داستان ہی داستان باقی رہ گئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر ہندوستان کا شیراز تھا، یا ازمنہ وسطٰی کا پیرس۔ جونپور کا ہر شہزادہ اس پر فخر کرتا تھا کہ وہ علم و حکمت کا مربّی ہے۔ علماء و حکماء اس شاہی درالحکومت کی پرامن سر زمین میں ہر طرح کی علمی ترقی کے لئے ہمہ تن کوشاں رہتے تھے۔ محمد شاہ کے زمانے تک 60 مشہور مدرسے جونپور میں موجود تھے۔ جن کے اب صرف نام ہی باقی رہ گئے ہیں۔”
جونپور، جو مسلمانوں کے علوم و فنون کا مرکز اور علماء کا مرجع تھا، جس کو شیرازِ ہند کا خطاب حاصل تھا، جہاں بہت سے مدارس تھے، اور جس کی اب گذشتہ عظمت کی داستان ہی داستان باقی رہ گئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر ہندوستان کا شیراز تھا، یا ازمنہ وسطٰی کا پیرس۔ جونپور کا ہر شہزادہ اس پر فخر کرتا تھا کہ وہ علم و حکمت کا مربّی ہے۔ (یاسرچھٹہ ) ۔۔۔ یقیناً ۔۔۔ لیکن یہ سب خواب ہوا
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں