(تنویر احمد تہامی)
۱۲ دسمبر ۱۹۳۱ کا سہانا دن تھا جب امروہہ کے شفیق حسن کے گھر آخری اولاد کی آمد ہوئی۔ شفیق حسن علمِ نجوم کے ماہر اور نہایت عمدہ شاعر تھے۔ شاید انہوں نے اپنی آخری اولاد کو گھٹی میں شاعری عنایت کر دی تھی اس امید پر کہ یہ میری وراثت کو آگے بڑھائے گا۔ ان کی یہ خواہش توقعات سے کئی گنا بڑھ کر پوری ہوئی۔ یہ بچہ ایسا عظیم شاعر بنا کہ خود شاعری بھی اسکی معترف ہوئی۔ وہ اپنی دھن میں رہنے والا، دنیا کو الگ ہی نگاہ سے دیکھنے والا، لاکھوں لوگوں کو اپنے فن کا دیوانہ بنانے والا اور کوئی نہیں خود سرکار جون ایلیاء تھے۔
جون کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہ خالص ادبی ماحول کی زندہ مثال تھا۔ جون کے والد سید شفیق حسن ایلیاء نہ صرف خود بلکہ ان کے تینوں بھائی اپنے وقت کے بہترین شعراء میں سے تھے۔ یہی ریت اگلی نسل میں بھی چلی یعنی جون سے بڑے تینوں بھائی بھی شاعری میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ ابتدائی عمر میں جون کو علاقائی ماحول کے زیرِ اثر ڈرامے کا شوق ہوا مگر جلد ہی یہ شوق شاعری میں بدل گیا اور تا عمر برقرار رہا۔
جون کے بقول ان کی عمر کا آٹھواں سال نہایت اہم سال تھا. اسی سال انکی زندگی کے دو سب سے بڑے حادثے ہوئے. ایک یہ کہ انہوں نے پہلا شعر کہا اور دوسرا یہ کہ اسی سال جون، ایک قتالہ لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے. محبت کے اظہار کیلئے جون نے انتہائی عجیب و غریب طریقہ اپنایا۔ جب وہ خوشبخت لڑکی سامنے سے آرہی ہوتی تو جون اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے. اور اس حرکت سے مراد یہ ہوتی تھی کہ اے لڑکی میں تم سے محبت کرتا ہوں. اس سے بڑھ کر شاندار اظہارِ محبت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے. اور وہ شعر جس سے جون کے لازوال سفرِ سخن کا آغاز ہوتا ہے، یہ تھا:
چاہ میں اس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی
جون کے بچپن اور لڑکپن کا درمیانی دور سیاسی اعتبار سے بے حد ہنگامہ خیز دور تھا. مسلم لیگ اور کانگریس کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں. ان دونوں جماعتوں کے نظریات کے برعکس، جون کمیونسٹ نظریات کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے. طبیعت میں انقلابیت حد درجہ غالب تھی. اس زمانے میں جون کبھی شعر کہتے اور کبھی خلیل جبران کے نابالغ طرزِ احساس و خیال میں اپنی ایک خیالی محبوبہ صوفیہ کے نام خط لکھا کرتے. ان خطوط میں جون اپنی افلاطونی مگر نرگسی محبت کے اظہار کے ساتھ خاص طور پر جو بات بار بار لکھتے، وہ یہ تھی کہ ہمیں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کیلئے کچھ کرنا چاہیئے۔
بہت ساری ہنگامہ خیزی کے بعد آخر کار ۱۹۴۷ میں ہندوستان تقسیم ہو گیا. بہت سے مسلمان ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوئے مگر جون ان میں شامل نہ تھے. جون ۱۹۵۷ میں بادلِ ناخواستہ پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں سکونت اختیار کی. باقی کی تمام عمر پھر یہیں بتا ڈالی. جون کے بقول انہوں نے تقسیم کے بعد صحیح معنوں میں شاعری شروع کی. ۱۹۴۹ یا ۱۹۵۰ میں ایک غزل جو جون نے کہی وہ مندرجہ بالا بات کی عکاسی کرتی ہے۔
کر نہ افسانئہ عدم تازہ
زلفِ ہستی ہے خم بہ خم تازہ
کفر اہلِ حرم کی سازش ہے
ہے خدا بھی صنم صنم تازہ
نغمہ گر اِک نوائے بے قانوں
ہونہ آئینِ زیر و بم تازہ
ہو جہاں زر نہ قیمتِ یوسف
کر وہ بازارِ بے درم تازہ
اس کے بعد تو جو چلے ہیں تو پھر چال دنیا نے دیکھی ہے. جس محفل میں جون ہوں وہاں بس جون ہی جون ہوتا تھا. بےساختگی کو وہ رنگ بخشا کہ امر کر دیا. اپنی حیثیت کو منوانہ بھی جون کو بخوبی آتا تھا. اسکا اظہار وہ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں:
میں جو ہوں جون ایلیاء ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا
ایک بات جو جون کے بارے میں انتہائی عجیب ہے وہ یہ کہ بہت عرصے تک باوجود احباب کے پرزور اسرار کے انہوں نے اپنا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہونے دیا. آخرکار ۱۹۹۰ میں احباب کی کوششیں رنگ لائیں اور جون کا پہلا مجموعہ کلام “شاید” شائع ہوا. یہ جون کی واحد کتاب تھی جو انکی حیات میں شائع ہوئی۔
جون کی آخری عمر نہایت کرب میں گزری اور گزرنی بھی چاہیئے تھی. آخر جون سوچنا جانتے تھے، معاشرے کی حقیقتوں سے بخوبی واقف ہو چکے تھے. وہ سوچتے تھے اس لئے اداس رہتے تھے. آخرکار جون کی ہزارہا خاردار پیچ و خم سے گزرتی ہوئی داستانِ حیات ۰۸ نومبر ۲۰۰۲ کو اختتام ہوئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت یہ تک نہیں جانتی کہ سرکار جون ایلیاء اردو کے شاعر اور فلسفی تھے. میں نے کئی نوجوانوں کو یہ سوال کرتے سنا ہے کہ جون ایلیاء اردو میں شاعری کیسے کر لیتا تھا؟ یا حیرت سے بھرا یہ سوال کہ جون ایلیاء پاکستانی تھا؟ کاش کہ ہم نے ادب کا ادب کیا ہوتا. کاش کہ ہم نے تاریخ کو روندا نہ ہوتا. کاش کہ ہماری قوم کا ہر شخص یہ جان پتا کہ جون ایلیاء کس ہستی کا نام ہے۔
کج
واہ بہت خوب تنویر تہامی۔ جون ایلیا کی زندگی کا مختصر لیکن جامع پہلوں کو جان کے اچھا لگا
فکر مر جائے تو پھر جون کا ماتم کرنا
ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی
……………………………………….
جون ایلیا