(نجیبہ عارف)
وسیلۂ ظفر:
عارف مجھے خدا حافظ کہہ کر واپس مڑے تو دنیا یکایک بدل چکی تھی۔ محفوظ، آرام دہ، محبت بھرے ماحول کی بجائے اب ایک کے بعد ایک چیلنج سامنے نظر آرہا تھا۔ بڑے بڑے سوٹ کیس بیلٹ پر رکھنا، پھر تلاشی دینے کے بعد انھیں اتار کر دوبارہ روانہ ہونا، پرس اور ٹکٹ سنبھالنا۔ قطار میں لگ کر بورڈنگ پاس حاصل کرنا، امیگریشن کے مراحل سے گزرنا۔ لمبے سفر چھوٹے ضرور ہو گئے ہیں مگر آسان اب بھی نہیں ہوئے۔سفر کی کلفتیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہیں اور مسلسل ذہنی دباؤ ڈالے رکھتی ہیں۔ یہ دباؤ پہلے درجے کی اس آرام دہ نشست میں بیٹھ کر بھی کم نہیں ہو اجو گلف ائر لائن کے کسی بے قاعدہ انتخاب کے نتیجے میں میر ی دوسرے درجے کی نشست کی ترقی کے بعد محض اتفاق سے مجھے مل گئی تھی۔
اس سفر کا پہلا مختصر پڑاؤ بحرین تھا۔ بحرین، جہاں میں کبھی نہیں گئی مگر میرے جسم و روح کا ماخذ و معدن بیس سال تک وہیں رہا۔ حاؒ لاں کہ اس وقت مجھے احساس تک نہ تھا کہ میں جو خود کو ایک مکمل اور خود مکتفی ہستی سمجھے بیٹھی ہوں، اصل میں کسی اور کی ہستی کا حصہ ب ہوں۔
وہ ’’کوئی اور‘‘ ، میر صاحب تھے، میر ظفر علی صاحب، میرے ابو، جنھوں نے روزگار کی تلاش میں بیس سال خود کو ہم سے دور رکھا۔ہر دوسال بعد دو مہینے وہ ہمارے ساتھ گزارتے اور بس۔ ہم ان کے بغیر رہنے کے عادی ہو گئے تھے۔ ان کی موجودگی ہمارے لیے ایسے ہی تھی جیسے کسی پسندیدہ مہمان کی، کہ خوشی تو ہوتی ہے مگر دل ہی دل میں انتظار بھی کہ کب یہ جائے تو ہم اپنی روزمرہ کی زندگی شروع کریں۔بیس سال تک ہر ہفتے باقاعدگی سے ائر میل کے نیلے لفافے میں ان کا خط آتا رہا۔ امی کو پہلے سے پتا ہوتا تھا کہ کس دن ان کا خط آئے گا۔ اور ان کا خیال کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ امی اور ابو میں کوئی جذباتی رشتہ بھی تھا۔ہم نے تو انھیں ہمیشہ عملی مسائل پرہی مصروف گفتگو پایا۔ بچوں کی تعلیم، گھر کی تعمیر، پیسوں کی کمی، رشتے داری کے تقاضے، محلے برادری کا لین دین، اکثر یہ گفتگو تلخی پر ہی ختم ہوتی اور کبھی کبھی تو زوردار لڑائی بھی ساتھ لاتی۔دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے اور بات کبھی کسی نتیجے تک نہ پہنچتی۔ یہ تو جب ابو رخصت ہو گئے تو کھلا کہ نصف صدی کی رفاقت کیا ہوتی ہے، مگر وہ بہت بعد کی باتیں ہیں۔
بحرین کے ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ لاؤنج میں وارد ہوتے ہی میرے دل پر کیا کچھ نہیں گزر گیا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کی کتنی ہی یادیں، میکے کی خوشبو میں ملفوف کتنے ہی اجلے اور دھندلے منظر۔۔۔ ہم تینوں بھائی بہنوں نے اپنے اپنے طور پر اس جگہ کے کئی تصور باندھے تھے اور عمر کے ہر حصے میں یہ تصور بدلتے رہے تھے۔ جب ابو کو خدا حافظ کہتے تھے تو سوچتے تھے اب ابو جہاز میں بیٹھیں گے، جب انھیں خط لکھتے تھے تو خیال آتا تھا ابو اپنے کمرے میں بیٹھے اسے پڑھیں گے، کیسا ہو گا وہ کمر۱؟ ، عید پر سوچتے تھے، ابو نے کیا کھایا ہو گا؟ کہاں گئے ہوں گے؟(پہننے کا تو ہم سبھی کو معلوم تھا، دھوتی اور بنیان کے سوا انھیں اور کچھ بھی خوش نہ آتا تھا)، جب کسی کا اچھا نتیجہ آتا تھا تو ابو کو کھل کر بلکہ کھلکھلا کرہنستا ہوا محسوس کرتے تھے۔ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تھی، جیسا کہ ہر عمر میں ہو جاتی ہے، تو دل ہی دل میں شکر بھی کرتے تھے کہ ابو بحرین میں ہیں۔ بحرین ہماری زندگیوں کا ایک ناگزیر حصہ رہا ہے۔ یہیں سے آنے والے چیک ہماری سب ضرورتوں کے کفیل رہے ، حالاں کہ وہ چیک اتنے بھاری نہیں ہوتے تھے جیسے عام طور پر دبئی یا عرب امارات سے آنے والے چیک ہوا کرتے تھے۔ میر صاحب پرانے وقتوں کے میٹرک پاس ہی تو تھے، کسی شیخ کے ہاں اکاؤنٹنٹ قسم کی نوکری کرتے تھے اور اپنی غیر معمولی دیانت داری کے باعث اور اتنی ہی غیر معمولی زود رنجی کے باوجود بہت دبنگ انداز میں کرتے تھے۔امرتسر کے کشمیری ٹھہرے، پہلوانوں کا خاندان، بچپن سے کسرت کے نتیجے میں ڈیل ڈول کسی پہلوان سے کم نہیں، صرف آواز ہی اتنی اونچی کہ شریف آدمی دہل جائے اور اگر غصہ آجائے تو پھر کوئی جائے کہاں۔ کئی نوکریاں اسی طیش اور دیانت کی نذر ہو چکی تھیں۔ پہلے ائر فورس سے پیچھا چھڑایا، پھر سول ایوی ایشن لاہور کے افسروں سے ضد مول لی کہ جھوٹی گواہی نہیں دیں گے اور ملازمت سے ہاتھ دھویا، پھر کئی قسم کے کاروبار کرنے کی کوشش کی، گاہکوں کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیتے تھے اور بس ایک کرسی پر بیٹھ کر قلندری باتیں کرتے رہتے تھے۔تبھی تو کوئی بھی کاروبار کامیاب نہیں ہوا۔ ابو کاروباری ذہنیت سے بالکل عاری تھے۔ یہ تو امی کی ملازمت، کفایت شعاری اور غیر معمولی سوجھ بوجھ تھی جس نے ہماری زندگیوں کے سب چھوٹے موٹے روزنوں پر وضع داری کی مخمل کا پردہ ڈال رکھا تھا۔ابو اگر آتشیں گولہ تھے تو امی لال پپلے شربت میں رچا ہو ابرف کا گولہ۔دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جس طرح بھی بسر کی ہو، ہمیں تو سارے موسم میسر رہے۔
تو یہ ہے بحرین۔۔۔ میں نے تقریباً دوڑکر ٹرانزٹ لاؤنج کو پار کرتے ہوئے، ادھر ادھر کی فضا کو اپنے اند سمو لینے کی کوشش کی۔ میں جانتی تھی ابو یہاں نہیں ہیں، اب کہیں نہیں ہیں، لیکن دل کہتا تھا، اِدھر بھی
دیکھو، اُدھر بھی دیکھو، شاید یہی منظر ابو نے بھی دیکھے ہوں ، اسی دروازے سے وہ بھی باہر نکلے ہوں، اسی راستے سے وہ بھی گزرے ہوں۔ دل بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی بچہ بن جاتا ہے۔
بھاگم دوڑ اس لیے ضروری تھی کہ میری دونوں پروازوں کے درمیان صرف ایک گھنٹے کا وقفہ تھا اور پہلی پرواز ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچی تھی مگر چوں کہ دونوں پروازیں ایک ہی فضائی کمپنی یعنی گلف ائر لائن کی تھیں،اس لیے دوسری پرواز ابھی روانہ نہیں ہوئی تھی۔ مسافر جہاز میں بیٹھ چکے تھے اورصرف ہمارا ہی انتظار تھا۔ ہمارے جہاز میں داخل ہوتے ہی دروازے بند ہو گئے اور جہاز نے رینگنا شروع کر دیا۔
تقریباًدس گھنٹے کا سفر ایک تنگ سی نشست میں کاٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔میں بار بار پہلو بدل رہی تھی۔
اب اگر کوئی یہ کہنے لگے کہ’’ چوں چراں کرتی محمل میں بیٹھ کر ہچکولے کھاتی ہوئی جاتیں تو اچھی رہتیں؟ اب اتنے بڑے جہاز میں یوں بیٹھی ہو جیسے کوئی اپنی نشست گاہ میں بیٹھاہو۔ سامنے سکرین لگی ہے، ہیڈ فون گود میں رکھے ہیں، گھٹنوں پر کمبل ہے، گردن کے نیچے تکیہ ہے، بے شمار فلموں، ٹیلی وژن پروگراموں اور دنیا بھر کی خبروں میں سے کسی کا بھی انتخاب کرنے کی آزادی ہے، ابھی کچھ دیر میں میزبان خاتون ایک طشت سامنے رکھے گی، جس میں خوان چنے ہوں گے، ٹھنڈا گرم، نرم یا کڑا، ہر طرح کا مشروب حاضر ہے، اپنے ذوق اور طبیعت کے مطابق مانگ لو۔ وہ سامنے بیت الخلا بھی ہے ۔ نشست کی جیب میں رنگین رسالہ بھی رکھا ہے، خریداری کا شوق بھی پورا ہو سکتا ہے اور تصویریں دیکھ کر بھی دل بہلایاجا سکتا ہے، کئی اخبارموجود ہیں، جو چاہو مانگ لو ، اب اور کیا چاہیے؟‘‘
اس آخری سوال پر میں نے تڑپ کر ادھر ادھر دیکھا، ’’اب اور کیا چاہیے؟ اب اور کیا چاہیے؟‘‘
یہ تو میرا کمزور پہلو ہے، یہاں کس نے چوٹ لگائی۔
مگر یہ کون ہے جو مجھ سے یوں مخاطب ہے، میں تو اکیلی چلی تھی۔
لیکن میں اکیلی نہیں تھی۔
مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ وہ ہم ذات بھی بغیر ٹکٹ، بغیر ویزے کے ،میرے ساتھ محو سفر ہے جس سے میری کبھی نہ بنی۔ وہ دشمن جو میرے ساتھ ساتھ، میرے اندر ہی کہیں پلتا بڑھتا رہا ہے اور جس نے میری زندگی عذاب بنارکھی ہے ،یہاں بھی ڈھٹائی سے مجھے جھانک رہا تھا۔
میں نے بے بسی سے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا اور سنہری روشنی میں نہائی ہوئی وسیع و عریض دنیا میرے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔
جہاز دیار عرب کے ریت بھرے صحراؤں سے ہوتا ہوا تہران و ترکی کی برفانی چوٹیوں پر جھانکتا ہوا، اب یورپ تک آپہنچا تھا۔یونان، میلان، ویانا کے اوپر سے گزرتا ہوا لندن پہنچے گا۔
نیچے بہت دور کہیں کتنے ہی شہر آباد تھے۔ سڑکیں جال کی طرح پھیلی ہوئی تھیں، دریا موڑ مڑتے اور لمبی لمبی قطاریں بناتے تھے۔
اتنی بلندی سے ان ہنستے بستے شہروں کو دیکھنا۔۔۔
یہاں سے ان کی زندگی کی ساری ہلچل، ساری دوڑ دھوپ، ساری تگ و دو، کھیل کی طرح لگتی ہے جیسے کوئی ناٹک دیکھ رہا ہو۔
لوگوں کا بڑی مصروفیت کے عالم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگے چلے جانا، نجانے کن کن مرحلوں کو سر کرنے میں مصروف ہونا، نجانے کیا کیا خواب بننا۔
یہاں اتنی بلندی سے یہ سب کچھ اتنا بے معنی لگ رہا ہے۔
یہ جو نیچے چوخانے سے بنے ہوئے ہیں، یہ مربعے اور مستطیلیں دراصل ملکوں کی سر حدیں اور ان کی لکیریں ہیں۔ ان لکیروں کو پار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔پہلے اپنے ملک سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے کہ ہم اپنی لکیر کے پار چلے جائیں؟ پھر دوسرے ملک سے اجاز ت مانگنی پڑتی ہے کہ آپ کی لکیر پھلانگ کر اس طرف آجائیں؟
وہ کہتے ہیں:
’’ کیوںآنا چاہتے ہو؟
واپس چلے جاؤ گے کہ نہیں ؟
پکی بات بتاؤ! یہیں تو نہیں رہ جاؤ گے۔ ثبوت دکھاؤ۔
یہیں رہنے آئے ہو تو بتاؤ تم ہمارے کام کے ہو یا نہیں؟
نہیں ہو تو نہیں آ سکتے، یہاں صرف وہ رہ سکتے ہیں جو ہماری ترقی میں مدد دیں۔
مانا ہمارے پاس ہر چیز کی فراوانی ہے، مگر یہ ہم نے خود اپنی محنت سے پیدا کی ہے، تمھیں کیو ں دیں۔ یہ صرف ہمارا حصہ ہے۔ تم اپنے ملک میں جا کر اپنا حصہ حاصل کرو۔
ہم فالتو خوراک سمندر میں پھینک دیں گے مگر تم جیسے مفت خوروں کو نہیں دیں گے۔ ہم نے تمھیں بھی اپنی طاقت میں شریک کرلیا تو ہماری چودھراہٹ کیسے قائم رہے گی۔ چلو بھاگو یہاں سے۔ ‘‘
اس ساری خودغرضی، ہٹ دھرمی اور اتراہٹ کو قائم رکھنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے جاتے ہیں، کتنے لمبے چوڑے نظام ترتیب دئے جاتے ہیں۔ پاسپورٹ، ویزا، شناخت، تلاشی، کاغذات، شکوک و شبہات، ڈراوے، دھمکیاں، گرفتاریاں، سزائیں، پہرے داریاں اور جانے کیا کیا کچھ۔اس پر ستم یہ کہ diversityاور pluralism کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے۔نوکریوں کی درخواستوں میں لکھا ہوتا ہے کہ خواتین، اقلیتوں اور متنوع نسلی اوصاف رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔مگر یہ pluralismبھی تو ایک پردہ ہے، ایک نقاب ہے، مہذب ترین ممالک میں نسلی تفاخر اور تعصب کے نشان سر راہ مل جاتے ہیں۔
’’لیکن یہ بھی تو دیکھو، ان معاشروں میں ایسے لوگوں کی تعداد کیا ہے؟ کتنے لوگ ہوتے ہیں، متعصب اور کم ظرف؟ گنتی کے چند ناں؟ اور ذرا اپنی طرف دیکھو، دعویٰ اس دین کی وراثت کا، جس کا دوسرا خلیفہ اپنے غلام کے ساتھ سفر کرتا ہے تو دونوں ایک اونٹ پر باری باری بیٹھتے ہیں اور جب مفتوح شہر میں داخل ہونے کا وقت آتا ہے تو غلام اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہے اور فاتح شہنشاہ اونٹ کی نکیل پکڑے پیدل چل رہا ہے۔ ہزاروں سال میں کسی اور نظام نے مساوات انسانی کی ایسی نظیر پیش کی ہو تو سامنے آئے، مگر تم؟ اس دین کے علم بردار تو بہت بنتے ہو،کبھی اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لو!‘‘ ہم ذات نے میرے سر پر ایک چپت لگائی۔
’’ہاں، یہ ٹھیک ہے کہ کسی بھی معاشرے کے سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جیسے وہ سب متعصب نہیں، ویسے ہی ہم سب بھی تو دہشت گرد نہیں!‘‘ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔ میرے پاس ہم ذات کی دلیل کا کوئی جواب نہ تھا۔
میں مشرق کی سرحد پار کرکے مغرب میں داخل ہو رہی تھی اور میرے ذہن میں وہی پیکار برپا تھی، جس میں میرا انفرادی اور اجتماعی وجود نصف صدی سے مجروح ہوتا رہا ہے۔
ہم کون ہیں اور وہ کون؟
ہم ان کے ’’وہ ‘‘ (the other) ہیں یا وہ ہمارے ’’وہ‘‘؟
کیوں آج تک وہی ہیں جو ہمارے بارے میں سوچتے اور فیصلے صادر کرتے آئے ہیں؟ آخر ہم کہاں ہیں؟ ہم کیوں نہیں بولتے، ہم کیوں نہیں دیکھتے، ہم کیوں نہیں سوچتے؟
ہمارے لب کس نے سی دیے ہیں؟
یہ لب کون کھولے گا؟ کب کھولے گا؟
بہت عمدہ حال ہی میں میں نے بھی ہوائی جہاز کا سفر کیا ہے ۔ سوچ رہی ایک سفرنامہ میری طرف سے بھی ہو جائے 🙂