حجاب، یورپ اور ہمارے دہرے معیار
(رضا علی)
ابھی کچھ دن پہلے کے پنجاب حکومت حجاب کو کالجوں میں لازمی بنانے کی بات کر رہی تھی. اس کے لئے یہ بھی تجویز تھی کے حجاب اوڑھنے والی لڑکیاں پانچ فیصد زیادہ مارکس کی حقدار بھی ہو سکتی ہیں- حکومت نے حجاب کو اسلامی ثقافت اور شعار کا حصّہ تصوّر کیا اور اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی کے اسے سب پرلازم کر دیا جائے. بلکے حجاب کی حوصلہ افزائی (incentivization) بھی کی جائے-
پھر ہم نے ٹی وی پر بھی ایسی ہی ایک بحث دیکھی جس میں ایک خاتوں اینکر، جو خود بے حجاب تھیں، یہ سوال کیا کے، حجاب کی حوصلہ افزائی میں کیا حرج ہے؟ یہ بات جس نے سنی ہوگی اس نے سر ہلا کے یہی کا ہوگا میری طرح کے، اس میں کیا برائی ہے؟ لیکن پھر میرے ذہن میں یہ سوال آیا کے اچھائی یا برائی کس اصول کے تحت؟
فرانس یورپی ملکوں میں اس معاملے میں خاص ہے کیوں کے اس نے حجاب پر بین لگایا، لیکن صرف حجاب پر نہیں بلکے اپنی سوچ کے مطابق، ہر مذہبی نشان پر۔
فرانس ایک قوم پرست ملک ہے جہاں ہر شخص پہلے فرنچ اور پھر کسی مذہب سے تعلّق رکھتا ہے۔ وہاں اسی لئے ایک سخت سیکولر پالیسی ہے جس کے ذریعے وہ ہر شناخت کو باہر رکھتے ہیں سواۓ قومیت کے- لیکن یہ صرف فرانس تک محدود ہے- تو ان کا اصول تو صاف ظاہر ہے
کچھ عرصہ پہلے وہاں برکینی (burkini) پر بھی پابندی لگی جو مسلمان خواتین ساحل سمندر پر پہنتی تھیں- اس پر بھی کافی شور اٹھا، اور وہ بھی یورپ کے غیر مسلموں میں، کیوں کے وہاں ایک اور اصول رائج ہے جسے کہتے ہیں آزادی اظہار- اور یہ کے یہ حکومت کا کام نہیں کے وہ خواتین کو بتاۓ کے کیا پہننا ہے- یورپ میں یہ بات پسند نہیں کی جاتی کے کسی کو اس کی مرضی کے خلاف مجبور کیا جائے- یہاں بھی اصول واضح ہے-
اور کچھ دن پہلے یورپین سپریم کورٹ ECJ نے فیصلہ دیتے ہوے یہ کہا کے کاروبار اگر مذہبی علامات، جیسے حجاب، پر پابندی لگانا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں- لیکن اس شرط کے ساتھ کے جو کرے وہ سب مذاھب اور سیاسی علامت کو بین کرے، صرف حجاب کو نہیں کر سکتا- اصول واضح ہے- مسلمانوں میں اس کا ریکشن یہ ہوا کے، ہاۓ ہاۓ دیکھو مسلمان دشمنی، یہ سب حجاب سے نفرت ہے- ایک کپڑے کے ٹکڑے نے ان کی اصلیت کھول دی- بڑے بنتے ہیں آزادی اظہار والے- ایک امریکی نوجوان مبلغ کے نزدیک تو یہ ساری ایک حجاب کے خلاف سازش ہے- یعنی مسلمانوں کی دو آنکھ پھوڑنے کے لئے یورپ نے اپنی بھی ایک آنکھ collateral damage میں پھوڑ دی- ان کے نزدیک مسلمانوں کو جاگ جانا چاہیے کے دنیا اسلام سے نفرت کرتی ہے کیونکہ حجاب کی خاطر کرسچن کراس cross کو بھی بین کر دیا- وہ کہتے ہیں کے یورپ کے ججوں کو کھل کے کہہ دینا چاہیے کے وہ حجاب کے خلاف ہیں اور بس- کیونکہ یہ مبلغ کھل کے ان کے اور ان کے اصولوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں-
یورپ میں ایک لہر دوڑی ہوئی ہے جسے کہتے ہیں اسلام کا خوف یا Islamophobia. یہ اسلاموفوبیا ماضی میں اتنی طاقتور نہیں تھی جتنی آج ہے، شامی مہاجرین کی بعد- جب آپ ان دائیں بازو کے اسلام مخالف لوگوں کی باتیں سنیں، چاہے وہ برطانیہ میں ہوں، فرانس، اٹلی، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، ناروے، ڈنمارک یا نیتھرلنڈ میں سب یہی راگ الاپ رہے ہیں کے یہ مسلمان باہر سے آکے ہمارے ملکوں میں اپنا مذہب اور اپنی ثقافت پھیلا رہے ہیں۔ انہیں روکنا ضروری ہے ورنہ ہمارا نقشہ بدل جائے گا- یہ قدامت پرست ہیں- ان کے طور طریقہ قبائلی اور ظالمانہ ہیں- جیسے عورت کو پردے میں لپیٹ دینا اور اسے جائیداد کی طرح ایک ہاتھ سے دوسرے بدلنا وغیرہ وغیرہ-
کیا ایسی باتیں آپ نے کسی مسلمان دائیں بازو کے اسلام پرست سے سنی ہیں؟ کبھی یہ سنا ہے کے ہم پر مغربی معاشروں کی ثقافت کی یلغار ہے- وہ ہمارا نقشہ بدلنا چاہتے ہیں۔ اپنی سوچ ، اپنا لباس، اپنے طور طریقے ہم پر تھوپنا چاہتے ہیں- ہمیں ان کی خلاف اپنا دفع کرنے کی ضرورت ہے-مغرب کے نام پر عورت میں بےحیائی پھیل رہی ہے- وہ ہماری عورت کو بل بورڈ کی زینت بنا رہے ہیں- عورت چھپانے کی چیز ہے- ہمیں اس با حجاب کرنا ہوگا چاہے زور زبردستی ہی کیوں نہ کرنی پڑے- چاہے ہمیں ایک عورت کے مقابلے میں دوسری سے امتیازی سلوک کیوں نہ کرنا پڑے- اسے ہم مغرب کا خوف یا westophobia کہ سکتے ہیں- یہاں اصول سمجھ میں آیا؟
ہوسکتا ہے آپ کا خیال ہو کے مغربیت کا یہ خوف مشرق کے معاشروں جیسے پاکستان میں ہو گا- لیکن آپ کا خیال غلط ہے- یہ پاکستان سے زیادہ یورپ میں رہنے والے مسلمانوں میں ہے- جو مسلمان پاکستان میں حجاب نہیں کرتین اور داڑھی نہیں رکھتے، وہ یورپ میں کر لیتے ہیں- مغربی کلچر کا خوف دلوں میں اتنا زیادہ ہے کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو کواں بند یا ghettoize کر لیا ہے- وہ ذہنی طور پے جزیروں میں رہ رہے ہیں-
جب مسلمان عورت سے یورپ میں حجاب کا حق چھینا جاتا ہے، تو وہ کہتی ہیں کے ہم اپنی آزادی راۓ کا اظہار کر رہے ہیں- لیکن اگر ان سے یہ پوچھا جائے کے کیا سعودی، ایران، دیگر مشرق وسطیٰ اور اب پاکستان کی مسلمان عورت پر حجاب لازم کر کے اس سے یہ حق چھینا جائے تو مسلمان اس پہ زیادہ احتجاج نہیں کرتے- اصول سمجھ میں آیا؟ جب وہاں حقوق نسواں(feminism) کی حامی خواتین حجاب پر اعتراض کرتی ہیں کے یہ عورت کو انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش ہے تو وہاں کی مسلمان خواتین کہتی ہیں کے ہم اپنی مرضی سے حجاب پہن کے اپنی آزادی (emancipation) کا اظہار کر رہی ہیں- لیکن اگر مسلمانوں سے یہ پوچھا جائے کے کیا مسلمان معاشرے کی عورت اختلاف کرتے ہوے حجاب نہ پہنے تو وہ اس کے اتنے حامی نہیں- اصول سمجھ میں آیا؟
آپ دو طرح کے اصول بنا سکتے ہیں، ایک برابری کے یا symmetric اور دوسرے غیر برابر یا asymmetric- پہلے کی مثال ہے ‘دوسرے کے لئے وہ پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو’ اور دوسرے کی ‘بڑا تھپڑ مارے تو سبق، چھوٹا مارے تو بدتمیزی’- پہلے کو ساری دنیا پسند کرتی ہے اور اسے سنہرا اصول یا Golden Rule کہا جاتا ہے- غیر برابری اور غیر منصفانہ اصول تو انسان چھوڑیں جانور بھی پسند نہیں کرتے- سائیکولوجسٹ نے جب دو بندروں کو الگ الگ کھانے کو دیا تو ان میں سے بھی ایک نے شور مچا دیا- ہم تو انسانوں کو بندروں سے بھی گیا گزرا سمجھتے ہیں- اپنے نظریات کو ہم نے اصول بنا لیا ہے- انکی تکمیل کی دوڑ میں جس بھی ناانصافی کا ارتکاب کرنا پڑے وہ سب ہمارے نظریات کے ترازو میں انصاف میں بدل جاتے ہیں-