خاکی کا ہو ایک اشارہ ۔۔۔ حاضر حاضر قلم ہمارا
(فاروق احمد)
کیانی کو جسٹس چوھدری کے پاس چھوڑ کر جب جنرل مشرف کو کچھ دیر کے لیے جانا پڑا تو کیانی نے چوھدری سے کہا : چیف صاحب ڈٹ جائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس وقت کیانی کس ادارے کے سربراہ تھے۔ مشرف کو ہٹانے کے کھیل کی ابتدا لال مسجد سے ہوئی تھی۔ مشرف نے لال مسجد پر ہاتھ کیا ڈالا۔ جگا جاسوسوں کے چھتے پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔ جگا جاسوسوں کو یہ مداخلت ناگوار گزری اور پھر نتیجتاً مشرف کے خلاف ایک زبردست اپ رائزنگ کا آغاز ہو گیا ۔۔۔ جگا جاسوسوں نے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے اپنے ہی آرمی چیف کو نہ بخشا ۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔ جسٹس چوہدری کی بحالی کی تحریک میں ہوا بھرنے اور اسے طوفان بنانے کا سہرا جگا جاسوسوں کے ہی سر جاتا ہے۔
ججوں کی بحالی کی تحریک پاکستان کی سیاسی سائنس کے بنیادی اصول سے ہم آہنگ نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ اصول یہ ہے کہ یہاں ہر سیاسی تحریک کی زور آوری کے پیچھے جگا جاسوسوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس بنا پر یہ سب نہایت حیران کن تھا کہ وہ تحریک پاکستانی سیاست کی فزکس کے اس بنیادی قانون کو توڑتی نظر آ رہی تھی ۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔ کون جانتا تھا کہ مشرف کے پاؤں تلے سے قالین کھینچے جانے کے پیچھے بھی یہی قانون کار فرما تھا ۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔ پانامہ کے غبارے میں ہوا بھرنے والا پمپ بھی دنیا کی نمبر ون ایجنسی کے ہائی ٹیک سیکشن نے تیار کیا ہے ۔۔۔ پانامہ فیصلہ بھی جگا جاسوسوں اور بڑے باجوہ صاحب کے درمیان جاری میچ کا ہی ذیلی نتیجہ معلوم ہوتا ہے ورنہ فیصلہ پانچ صفر ہوتا اور نواز شریف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور۔۔۔ ۔
’’ آپ کا قد کاٹھ ہمارے طے شدہ معیار سے اوپر نکلا جا رہا ہے ، اسے روکیں ورنہ ہم خود اسے کٹ ٹو دی سائز کر دیں گے ‘‘ ۔ یہ وہ بین السطور پیغام ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے ہر سیاسی لیڈر کو کسی نہ کسی مرحلے پر بھیجا جاتا رہا اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔۔۔ کچھ نے خود کو طے شدہ معیار کے عین مطابق ڈھال لیا اور کچھ نے لیت و لعل سے کام لیا ۔۔۔ جس نے پیغام نظرانداز کیا اس نے زندگی سے ہاتھ دھوئے ورنہ اقتدار سے ۔۔۔ ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دیوتا کے منصب پر فائز ہو جانے کے بعد سے یہ اصول خاکی مافیا کے کٹھ پتلی تماشا کے کرداروں کے تعین کا بنیادی کرائیٹیرین قرار پایا ’’روبوٹ تیار کرو مگر اسے ایک حد سے زیادہ آزادی کا مظاہرہ نہ کرنے دو ‘‘ ۔
کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے بہت سے بڑے سیاسی رہنما آرڈیننس فیکٹریوں سے اسمبل ہو کر نکلے ہیں ۔۔۔ اور جو یہاں کے مینوفیکچرڈ نہیں تھے ان کو موڈیفائے یہاں لا کر کیا گیا ۔۔۔ ۔ لیکن اس تمام پیشہ ورانہ مہارت اور احتیاط کے باوجود یہ ڈیفیکٹ اپنی جگہ رہا کہ یہ روبوٹ کچھ عرصے کے بعد خود سری کے مظاہرے پر اتر آتے ہیں اور ان کا قد کاٹھ طے شدہ معیار کی حدوں کو چھونے لگتا ہے ۔۔۔ بداخلاقی کی انتہا یہ کہ اپنے ہی خالق کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں کہ کچھ انسانی خمیر تو بہر صورت موجود ہوتا ہی ہے ۔۔۔ ۔
لیکن اس صورت میں کیا کرنا ہے یہ بھی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر میں درج ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں دیگر روبوٹس کو گھمنڈی باغی کی سرکوبی پر مامور کر دیا جاتا ہے ۔۔۔ یکے بعد دیگرے وارننگ جاری کی جاتی ہیں ۔۔۔ خبردار کیا جاتا ہے ، سمجھایا بجھایا بھی جاتا ہے ۔۔۔ لیکن جب ساری کاوشیں بے سود ثابت ہو جاتی ہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔۔۔ ۔ دو بٹا تین یا تین بٹا دو کا ’’ وٹّا ‘‘ دکھا کے آخری وارننگ دی جا رہی ہے کہ قدم بوسی کرلو ، اطاعت قبول کرلو اور خراج ادا کرتے رہو ۔۔۔ دو ماہ ہیں سوچنے کو ۔ لیکن ایک نیا خطرہ اور بھی ہے ۔۔۔ اور یہ تمام اطاعت گزاروں کیلئے بھی ہے۔
طے یہ پایا ہے کہ تمام بڑے قد کاٹھ والوں کو ایک ایک کر کے فارغ کر دیا جائے تا کہ کم از کم آئندہ بیس سال تک معاملات اس نہج تک دوبارہ نہ پہیچ پائیں کہ کوئی اس حد تک سیاسی طاقت حاصل کر لے جس قدر نواز شریف گینگ نے حاصل کر لی ہے اور اب جسے ناک رگڑوانا لوہے کے چنے چبانا ثابت ہو رہا ہے ۔۔۔ ۔ فیصلہ یہ ہے کہ اگر دو ماہ کی مدت کے دوران معاملات طے نہیں پاتے تو نواز شریف کے بعد تینوں نامور سیاسی جماعتوں کی درجہ اول قیادت کو بھی فارغ کر دیا جائے، بہ الفاظ دیگر ایم کیو ایم پر آزمودہ اور کامیاب مائنس ون فارمولے کا اطلاق اکراس دی بورڈ کر دیا جائے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال جیسوں کو ہینڈل کرنا الطاف حسین کو ہینڈل کرنے سے بدرجہا آسان ہے ۔۔۔ ۔
خاکی اسٹیبلشمنٹ کے اندر عمران خان اپنی تمام تر فرمانبرداری کے باوجود باقاعدہ تسلیم شدہ اور سرٹیفائیڈ احمق گردانے جاتے ہیں ۔۔۔ اور زرداری اپنی تمام تر معاملہ فہمی اور مصلحت پسندی کے باوجود ناقابل اعتماد ۔۔۔ لہٰذا نچلے درجے کے روبوٹ لائے جائیں جن کو قد کاٹھ کے پیرامیٹرز تک پہنچتے بیس سال تو کم از کم لگ ہی جائیں ۔۔۔ پھر جب کی جب دیکھیں گے ۔۔۔ ۔ گو نواز گو کرنے والوں کو نوید ہو کہ اس کے بعد گو عمران گو اور گو زرداری گو بھی دور نہیں ۔۔۔ بڑا کانٹا نکل جانے دیں تو پھر بقایا تو بس یونہی چٹکی بجاتے ۔۔۔ کیس سب کے خلاف تیار ہیں ۔۔۔ اور فیصلہ لکھ کر قلم توڑنے والے منتظر ہیں کہ ۔’’ خاکی کا ہو ایک اشارہ ۔۔۔ حاضر حاضر قلم ہمارا ‘‘