خبرنامہ کہ عقوبت کدہ
(نصیر احمد)
مشرف کے زمانے سے ہم گاہے گاہے تمھیں خبرنامے کا احوال سناتے رہتے ہیں۔ خبروں کا ایک مقصد حالات حاضرہ سے آگاہی ہوتا ہے کہ آگاہ شہری ملکی معاملات میں شرکت بہتر انداز سے کر سکیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اسے لکھتے ہوئے ہم کچھ شرمندہ سے ہو گئے ہیں کہ تم پھر ہنس دو گی کہ کتابی باتیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ہمیں بھی کچھ خبر ہے کہ سب اچھی باتیں کتابوں کی زینت ہی ہیں اور کتابیں کوئی پڑھتا ہی نہیں کہ روزگار کا سلسلہ اچھی باتوں سے منقطع ہو گیا ہے اور اب کتابوں کی دکانوں میں بھی اچھی کتابیں کم ہی ملتی ہیں۔
اب تو کتابیں بھی کاملیت پرستی کی مختلف شکلوں کے گن ہی گاتی رہتی ہیں۔اور کاملیت پرستی کا ایک نتیجہ سفلہ پن ہے اور جب سے کاروبار نے اپنی شریعت کو فروغ دیا ہے یعنی جب سے کاروباری ہر مسئلے کا حل جاننے لگے ہیں تب سے گفتگو کا معیار گرتے گرتے کاملیت پرستی کے عالمی سطح پر فروغ کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔
اس دفعہ تو شاید کسی عقوبت گاہ میں کسی شنڈلر جیسے کسی انسان دوست کاروباری سے بھی ملاقات نہ ہو سکے کہ اتنے گرے ہوئے معیار انسان دوستی کی افزائش کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔لو، ہم بات کو کہاں سے کہاں لے گئے لیکن ہمارے ہاں کی گفتگو کی ہٹلر کے جرمنی سے بہت مشابہت ہے اور اس کا یہ عکس رخ بار بار ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور ہزار کوشش کے باوجود ہم سے جو ہم سوچتے ہیں کہے بغیر رہا نہیں جاتا۔
لیکن یہ سوچوں کے سلسلے بے ربط نہیں، پچھلے دو دنوں سے ایک چینل پر ایک دو گھنٹے حالات حاضرہ کا ایک پروگرام دیکھتے ہیں اور اس کے بعد خبریں سنتے ہیں۔
اور خبریں اور پروگرام کیا ہیں؟ دو سیاستدان لڑ پڑے، ایک نے گالی دی، دوسرے نے مکا مارا اور کچھ نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ بات یہاں ختم ہونی چاہیے تھی لیکن تماش بینی کب اس طرح کی بات ختم ہونے دیتی ہے۔ میزبان، مہمان، راہ گیر، مقتدر لوگ، خبروں والے، سب مکے اور گالی پر مسلسل باتیں کیے جا رہے ہیں۔
اور باتیں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں۔ ہزار زاویوں سے کیمرے والے یہ معرکہ دکھاتے ہیں اور تبصرہ خواں اس پر وہ جز رسی اور نکتہ دانی کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے نا زیبائی سے بڑی کوئی فضیلت نہیں۔اور جو لوگ اپنے بچوں کی اشرف اور خاتون کے طرز پر تربیت کر رہے ہیں، وہ احمق اور جاہل ہیں۔ظاہر ہے جسے گالی کی فلسفیانہ گہرائی کا علم نہیں اور جسے مکے کی افادیت کی خبر نہیں، وہ تو بس گالیاں اور مکے کھاتا رہے گا اور اپنی رسوائی کو خبر بنوانے سے کتراتا رہے گا۔ وہ کیسے معاشرے میں زندہ رہ پائے گا؟
ہم کوئی اتنے نازک مزاج نہیں کہ گالی گلوچ اور مکے بازی کی دنیا سے بالکل بے خبرہیں لیکن اس سب کے خبر ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ کسی نے کسی کو گالی دی، اس کے بارے میں مسلسل گفتگو کرنے میں کون سا عوامی مفاد پنہاں ہے؟ اور اس سب کے پیچھے کسی کچرا سی فلم سے مستعار لیے ہوئے سازینے بجانے سے ملک کی کیسے بہتری ہو گی؟
ٹھیک ہے عوامی نمائندے ہیں اور جیسے کہتے ہیں ان کے افعال کے بارے میں عوام کو دلچسپی ہوتی ہے لیکن کیا یہ لوگ اجلاسوں میں صرف گالی گلوچ اور مکا بازی ہی کرتے ہیں یا کچھ کام بھی کرتے ہیں؟ ان کے کام کرنے یا نہ کرنے کے متعلق خبریں اتنی اہم کیوں نہیں ہیں؟
یا صحافیوں کو یہی کچھ نظر آتا ہے، سستا، اوچھا اور گرا ہوا کہ آسانی سے دستیاب ہے ورنہ خبر تو معاشرے میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں کے متعلق بھی تو ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ خبر کچھ کام مانگتی ہے اور کام کے لیے وقت نہیں اور کام کی کچھ عزت بھی نہیں۔ پھر بچے کیوں پیدا کیے؟ اور اگر کر لیے ہیں تو ان کو خبرناموں سے دور رکھیں، شاید اس طرح کچھ ان کا بھلا ہو جائے ایسے تو سیانے ہوئے تو زیادتی کرتے رہیں گے اور اگر نکمے نکلے تو زیادتی سہتے رہیں گے، زیادتی ، نا انصافی، جوروجفا کا کچھ مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ہر نسل کا ایک ہی نوشتہ، ہر نسل کا ایک ہی انجام اور ہر نسل کے پڑھے لکھے لوگ کچرے کو فروغ دیتے ہوئے۔
اور رہے عوامی نمائندے، ان کی پارٹی کے رہنماؤں کو چاہیے کہ انھیں پارٹی سے نکال دیں۔ ایک اور کتابی بات۔ اور کیا کہیں کہ اچھا کیا، گالیاں دیں، مکے بازی کی، نام اونچا کیا، وزارتوں پر بٹھا دو۔ گلے میں ہار ڈالو، اور کسی بلند مقام سے انھیں بھی چھچھوری باتیں کرنے کا موقع دو کہ تماش بینی کی لذتوں کا مقابلہ اکتا دینے والی سنجیدگی کب کر سکتی ہے۔
لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ ایسی خبریں دیکھ سن کر کوئی شہری نہیں بن سکتا۔ شاید اس ساری تماش بینی کا مقصد ہی یہی ہے کوئی شہری نہ بن پائے۔ شہری نہیں بن پائیں گے تو جب ان کا سمے آئے گا، ان کو باندھ کر قتل گاہ میں لے جانے میں بہت آسانی رہے گی۔ اورقتل گاہوں کی طرف لے جانے والے رستوں کو ہموار کرنا زندگی کی تذلیل ہے۔ لیکن ان خبرناموں سے پہلے جو خبرنامے تھے، وہ بھی کچھ ایسے ہی تھے اور وہ لوگ جو خبرنامے لکھا کرتے تھے اور پیش کیا کرتے تھے، ان میں کسی کو کچھ ندامت نہیں ہے۔
اس طرز کے خبر نامے جنھوں نے شروع کیے تھے، ان کو بھی کسی قسم کی کوئی ندامت نہیں ہے۔اب سب کچھ حالات پر منحصر ہے، اگر حالات کچھ اچھی سمت میں چل نکلیں تو شاید لوگوں کو کچھ احساس ہو جائے اور وہ اپنی کوششوں کو حالات سے ہم آہنگ کر لیں لیکن سب کچھ حالات پر چھوڑنے کا ایک نقصان ہوتا ہے کہ کبھی سمجھتے سمجھتے اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ گاڑی نکل جاتی ہے اور ہم بطور قوم اس طرح کی بہت ساری گاڑیاں چھوڑ چکے ہیں۔