(علی اکبر ناطق)
جانا ہمارا شگر میں اور دیکھنا بغداد کا الف لیلوی بازار
ارادہ تو یہ تھا ،کہ دلاور عباس اور ہم اکٹھے ہرنی کی چال سے چوکیاں بھرتے شِگر جائیں گے، دو دن وہیں خوبانیاں اور آلو بخارے کھائیں گے اور تیسرے دن اُسی ڈھنگ سے وآپس آکر سکردو کی چراگاہوں میں چرنا پھرنا کریں گے مگر ہوا یہ کہ ہمارے تین دن مشاورت کی نظر ہو گئے اور جب لگا کہ نیند کامعاملہ دلاور عباس کے بس سے باہر ہو چکا ہے اور جب تک وہ اُونگھتا ہے دوسری شام کنارے آ لگتی ہے تو ہم نے سلیم کو فون کیا اور کہا ،میاں آو اور ہمیں شِگر کا طواف کرا لاو۔وہ شاگرد ہمارا فرمانبردار ہے اور نہایت ہشیار ہے ۔ اپنی موٹر سائیکل لیے روشنی کی رفتار سے پہنچا ، بادِل سُرمئی تھے ، ہوا سُرمنڈل پر ہلکی اُنگلیاں پھیر رہی تھی، نرم نرم بوندا باندی شروع تھی اور وقت گیارہ بجے کا تھا ۔ مہینہ جولائی کا مگر سکردو میں اِسے مارچ سمجھیے ،کہ ویسی ہی بادِ بہاری تھی ۔ ہم نے ہنیڈل اپنے ہاتھ لیا اور سلیم کو پیچھے سوار کیا اور راستہ شگر کا اختیار کیا اور چلے پیا کے دیس بدل کے اپنا بھیس ۔ سکردو سے نکلے، دریا ہمارے ساتھ ہو لیا لیکن ہم اُوپر اُوپر ،وہ نیچے نیچے رہا ،بُرے بُرے موڑ آئے جو دریا سے ہمارا رشتہ مستقل قائم کرنا چاہتے تھے مگر ہم ایک ہی کائیاں نکلے ،پاوں بریک پہ مسلسل رکھا ،،ذری جو خطرہ دکھائی دیتا ہم بالکل پہاڑ کے پہلو میں جا لگتے اور آہستہ آہستہ آگے کسک لیتے ۔ پہلے پڑاو پہ حسین آباد آیا ۔یہ عجیب بات ہے ،آپ جب بھی شگر کی طرف جایئے ،ہمیشہ پہلے حسین آباد ہی آتا ہےاور واپسی پر آخر میں آتا ہے ،ایسا کیوں ہے ،یہ معاملہ سمجھ نہیں آتا ۔ یہ گاوں سکردو کی شان ہے ، طرح طرح کے پودوں ،درختوں ،خوبانیوں یعنی بیسیوں طرح کے پھلوں اور پھولوں کی پیچان ہے ۔ اِسے درمیان سے سڑک کاٹتی ہے۔ پہاڑ کی جانب کا حصہ بہت اُوپر تک نکل جاتا ہے اور دریا کی سمت کا پاٹ کے دامن سے جا لگتا ہے اور چشمے اور ندی نالے ہر دوحصوں میں خروج کرتے ہیں اور حسین آباد کے باسیوں کو چھاوں اور روزی دیتے ہیں ۔ ہم نے گاوں کو پیچھے چھوڑا اور باہر نکلے ،وہیں ایک چھوٹا امام بارگاہ کنارے کھڑا تھا ۔ ہم نے بھی کچھ دیر کو ٹھیکی لی ، ٹھنڈا پانی پیا ، سلام کیا اور آگے کی سمت اُٹھے ۔ جس وقت مَیں سکوٹر کی رفتار تیز کرتا ، سلیم درود و صلواۃ کا ورد تیز کر دیتا اور جب رفتار ہلکی ہوتی ،عبادت بھی رُک جاتی تھی ۔اسی طرح اللہ میاں سے چُہلیں کرتے اور اٹھکیلیاں بھرتے ہم دریائے سندھ کے اُس پُل پر پہنچ گئے جہاں سے دریا کو پار کرنے کے بعد راہِ شگر اختیار کرنا تھا ۔ یہ کشتی پُل بہت عمدہ اور شاندار ہے اور کافی لمبا ،ٹائی ٹینک جہازی رنگ میں رنگا ہوا ہے ، سُنا ہے چین والوں نے بنایا ہے لیکن امریکہ کی طرح اپنے پیسوں سے نہیں ،ہمارے پیسوں سے ۔ نیچے دریا مست ہاتھی کی مثل لہروں کو لوہے کے سنگلوں کی طرح کھینچتا ہوا اور دھاڑتا ہوا جاتا ہے ، انسان اِس سے آنکھوں چار نہیں کر سکتا ۔ لہریں اور موجیں ایک ایک پل میں سو سو چکر کھاتی ہیں اور اُوپر کے طبقے نیچے اُلٹاتی ہیں ،درمیان میں سینکڑوں پہاڑ قامت پتھر قلابازیاں کھاتے اور لُڑکھتے پھرتے ہیں اور گھِسے چلے جاتے ہیں ،بندہ بشر کی کیا مجال ، اندر جائے یا گرے اور جھپکے میں لُوئی لُوئی نہ ہو جائے ۔ ہم نے ایک پل کے لیے اِس کی طرف دیکھا اور چکر کھایا ، فوراً فاتح پڑھی، دریا کو یہیں چھوڑا اور آگے کی طرف دفان ہوئے۔ یہاں ایک دو پولیس والے کھڑے آنے جانے والے کی دیکھ بھال کرتے ہیں ، ہم سے بھی پوچھا ،بلتی زبان تھی ،کچھ سمجھ نہ آیا ،آخر اُس نے ہمارے ساتھی سلیم سے جواب پایا اور ہمیں شگر کا راہ دکھایا ۔ دریا پار کرتے ہی ایک مربع میل کا صحرا پڑتا ہے جسے سُرخ رنگ کے پہاڑوں نے دامنِ دل میں جگہ دے رکھی ہے ، اور چھوڑے گا نہیں اِس کے جواں ہونے تک مگر صحرا جواں ہوتا نظر نہیں آتا البتہ اِسے مولانا شیخ محسن نجفی صاحب سرسبز کرنے کے درپئے ہیں ۔ دیکھیے کب ہرا ہرا دکھاتے ہیں ۔ غرض اِس دیارِ بے ننگ و نام کو پار کرتے ہی پربتی چڑھائی شروع ہوتی ہے اور ہوتی ہی چلی جاتی ہے ،اچھا خاصا تھکا دیتی ہے ۔ یہ سڑک قدرے اچھی ہے بلکہ بہت اچھی ہے ۔ ہم چڑھتے گئے اور دیکھیے ،بارش بھی شروع ہو گئی اور تیز شروع ہوگئی ۔اب آپ ہی اندازہ کیجیے ، سُرخ پہاڑوں کی چڑھائی ہو ، سُرمئی بادلِ گھِرے ہوں اور بارش خوب برس رہی ہو ، نیچے دریا کی روانی ہو اور بہتا ہوا ایدھر اُودھر پانی ہو تو کون ایسا مائی کا لال انشاپرداز ہے جو اِس منظر کو لفظوں کی زبان دے سکے ،سو بھائی ہم بھی اِ س کو بیان کرنے سے قاصر ہیں اور اتنا کہے جاتے ہیں کہ جو فطرت کی اِن خوبیوں کو پا کر بھی خدا کے باغی ہیں تو وہی حقا کافر ہیں ۔ موٹر سائیکل ہمارا اچھا تھا ،نیا تھا ، ڈرائیور ہم پُرانے تھے ،مگر سلیم ہمیں صرف شاعر ہی سمجھتا تھا اِس لیے اُس نے یہاں کلمے کا ورد پہلے سے دُگنا کر دیا۔ اور زور شور سے کر دیا ۔کیونکہ نیچے 500 سو فٹ گہرا دریا پیا گھر بلانے کا عزم رکھتا تھا ۔ خیر بھائی کوئی ایک گھنٹا کی دوڑا دوڑی کے بعد سلیم کے خیال میں ڈرائیونگ کی بجائے اُس کے کلمہ اور درود و صلواۃ کے زور پر سُرخ اور سُرمئی پربتوں کو عبور کر کے شگر کی وادی میں داخل ہوہی گئے ۔ لیجیے شگر کی داخلی سڑک پر وہی خوبانی کے لدے پھندے پیڑوں کے سائے تھے ،جن کے نیچے گاہے گاہے فوجی جوان کھڑے اپنی ریفل کا وزن تولتے ملے ۔ ہم حیران کہ اِنھیں کیا ابتلا پڑی ،کہ گزرنے والوں کے دن گزرتے ہیں اور انھیں یہاں کھڑے ہونے کی پڑی ہے ۔ پتا چلا کہ کچھ دیر پہلے کوئی جرنیل صاحب بیوی اور بچوں کے ساتھ شگر میں داخل ہوا ہے اور سرینا میں کھانا پینا کرتا مرتا ہے ۔ جبکہ جوان راہوں کے پھاہے پر اٹکے اُس کی جان کو روتے کھڑے ہیں ۔ یہ جمعہ کا روز تھا ۔ جب ہم داخلِ شہرِ شگر ہوئے تو لوگ باگ جمعہ کی نماز میں تھے ۔ کوئی ذی بشر نظر نہ آتا تھا ، شگر کے بازار خالی ،چوک خالی ، باغ خالی، بہار خالی تمام خانہ ہائے نگار خالی ۔۔ جس ہوٹل کو دیکھتے تھے ،وہی دو بند ہاتھوں سے معافی کا طلبگار نظر آتا تھا۔ اِدھر ہمیں چائے کی شدید طلب تھی ۔ سلیم کو پتا نہیں کیا سوجھی، وہ ہمیں ہمارے دو سال پُرانے بچھڑے ہوئے شاگرد وقار شگری کے ہوٹل کی طرف لے گیا ۔وہ خود تو تھا نہیں ، دیسائی مچھر مارتا پھرتا تھا ،اِدھر اُس کے والد صاحب نے چائے کی بجائے ہمیں کھانا کھلا کر ٹرخا دیا یعنی کچھ ذیادہ ہی میزبانی کے عمل میں طلبِ چاہ مزید بڑھا دی۔ چائے اُس نےئ پوچھی نہیں ،ہم نے مانگی نہیں ، در اصل وہاں چائے پنیے کا زیادہ رواج نہیں اس لیے چائے خانے بھی کم کم ہی ملتے ہیں ۔ ہم نے کھانا تو کچھ نارسائی سے ہی کھایا تھا ۔چنانچہ چائے نہ ملنے تک خوبانیوں پر ہاتھ صاف کرنے کی ٹھانی اور خوب کیے ۔اِس دورانیے میں جمعہ پڑھا جا چکا تھا، بازار و کوچہ و سرا کے در وا ہو چکے تھے ۔ اِسی عرصہ ہمارے ایک اور شاگرد لیاقت شگری نے ہمیں آ پکڑا ،وہ ایک ہوٹل میں لے گیا ۔ ہوٹل تو کچھ خاص اُجلا نہیں تھا لیکن جو اُس کے پہلو میں ٹھنڈے اور میٹھے اور اُجلے پانی کی ندی بہتی تھی ،اُس کا جواب نہیں تھا ۔ یہاں ٹھنڈ کافی تھی ، چائے آئی ، ہم ندی کے کنارے بیٹھے پاوں پسارے اور گھونٹ گھونٹ خواب میں ڈوبے شگرکی پینگیں جھول رہے تھے ۔ مزا سہہ بالا تھا ، اِسی ہوٹل کے پچھواڑے جہاں ٹھنڈی چاندی کی ندی بہتی تھی ،ہمارے ساتھ کچھ دوسرے مقامی لوگ بھی بیٹھے ،لطفِ شورِ چشمہ و ندی لے رہے تھے اور چائے پی رہے تھے ۔ گپیں اُن کی سراسر بلتی زبان میں تھیں ،جسے اُن کے علاوہ اللہ میاں سمجھتا ہو گا ۔ہمارے پلًے تو بس اُن کا سر اور ہاتھ ہِلانا پڑتا تھا ،جو باتوں کے دوران مسلسل ہِلا رہے تھے ۔ چائے پیتے ہی ہم اُٹھے اور نکلے اِس نگر کی سیر کو جہاں باولے میاں علی اکبر ناطق جولائی کا دھڑن تختہ کرنے آئے تھے ۔ ہماری موٹر سائیکل اُسی ہوٹل کے دروازے پہ بے تالی پڑی رہی اور ہم چل دیے بطخ کی چال ۔ لیاقت شگری کہیں چوک کے بیچ ہی سے نکال کر نواب صاحب کے قلعے کی طرف لے مُڑے ۔ اِس جگہ کچھ پولیس والے بہت سے لڑکے بالوں کو روکے کھڑے تھے کہ آگے بڑے صاحب تشریف فرما ہیں ،تم واپس ہٹو کہ چھوٹوں کے لیے جگہ خالی نہیں ہے ،چھوٹے لوگ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے مگر ہم اُن دوطرفہ توتکار کے درمیان ہی سے چُپکے سے نکل لیے اور کسی کا ماتھا نہ ٹھنکا ۔ ہوا ٹھنڈی تھی ، موسم باولا تھا ،ندی جاری تھی ،جس کے کنارے کنارے اور چناروں اور اخروٹ کے درختوں کی چھاوں چھاوں ہم قلعہ ءنوابی یعنی آج کل کے سرینا کی طرف بڑھ رہے تھے ، (ہائے شگر والو تم تو روز بڑھتے ہو گے )منظروں کا کچھ نہ پوچھیے ، یہاں ہر طرح کے درخت سایا سایا چلتے ہیں اور ہمارے بھی ساتھ ساتھ ہی چلے ۔ آخر ہم وہاں پہنچے جہاں قلعہ ہے ،لکڑی اور پتھروں سے بنا ہے ،ہم نے اِس کا سارا احوال اپنے ایک مضمون (سکردوہے جس کا نام ) میں درج کیا ہے ،وہیں سے پڑھ لیجیے اور ہمیں دعائیں دیجیے۔ ندی کے اُوپر سڑک کے بیچ فوجی جوان بیٹھے تھے اور تندوری روٹیاں چنے کی دال کا لحمِ بقر اُڑا رہے تھے اور اُن کا جرنیل بابا بچارا سرینا میں بیٹھا ہرن اور تیتر بٹیر کے ساتھ روکھی سوکھی کھا رہا تھا ، اللہ کسی کو مفسلی نہ دکھائے ورنہ ہرنوں کا گوشت پلے پڑ جاتا ہے اور بعد از قیامت گلے پڑ جاتا ہے اور چھوٹتا نہیں ۔ خیر ہم اُن سے گزرے ،پُل پار کیا اور داخل ہو گئے شگر گاوں میں، جسے یہ شہر کہتے ہیں ۔ اُوپر بید ،چیری ،خوبانی ،آلو بخارا اور اخروٹ کے درختوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ اور نیچے صاف ستھری مگر کچی گلیاں اور چھوٹے چھوٹے کچے گھر تھے ۔ لیاقت ہمیں ایک گلی سے نکال دوسری میں داخل کیے دیتا تھا اور ہم اُس کے پیچھے پیچھے اللہ کی نعمتوں کا شکرانہ پڑھتے جاتے تھے ۔اتنی پُرسکون ، ٹھنڈی اور نیک گلیاں ہم نے اپنی حیاتِ دو روزہ میں نہیں پائی تھیں ۔گلیوں کے بیچ بیچ چھوٹی چھوٹی صاف پانی کی نالیاں بھی بہے جاتی تھیں ۔ جن میں سے ہم نے دو بار اوک سے پانی پیا اور آگے چلے ۔ چلتے چلتے ہمیں ایک ایسا گھر نظر آیا جو بہت پیارا اور چھوٹا ساتھا ،مجھے یہ گھر اِتنا بھایا کہ آو تاو کچھ نہ دیکھا اور اندر گھُس گیا ،قسمت سے گھر میں کوئی موجود نہ تھا ، ہم نے تصویریں لینا شروع کر دیں ۔ گھر کے اندر ہی چھوٹا سا امام باڑہ بھی تھا ، امام باڑے کی سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکا ،دو پل اِس گھر کی دہلیز پر چوکڑی ماری، ایک نظر پورے درو دیوار پر پھیری، جیسے اپنا گھر چھوڑ کے جانے والا ہوں ،اور اُٹھ لیا ۔ یقین جانیے اِس گھر کی دہلیز چھوڑنے کو جی نہ چاہتا تھا ،باہر نکلا تو دل بجھا بجھا سا تھا ۔ اِس عرصے میں کوئی شخص بھی وہاں نہ آیا ،البتہ پہلو کے شفاف نالے کے کنارے ایک بھلی مانس خاتون بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی ،جس نے ایک نظر پھر کر بھی ہمیں نہ دیکھا کہ کیا کر رہے ہیں ، حقا وہ گھر اُسی خاتون کا تھا ۔ دراصل ثقافت اور کلچر یہاں کا ہم باہر والوں کو سمجھ نہ آئے تو اور بات ہے لیکن لوگوں میں مانوسیت کا عُنصر بہت ہے ۔چوری کا ڈر کسی کو نہیں ،اکثر گھر بے تالے اور رکھوالی کے ہیں ، عورتیں پردہ وردہ کچھ نہیں کرتیں اور نہ کسی سے ڈرتی ہیں اور نہ جھجھکتی ہیں ، جبر اِن عورتوں پر صفر ہے اور گھر بار میں یہ حاکم ہیں ، تعلیم سو فیصد ہے ،لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی ۔ خریدو فروخت ، اور چولہا روٹی خواتین ہی کرتی ہیں ،مردوں کا کام کیا ہے ، اگر کچھ ہے تو باہر کا ۔ خریدو فروخت میں زیادہ بھاو تاو نہیں کیا جاتا ، چنانچہ دوکانداروں کے ہاتھوں لٹنے لٹانے کا زیادہ اندیشہ بھی نہیں ، نہ یہ لوگ اجنبیوں اور مسافروں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھتے ہیں ۔ معمول کے مطابق چلتے پھتے نظر آتے ہیں ،فساد وساد کچھ نہیں ہوتا ، اس لیے ہمارے پٹھان بھائی وہاں جلد بور ہو جاتے ہیں اور پشاور لوٹ آتے ہیں ، یہ بات اُن دونوں کے حق میں بہتر ہے ورنہ یہاں کی رونقیں ہوا ہونے کا اندیشہ ہو جائے ۔ اسٹبلشمنٹ تو یہی چاہتی ہے مگر پٹھان بھائی بلتستان کی بلندی تک جاتے جاتے ہانپ جاتے ہیں ، ہاں مگر بغیر کسٹم کی کاریں وغیرہ بیچ کر لوٹ آتے ہیں، جیسا کہ اُن کا کام ہے ۔ بعض خواتین کو میں نے اپنے رشتے کے مردوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی پایا ہے ۔ گلیوں میں بھی اکثر نظر آتی ہیں اور کچھ روک ٹوک نہیں ہے ، حقوق اِن کے پاس کچھ پنجابی عورت سے بھی سِوا ہیں ،اور بلوچی اور پٹھان عورت تو بچاری اِن کے مقابلے میں کسی دوزخ کی مکین ہے وراثت کے حقوق بھی شیعہ فقہ کے مطابق ہیں یعنی عورت کو پورے پورے ملتے ہیں ۔ لڑکوں بالوں میں ہم نے زیادہ لچر پن نہیں دیکھا ،سب سکول جاتے ہیں اور امام بارگاہ بھی جاتے ہیں پولو کا یہاں ذکر ہر کوئی کرتا ہے اور گراونڈ بھی بنا رکھے ہیں ،شگر کا گراونڈ البتہ اب پولو کے قابل نہیں تھا ،غالباً اب وہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے ،البتہ سکردو کے پولو گراونڈ میں ضرور پولو ہی کھیلی جاتی ہے ۔ گھر سے نکل کر پھر گلیوں گلیوں ہو گئے اور شہر کے بازار میں نکل آئے ۔ بازار بہت چوڑاتھا، سُرخ پتھروں سے پرویا ہوا اور دو رویہ تھا ۔ ہزاروں سال پرانے چناروں کی چھاوں ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلی جاتی تھی اور بہت بھاتی تھی ۔ کہیں کہیں لالٹینیں لٹکی تھیں ۔ چنار کے پتوں کے علاوہ اِس بازار میں کسی گندگی کا نام نہ تھا ۔ہمیں احساس ہوا کہ یہ بازار الف لیلہ کے بغداد کا ہے اور سکوت اِن دنوں یہاں شہر زاد کا ہے اور باسی یہاں کے کسی جادو کے اثر میں کھوئے ہیں اور ابھی تک سوئے ہیں ۔ بیشتر دوکانیں بند تھیں ۔ یہ بازار بالکل خالی تو نہ تھا مگر کھُلا بھی نہ تھا ۔ گاہے گاہے آدمی زاد سراوں کی چوکیوں پر بیٹھے تھے ۔ ہم یہاں سے گزرے تو ضرور مگر الہٰ دین کے چراغ چرا لائے ، جس کی روشنی میں بیٹھے آج افسانے سُنا رہے ہیں ۔اِ س بازار کے چوک میں ایک امام بارگاہ ہے، جسے خانقاہِ معلیٰ کہتے ہیں ۔ یہ امام بارگاہ بہت بڑی ، سات سو سال پُرانی اور تمام کی تمام لکڑی سے بنائی گئی ہے ۔ لکڑی کے بڑے بڑے ستون ہیں، جو پچاس فٹ تک اونچے ہیں اور اُن پر لکڑی ہی کی چھت ہے ۔ باقی دیواریں بھی لکڑی ہی کی ہیں ۔دروازے ، دیواریں ، چھت کے شہتیر اور آنکڑے ،سب کچھ نہایت پُرشکوہ ہیں ۔ یہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ نوربخشی شیعہ ہے ،یہ اُنھی کے قبضے میں ہے ۔مگر اثنا عشری بھی یہیں نماز پڑھ لیتے ہیں ،کچھ روک ٹوک نہیں ، اثنا عشریوں نے اپنی ایک الگ امام بارگاہ بھی بنائی ہے لیکن وہ بہت نئی ہے ۔ ہمارا دوست اور شاگرد لیاقت شگری بھی نور بخشی شیعہ ہے ۔ چائے وائے کچھ نہیں پیتا ،اِن کے ہاں اِسے نشہ سمجھا جاتا ہے ، اِس نوربخشیوں کی امام بارگاہ یعنی خانقاہِ معلیٰ کے صحن میں بھی دو چنار کے درخت ہیں اور کم سے کم ہزار سال پُرانے تو ضرور ہوں گے ۔ یہ درخت بھی اس خانقاہ کی آبرو میں بہت اضافہ کرتے ہیں ۔ہم امام بارگاہ کے اندر گئے ، عَلَم کو سلام کیا ، دروازے کے زنجیر پکڑ کر کچھ منتیں مانیں ،جو لگتا ہے اِسی مہینے پوری ہو جائیں گی اور باہر نکل آئے ۔ دن کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا اور ہمیں ایک فکر لاحق ہونا شروع ہو گئی ،یعنی اچانک ہمیں یاد آیا کہ آج تو سکردو میں ہمارے دلنواز شاعر دوست عارف سہاب اور ذیشان مہدی نے ہمارے اعزاز میں شام پانچ بجے ایک نشست رکھی ہوئی ہے جس میں شرکت کرنا لازمی ہے اور نہ کرنا گستاخی ہے اور دوستوں کی گستاخی ہمیں گوارا نہیں مگر اِدھر شگر سے باہر نکلنے کے تصور سے جگر چھلنی ہوا جاتا تھا ۔ فی الحال ہم نے نشست کے بارے میں سوچنا بند کیا اور آگے چلے اور پہنچے ایک اور گلی میں ،جس طرف درختوں کی ٹولیاں بہت تھیں اور پھلوں کے باغوں کی جھولیاں بھری ہوئی تھیں ۔ چلتے چلتے لیاقت ہمیں اپنے گھر لے گیا ۔ بس میاں کیا بتائیں ،باغیچے تو خیر یہاں ہر گھر میں لازم ہیں مگر لیاقت شگر کے گھر میں تو باغ تھے آڑوکے ،سیب کے ،خوبانی کے ، آلو بخارے کے اور انگور کے اور چیری کے ۔ درخت ہی درخت تھے ۔ اُس نے ہمیں اُسی باغ میں گھسا دیا اور کہا لو خود توڑ توڑ کھائے جاو ،کہ اِس میں مزا زیادہ آتا ہے اور دہن کی شرینی بڑھتی ہے ۔ ہم کھاتے رہے کھاتے ہے اور شرم ذرا نہ کھائی ۔ اتنے میں لیاقت نے بتایا کہ چائے تیار ہو چکی ہے اور اب چائے پی لیجیے ، ہمیں شرمندگی ہوئی کہ بچارا ہمارے لیے اپنے عقیدے کی مت مار رہا ہے ۔ خیر باغ سے نکلے اور کمرے میں جا بیٹھے ، یہاں ہر جگہ فرشی نشست ہوتی ہے ، قالین اور تکیے بچھے ہوتے ہیں اور اُن پر بٹھا کر ہی مہمانوں کو اتنا کھلایا جاتا ہے کہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے بغیر اُٹھ نہیں پاتے ۔چائے کہ ساتھ انڈے تھے ، مٹھائی تھی اور بھی پتا نہیں کیا کیا تھا مگر یہ ہم کیوں کھاتے ، کیا اتنی دُور آلوبخارے ،چیری اور خوبانی کی بجائے مٹھائی کھانے گئے تھے ؟ چنانچہ چائے پی اور باقی سے معذرت کی ۔ اِتًے میں ساڑھے چار کی شام ہو چکی تھی اور ہمیں پھر زیشان اور سہاب کی فکر نے پکڑ لیا ،دل پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے اور لیاقت سے اجازت لی اور بیٹھے موٹر سائکل پر ۔
(جاری ہے )
علی اکبر اچھا سفر نامہ ہے ….جاری رکھو …