دانش مندروں کی تازہ دیوی،پاکستانی برانڈڈ جمہوریت

(وقاص احمد)

 

پاکستان میں کچھ سالوں سے سیاسی،سماجی اور معاشی مسائل کی کنجی جمہوریت کے تسلسل کو سمجھا جا رہا ہے.جمہوریت کے تسلسل کے اس بیانیہ سے نوے کی دہائی میں کوئی سیاسی پارٹی واقف تک نہ تھی.نئے وزیراعظم کے چناؤ سے اس کی حکومت کی معطلی تک اپوزیشن رہنما فوج کے جرنیلوں کو پکارتے اور دہائیاں دیتے نظر آتے تھے اور ملک کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مسلسل اپپلیں کرتے رہتے تھے.پھر پرویز مشرف نے حکومت سمبھالنے کے بعد جب دونوں مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کو اقتدار سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا تو دونوں پارٹیوں کے مشترکہ مفادات پر زد ان دونوں انتہاؤں کو قریب لانے کا سبب بنیں.کچھ تجزیہ نگار ان نزدیکیوں کو اپنی پرانی غلطیوں سے سبق سیکھنے سےبھی تعبیر کرتے ہیں.چناچہ بقول شخصے پرانی محاذ آرائیوں پر مٹی ڈال کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے اعلی ترین مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے میثاق جمہوریت ہوتا ہے.اور ماضی کی سیاست کو دفن کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے.
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ افتخار چودھری صاحب کا معاملہ منظر نامے پر پوری آب و تاب سے چمکتا ہے اور اسی واقعہ کی دھول سے جمہوریت کے تسلسل کا بیانیہ برآمد ہوتا ہے.ملک و قوم کے عدالتی نظام کے رکھوالے اپنے چیف کے تحفظ کے لئے میدان میں آ جاتے ہیں اور عوام کو جمہوری انقلاب کی گھٹی کالے کوٹ والوں کے ہاتھ سے چٹانے کی کوششوں کا آغاز ہوتا ہے.مشرف صاحب اقتدار سے الگ کر دیے جاتے ہیں.جمہوریت کے تسلسل کا راگ الاپتے کالے کوٹ ،سفید شروانیاں بگل بجاتے اسمبلیوں اور کورٹ رومز کے دالانوں میں براجمان ہو جاتے ہیں.جمہوریت کے تسلسل کی راگنی کا بول بالا دوچند ہو جاتا ہے.صبح،شام اینکر حضرات اور کالم نگار جمہوریت کے تسلسل سے برآمد ہونے والے خوش کن اثرات کا مثردہ قوم کو گاہے بگاہے سنانے لگتے ہیں.مشرف کی آمریت کو کالی رات اور ملک میں غیر فوجی حکومت کے قیام کو نئے سویرے سے تعبیر کیا جاتا ہے.کچھ عرصے بعد چیف صاحب کی بحالی کا سہانا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی فلاحی مملکت کے تمام اسباب پورے ہونے کے سبب ٹی وی پر بڑے دھوم دھڑکے سے ریاست کے ماں بن جانے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے.بدقسمتی سے ہمارے کچھ بھولے کیمونسٹ دوست بھی جھنڈے لہرا کر کامیابی کا جشن مناتے دکھائی دیتے ہیں.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت کا تسلسل ہے کیا بلا اور ایک دم سے کیسے ملک عزیز پر من و سلوا کی طرح نازل ہو گیا.
جمہوریت کے معروف معنی ہیں کہ جمہور کی رائے کے مطابق، جمہور کے مفاد کے لئے،جمہور کی حکومت.اب تجزیہ ہونا چاہیے کہ ہمارا موجودہ سسٹم کیا اس تعریف پر پورا اترتا ہے؟پاکستان کی کل آبادی کا پچانوے سے ننانوے فیصد حصّہ مزدوروں ،کسانوں اور پڑھی لکھی ورکنگ کلاس پر مشتمل ہے.جمہوریت کی تعریف کے مطابق ان طبقات کے نمائندے کسی بھی پارلیمانی جمہوری نظام میں سب سے زیادہ ہونے چاہیں.اسی تناسب سے آبادی کا ایک سے پانچ فیصد حصّہ سرمایہ داروں،جاگیر داروں اور قبائلی سرداروں پر مشتمل ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک کی ستر سالہ تاریخ میں نام نہاد جمہوری تسلسل کے چھوٹے یا بڑے ادوار میں کوئی ایک پارلیمنٹ ایسی نہیں بنی جہاں پاکستانی جمہور کے حقیقی نمائندے دس فیصد سیٹوں سے زیادہ پر براجمان ہو پائے ہوں.کیا جمہوریت میں مزدور ،کسان اور ورکنگ کلاس کا پارلیمانی نمائندہ کوئی سرمایہ دار یا جاگیر دار ہی ہو سکتا ہے یا ان کی نمائندگی اسی طبقے سے ہونی چاہیے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں.کیا بلی دودھ پہ محافظ بن سکتی ہے.جمہور جن طبقات کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں،کیا وہی طبقات جمہور کے حقوق کا تحفظ اور دیکھ بھال کر سکتے ہیں.
پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس موجودہ نظام میں کوئی ایسی راہ نکل سکتی ہے کہ یہ مظلوم طبقات الیکشن کے مسلسل عمل کے زریعے بقول کسی لبرل دانش ور کے سو دو سو سال کے خود بخود وقوع پذیر ہونے والے جادوئی ارتقائی عمل کے نتیجہ میں اپنے نمائندے پارلیمنٹ میں بھیجنے میں کامیاب ہوں یا پھر بلی کو دودھ کی حفاظت پر راضی کر لیں.مگر اس الیکشن کے عمل کی ساخت اور کارگزاری پر گہری نظر ڈالی جاۓ تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عمل پے در پے ایک تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونے کے باوجود کسی تبدیلی کی امید عبث ہے.ہمارے معاشرے کے اٹھتر فیصد لوگ پرائمری تعلیم بھی نہیں رکھتے اور صرف چھ سے آٹھ فیصد گریجویٹ ہیں.گریجویٹس کا جو معیار تعلیم ہے وہ اکثر گورنمنٹ ملازمتوں کے لئے ہونے والے ٹیسٹوں میں حصّہ لیتے امیدواران کے پر لطف جوابات سے اخذ کیا جا سکتا ہے.اب مسلہ یہ ہے کہ اس بنیادی تعلیم و ہنر سے محروم عوام کو پہلے مرحلے میں کم از کم رسمی تعلیم کے کسی عمل سے تو گزارنا ہی پڑے گا.اس رسمی تعلیم کے عمل کے بعد ہی ان کی شعوری تربیت کے حوالے سے فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ وہ ایک درست سیاسی نظام کی تشکیل کے حوالے سے صحیح فیصلہ جات لے سکیں.لیکن ہمارے ملک میں موجود سرمایہ دار اور جاگیر دار کبھی بھی نہیں چاہتے کہ عوام میں شعور پیدا ہو اور ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بنے.چناچہ وہ بنیادی تعلیم کے انفراسٹرکچر کو ہی نہیں پنپنے دیتے.نتیجتاً ایک دائرے کا سفر شروع ہو جاتا ہے.عوام کو بےشعور رکھ کے اپنی مرضی کے نتائج لئے جاتے ہیں اور یہ سسلہ جمہوریت کے تسلسل کے عنوان سے جاری ہے.
دوسرا پہلو یہ ہے کہ الیکشن کے عمل کو سرمائے کی فراہمی سے اس طرح نتھی کر دیا گیا ہے کہ کسی مزدور ،کسان یا پڑھی لکھی مڈل کلاس کا نمائندہ الیکشن میں حصّہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا.سرمایہ کی سیڑھی انتخابی عمل کا حصّہ بننے کی شرط اول ہے.تین سے پانچ کروڑ صوبائی اور پانچ سے سات کروڑ قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے کم سے کم لاگت ہے.کسی بڑی پارٹی کے ٹکٹ کا ہما سر پر بٹھانے کی فیس الگ ہے جو یقیناً اکثر سات ہندسوں پر مشتمل ہوتی ہے.اس عمل سے دولت کے جبر کی بنیاد پر من پسند امیدوار ہی میدان میں اتر پاتے ہیں.محروم طبقے سے حقیقی انتخاب کا حق چھین لیا جاتا ہے.مجبورا عوام کو اپنی دانست میں دو بڑی برائیوں میں سے نسبتاً ایک کم شدت کی برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے.
تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت محض سیاسی ڈھانچے کے لئے امیدواران کے انتخاب کے لئے ایک الیکشن کے عمل کا نام نہیں ہے.جمہوریت جمہور کی حکمرانی اور اس کے نتیجے میں عوام کی خوشحالی اور ترقی کے عملی مظاہرے کا نام ہے.جمہوریت کو صرف الیکشن کے مسلسل عمل کا مترادف ٹھہرا دینا ایک بہت بڑی مکاری اور دھوکہ دہی ہے.جمہوریت وہی ہے جہاں جمہور کی نمائندگی ہو تو عوام تک ترقی کے ثمرات پہنچیں.ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس ملک میں نو الیکشن منعقد ہوئے ہیں جن کے دوران گیارہ سو خاندانوں کے لوگ ہی شکلیں اور پارٹیاں بدل بدل کر ملک کے ایوانوں میں پہنچتے رہے ہیں اور اس عمل کا کوئی منطقی نتیجہ برآمد نہیں ہو پایا.
اس صورتحال میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کبھی عسکری اور کبھی سیاسی و انتظامی اسٹیبلشمنٹ ہی مسلط رہی ہے.فوجی اسٹیبلشمنٹ حقیقی جمہوریت کے نعرے میں بقا ڈھونڈتی رہی اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا جبکہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو ہر مسلے کی جڑ قرار دے کر عوام کو بے وقوف بنانے کے عمل کو جاری رکھا.
درحقیقت یہ دو سانڈوں کی مفادات کے لئے لڑائی تھی جس میں ہمیشہ عوام کا نقصان ہوا .استحصالی سسٹم اپنی سرمایہ دارانہ شکل میں اسی طرح مسلط رہا اور اس کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ سعی نہ کی گئی.
اس لئے اب اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے کو جو نسبتاً آزاد ذہن کا حامل ہے،ایک نئے لائحہ عمل کے حوالے سے سوچنا ہےکہ ان ذہنی بیڑیوں کو اتار کر کسی نئی سمت کا تعین کرے جو ہمارے ملک اور قوم کے مفاد کی ضمانت بنے.

About وقاص احمد 10 Articles
وقاص احمد پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کے امراض میں پوسٹ گریجوایشن کر رہے ہیں۔ خود کو پاکستانی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی اوسط مجموعی فہم کا نمائندہ خیال کرتے ہیں اور اسی حیثیت میں اظہار خیال کے قائل ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.