درختوں کا قتل اور فطرت کی تباہ کاری
(شیخ محمد ہاشم)
کراچی کے ماہ جلالی موسم میں بھی صبح بہارکی ٹھنڈک جسم کو چھوتی ہوئی دماغی شریانوں کے بند دریچوں کو کھول کر روح پرور تقویت بہم پہنچاتی تھی۔ بچپن میں صبح سویرے اُٹھنا گرچہ بہت ہی ناگوار گزرتا تھا لیکن اسکول جا تے ہوئے موسم بڑا بھلا لگتا تھا۔ جبکہ اسکول سے واپسی پر جسم کو جھلسا دینے والی گرمی دماغ کے دریچوں کی چولیں تک ہلا دیتی تھی۔ ایسے میں اسکول سے گھر پہنچنے تک، راستے میں کئی گھنے درخت اپنے پتوں کو ہلا ہلا کر ہمیں اپنے سائے میں کچھ دیر سستانے کاسندیسہ دیتے تھے، نجانے کیوں ہم میں ان کی حکم عدولی کی ہمت نہیں تھی۔ جب کہ اسکول کے ہمراہی گھر پہنچنے کی جلدی میں درختوں کے اس سندیسے کو سمجھ نہیں پاتے تھے یا پھر سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔
ہم درختوں کی ٹھنڈی چھایا کو جسم کے بیرونی حصوں اور روح کی گہرائیوں تک محسوس کیا کرتے تھے اور آوازیں دے دے کر ساتھیوں کو درختوں کی آغوش میں سمو جانے کی دعوت دیتے تھے، لیکن لگتا تھا کہ گھر پہنچنے کی جلدی میں ان کے پر نکل آئے ہیں۔ ہم تھے کہ ہمیں گھر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، لہک لہک کر اُچک اُچک کر ایک کے بعد دوسرے پھر تیسرے پھر چوتھے، پانچویں، چھٹے درخت کے نیچے بیٹھ جاتے اور جو راحت و سکون ہم اپنے بھیتر محسوس کرتے تھے اس کا ذکر الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ “ہم درخت کو اُس کے سائے میں لیٹنے والے مسافر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔”
دیر گئے گھر پہنچنے کی سزا ہمارے گھر کی دہلیز پر منتظر رہتی تھی۔ اماں کی شیرینی ڈانٹ، پھٹکار کا ہم نے کبھی اثر نہیں لیا۔”آوارہ ہوگیاہے۔ اسکول سے سیدھا گھر کیوں نہیں آتا ہے۔ کہاں آوارہ گردی کرتا رہتا ہے۔ تجھے احساس نہیں ہے، میں درپر کھڑی انتظار کرتی رہتی ہوں۔ سب گھر پہنچ جاتے ہیں، بس تو ہی نہیں ہوتا ہے۔ اب دیر سے آیا تو چھڑی توڑ دونگی تیرے جسم پر۔ سمجھ آئی”اماں روزانہ یہ ہی جملے دہرایا کرتی تھیں، اور جب ہم اپنا سر ان کی گود میں رکھ کر پاس پڑی چوکی پر لیٹ جایا کرتے تو اُن کی ڈانٹ ڈپٹ ایسے رُک جاتی تھی جیسے فریج کا کمپریسر شور مچاتے مچاتے اچانک آٹو پر رُک جاتا ہے۔
گو کہ اُس زمانے میں ہمارے گھر میں فریج نہیں تھا۔ ایک چار پائے والے میز نما دو بڑے بڑے سوراخوں پر گھر میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دو مٹکے رکھے ہوتے تھے۔ نیم کے درخت کے نیچے رکھے مٹکوں کے پانی کی ٹھنڈک اور اُس کا ذائقہ آج بھی یاد ہے۔نیم کادرخت۔ نا ہے اس میں شفا ہے۔ میٹھی نیم کی بنولی یا نِم کولی خون کو صاف کیا کرتی تھی، کسی بھی قسم کی الرجی یا پھوڑی، پھنسی نکلنے کی صورت میں نم کولی کھایا کرتے تھے اور شفا یابی حاصل کر لیا کرتے تھے۔
ملیر سعود آباد کا اسی گز کا مکان ہماری جائے پیدائش تھی۔ ہمارے محلے کے ہر گھر میں گھنے سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے، جس کا کنبہ کم افراد پر مشتمل تھا اس کے گھر میں اُتنے ہی زیادہ درخت تھے۔ ہمارے محلے کی ایک نانی ہوا کرتی تھیں اُن کا ایک ہی بیٹا تھا اُن کے گھر میں سب سے زیادہ درخت اور پودے تھے۔ امرود، پپیتا، آم، شہتوت اور جنگل جلیبی نانی پورے محلے کو بانٹا کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود محلے کے بچے نانی کے گھر کی پچھلی دیوار سے چڑھ کر پھلوں کی نقب زنی کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور نانی کی صلواتیں سنتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے۔ نانی تنگ آکر مادر ملت کا روپ دھار لیتں سفید ساڑھی کا پلو سر پر ڈال کر گلی کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر احتجاج کرتیں لیکن بے حسی کا عالم یہ تھا کہ شنوائی نہیں تھی۔
بھٹو صاحب کے دور تک ملیر” وادی ملیر” کہلاتا تھا۔یہ کراچی کا سب زیادہ سر سبز اور شاداب علاقہ تھا۔ تقریباً بارہ سال قبل سابقہ بھارتی جنتا پارٹی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے اپنے انٹرویو میں ملیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”تقسیم سے قبل ہم اور ہماری فیملی پکنک کے لیے ملیر کے باغات جایا کرتے تھے۔”
ماڈل کالونی ریلوے اسٹیشن سے ماٹا پان ریلوے اسٹیشن جاتے ہوئے ایک خوبصورت باغ تھا جہاں درخت ہی درخت دور سے نظر آتے تھے اُسے” ڈیری فارم” کہا جاتا تھا زمانہ طالب علمی میں ہم کتابیں اور چند کاپیاں لے کر کڑی دھوپ کے لحموں کو زائل کرنے ڈیری فارم کا رُخ کیا کرتے تھے۔
پڑھنا لکھنا تو ایک بہانا تھا گھر والوں کو تاثر دیا کرتے تھے کہ ہم پڑھاکو بچے ہیں اس لیے سکون سے پڑھنے ڈیری فارم جا نا چاہتے ہیں۔ والدین یا بڑے بھائی اجازت دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے تھے اور ہم ڈیری فارم میں درختوں کے ٹھنڈی آغوش میں کھیلتے کودتے، ٹیوب ویل کی دھار میں نہاتے گرمی کی شدت اور دو پہر کے سناٹے کو اپنے سے دور بھگاتے تھے۔
ماضی کی رُتوں اور گھنے سایے کے آنچل میں جو ساعتیں سعید ہم نے گزاری ہیں اُنھیں یاد کر کے آج بھی دل رنجور ہو جاتا ہے۔ زرد موسم کی خشک ٹہنیاں، کیاریوں میں پڑے پانی سے رنگ برنگے پرندوں کا پیاس بجھانا، سورج مکھی کے پھول کا سورج کی جانب سینہ تان کر کھڑا ہونا۔ بھولی بھالی چڑیاوں کا تنکا تنکا جوڑ کے سلیقہ دار گھونسلہ بنانا اور اپنی چہچہاہٹ سے محبتوں کو لٹانا، ڈیری فارم محبتوں کا مدرسہ تھا جہاں ہم اپنے طور پر تدریسی عمل کو رواں رکھتے تھے۔
سبب تنگی محبت کے دکھ کا نیا رنگ لیے جبر دل کے ہمراہ ملیر چھوڑ کر اسٹیل ٹاون منتقل ہونا پڑا تو کہتے ہیں کہ”جب اللہ مہربانی کرتا ہے تو موقع بے موقع نہیں دیکھتا “اسٹیل ٹاون میں داخل ہوتے ہی درختوں سے محبت نے ہمارے شایان شان سواگت کیا، درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطاروں اور پھولوں کی خوشبووں نے ہماری اُداسیوں کو اپنی مضبوط پناہ دے ڈالی اور ہمارے اندر کے خشک شجر کو سیراب کر دیا۔
گزشتہ دنوں طویل وقفے کے بعد ہم نے اپنی جنم بھومی (ملیر) میں چند دن انتہائی کٹھن کے گزارے۔ درخت اس طرح لا پتہ ہوئے جیسے یہاں بندے لا پتہ ہوتے ہیں، ملیر اس طرح نظر آیا کہ جیسے یہاں شجر لگانے کی ممانعت ہو بلکہ یہاں ہر شجر، شجر ممنوعہ ہو، سرد کمرے میں ماہ جلالی اور لوڈشیڈنگ نے جسم کو جھلسا کر رکھ دیا، گلیاں، کوچے اور گھر تنگ در تنگ و تاریک ہو گئے۔
وہ چہچہاتے رنگ برنگے محبتوں کے پیامی پرندے کہاں چلے گئے، باسی ملیر اُن کی رخصتی پر ماتم کناں کیوں نہیں ہوئے، فطرت کی تباہی پر شوربپا کیوں نہیں ہوا؟ دھول، مٹی، دھواں آسمانوں کی جانب پرواز کرتے نظر آئے۔ وہ چاہتوں کے مارے شناسا چہرے کہاں چلے گئے، کیا وہ بھی لہلہاتے درختوں اور رنگ برنگے پودوں و پرندوں کی طرح لا پتہ ہو گئے ہیں؟
نہیں، ہماری جائے پیدائش کی فطرتی تباہ کاری کا تعفن وہ سونگھ چکے تھے،اُن کے گھر کے آنگن میں سورج ہوا کا قاصد بن گیا تھا۔ انھوں نے رخت سفر باندھ لیا تھا، کچھ فطرت کی تلاش میں، کچھ اپنایت کی تلاش میں اور کچھ سکوں کی جھنکار کی تلاش میں۔ بیگانی سی لگ رہی ہے ہماری جائے پیدائش جہاں ہم نے بچپن کے سہانے دن گزارے تھے۔
سن لو! اے فطرت کے بیوپاریوں، دولت کی خاطر محبت کی وادیوں کو اُجاڑنے والو، شاخ شاخ شجر کی جڑوں کو کاٹنے والو، چرند پرند کے سلیقے سے بنے گھونسلے اُجاڑنے والو۔ میری وادی کی ویرانی کل تمھارے گھر کو نہ کھا جائے۔یہ قدرت کے عطا کردہ اُن جانداروں کا نوحہ جو زبان تو نہیں رکھتے لیکن ہواوں کے ساتھ محبت کا درس دیتے ہیں۔ ان کا چند روپوں کے عوض قتل نہ کرو۔