(شیخ محمد ہاشم)
جب سماجی کارکنوں کو کام کرنے کی آزادی نہ ہو۔ جب اُن کو گلی کوچوں سے اُٹھا لیاجائے، اورانھیں ماورائے عدالت غائب کر دیا جائے۔ جب لبوں کو تالا لگا دینے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہو۔ جب علم وحکمت کے حامل دانشوروں کو دھول چاٹنی پڑے ۔ جب ذرائع ابلاغ کے قلم کاروں کے قلم کی سیاہی چاندی کی چکا چوند سے پھیکی پڑ جائیں۔ تو پھرمعاشرے کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو نے سے روکا نہیں جا سکتا۔ خیر خواہی کی کوئی سوچ نہیں پنپتی۔ عوام کی صورتحال اس کبوتر کی مانند ہو جاتی ہے، جو بلی کی آمد پر اپنی آنکھیں موند لیتی ہے۔ خودغرضانہ سماجی نظام نے انسان سے انسانیت کو چھین کر اس کی شخصیت کو بر باد کر دیا ہے۔ یہ توڑ پھوڑ اُس وقت ہوتی ہے، جب معاشرہ دوہرے معیار کا شکار ہو جاتا ہے۔پس ماندگی کی علامت ہی دوہرے معیار کا نظام ہوتا ہے۔
تعلیمی نظام میں دوہرا معیار،صحت کے نظام میں دوہرا معیار،انصاف کے نظام میں دوہرا معیا،غرضیکہ اس پیارے ملک کو طبقاتی دوہرے نظام کے دلدل میں گردن تک دھنسا دیا گیا ہے۔
“آئین پاکستان نے آرٹیکل 25-A میں تعلیم کوحق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ ’’ ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مفت تعلیم دینے کا بندوبست کرے ۔جیسا کہ تعلیم کے حق کے سلسلے میں قانون کی شقوں میں درج ہے”۔
لیکن اس کے باوجود ستم ظریفی دیکھئے کہ کیسے غیر محسوس طریقے سے تعلیم کو بیوپا ریوں نے تجارت میں تبدیل کردیا ہے۔ دور حاضر میں بہتر تعلیم کا حصول، غریب اور امیر کا فرق اجاگر کرتا ہے۔ غریب کو شدت سے احساس دلاتا ہے، کہ تم غریب ہو تمھیں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ طویل بحث کرے بغیر ہم، آپ اور سب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ طبقاتی تعلیمی نظام کو روشناس کرنے کے مقاصد کیا ہیں اور آئینِ پاکستان کو توڑنے اور اس کی پامالی کی جسارت اور جرات کون کر سکتا ہے، کم از کم غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تو ایسا نہیں کر سکتے۔
“آئین پاکستان آرٹیکل 38 A کی ذیلی شق D کے مطابق ریاست پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے، کہ جنس،ذات،رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر عوام کو صاف اور صحت افزا پانی و ملاوٹ سے پاک خوراک مہیا کرنے کا بندوبست کرے۔ نیز عوام کو طبی سہولیات گھرکے دروازے تک بہم پہنچائے اور ان افراد کا خاص خیال رکھا جائے، جو معذوری یا بیماری کے باعث روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں”۔
قارئین حیران ہوںگے کہ میں کسی پرستان کے ریاست کی لغویات پر مبنی کہانی سنا رہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ یہ ہمارے ریاست کی ایک سبز کتاب میں درج ہے ۔
گو کہ موجودہ صورتحال میں تو یہ سبز کتاب یقیناً پرستان کی داستان لگتی ہے، اور افسوس صد افسوس اس سبز کتاب کی سیاہی بھی ماندپڑ چکی ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہوا ہر لفظ نقش بر آب کی مانند ہو چکا ہے، پانی کی ایک بوند اس کے نقش کو مٹانے کے لئے کافی ہے۔عوام کے صحت کے معاملات کو بھی طبقات میں تقسیم کر دیا گیاہے۔
ہسپتالوں میں غربت کی تذلیل ،تھر میں بچوں کی اموات،دوران زچگی خواتین اور شیر خوار بچوں کی اموات کا بڑھتا ہوا تناسب، آئین پاکستان کی سبز کتاب کے آرٹیکل(A-D)38کی پامالی، حکمرانوں کے لئے لحمہ فکریہ سے کم تو نہیں ۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حکمران ہو تے ہیں جو قانون کی بالا دستی کے لئے دُبلے ہو رہے ہوں ؟
یہاں توبے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم پاکستان خود برطانیہ میں اپنا بائی پاس کروا کر آئینِ پاکستان کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے عوام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ “بے وقوفوں عقل سے عاری لوگو! تم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے مفاد تو بیرونی آقاؤں سے جڑے ہوئے ہیں، اس لئے توہمیں اپنا علاج ڈالروں کے عوض اُن سے ہی کرانا ہوتا ہے، پھر ہم کیوں پاکستان میں ایسا ہسپتال قائم کریں، جہاں ہم اور ہمارے عوام کا بائی پاس یا علاج معالجہ ہو سکے۔ پاکستان کے عام افراد کی طویل فہرست ہے، جب ہمارا پیالہ بھر جائے گا اور وہ چھلکنے لگا تو ہی اُن کے واسطے کچھ کر سکیں گے ورنہ غریب عوام کا تو مر جانا ہی بہتر ہے۔
پاکستانی عوام بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے، ہر لمحہ، ہر لحظہ صرف امید کی آس میں جی رہے ہیں۔ اپنی لگائی آگ میں خود جُھلس رہے ہیں۔ پھر دہائی دیتے ہیں کہ “اے کاتبِ تقدیر چین سے جینا لکھ دے”
اُس پاک ذات کی امید کے بعد، اس کیڑے مکوڑے کی مانند جینے والی عوام کی امید کی ایک کرن اس ملک کی عدلیہ تھی۔ لیکن المیہ یہ ہے اس ملک کا انصاف بھی طبقات کی دہلیز پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس ملک میں جیلیں بھری پڑی ہیں ،لیکن صرف غریب افراد سے۔ گنہگار ہو یابے گناہ انصاف کی دہلیز پر انصاف کی آس میں منتظر اپنی مایوس اورسسکتی زندگی سے بے زار نظر آرہاہے، کیونکہ اس کے پاس قدم قدم پر رشوت دینے کے لئے رقم نہیں ہے۔ پولیس کا ایک معمولی افسر کیس سے چھٹکارا دلانے کے لئے، فرعون جیسی طاقت لئے سامنے کھڑا ہے، وکیل کیس لڑنے کے لئے بھاری رقم طلب کرتا ہے ۔آئے دن مصیبتوں کے آفاتی پہاڑ ان کے مقدروں پر ٹوٹ کر گرتے ہیں تب ان کا واحد سہارا دعا ہی رہ جاتی ہے ۔
سبز کتاب میں تحت فرمان ہے کہ:”آئین پاکستان آرٹیکل 25(1)کے تحت تمام افراد قانون کے سامنے مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں اور مساویانہ قانونی تحفظ کے حق دار ہیں “۔
لیکن اس کے بر عکس مساویانہ حیثیت یہ ہے کہ ایک امیر و کبیر شاہ رُخ جتوئی قتل کر کے رہا ہو جاتا ہے اور باآسانی ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔مصطفی کانجو کو بھی یہ قوم نہیں بھولی ہو گی۔ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے مابین تکرار کا کیس بھی یاد ہوگا۔ ریمنڈ ڈیوس دو بھائیوں کو قتل کرتا ہے اور اپنے ملک کو کوچ کر جاتا ہے۔ایان علی غیر ملکی کرنسی لے جاتے ہوئے پکڑی جاتی ہیں لیکن ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے ،بے کس و مجبور عوام کو منہ چڑانے کے لیے میڈیا پر جلوہ افروز ہوتی رہتی ہے۔پاکستان اسٹیل جیسے قیمتی اثاثے کو زبو ں حالی تک پہنچانے اور بند کر دینے تک کے ذمہ دار،اب بھی مراعات یافتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں ،ملازمین اپنی تنخواہ اور مراعات کی بحالی کے لیے عدالتوں کی غلام گردشوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین واجبات کی حصولی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ،اسٹیل مل کی حالت زار وبے بسی کا جن اداروں نے نو ٹس لینا ہے ،وہ بھی غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
کیا یہ مساویانہ سلوک ہے ؟ اگر غیر مساویانہ عدل و انصاف کی داستان لکھنے بیٹھیں تو کتابوں کے انبار لگ جائیں گے۔ سیکیورٹی ادارے قانون کے رکھوالے تو کہلاتے ہیں، لیکن خود قانون شکنی میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ سبز کتاب کے محا فظ بھی اپنی نوکری محفوظ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور پاکستانی غریب و نصیب خفتہ عام افراد کے لب پہ یہ دعا تمنا بن کر آتی ہے کہ:َ
“اب کے جنم موہے غریب نہ کریو، اگر غریب کریو، تو پاکستانی نہ کریو”