(منزّہ احتشام گوندل)
یہ پہلی دفعہ تھا کہ میں پاؤں پٹختی ہوئی اٹھی تھی،ورنہ کبھی کسی بحث میں والد صاحب کے ساتھ اختلاف کا یارا نہ تھا۔وہ آج سے ایک صدی قبل کی تہذیب کے وکیل تھے اور میں آج کی تہذیب کی وکیل تھی۔وہ کچی مٹی کی دیواروں اور سرکنڈوں سے بنی چھتوں والے گھروں کےوکیل تھے اور میں سریے اور لینٹر کی عمارتوں کی،ان کا خیال تھا کہ مٹی کی ہانڈی،چاٹی،جمونی،گھڑا،اور کورے پیالے حیات بخش ہوا کرتےتھے،اور میرا خیال تھا کہ اب شیشہ،پتھر،بون چائنہ کے برتنوں کی نفاست اور نزاکت دیکھنے والی ہے۔تب لوگ پندرہ کلومیٹر دور کے گاؤں جاتے تھے تو رات وہاں گزارتے تھے ،اب لوگ ایک دن میں دبئی سے ہوکے لاہور واپس آ جاتے ہیں۔تب شادیوں پہ گھر میں پلا کوئی کٹا یا ویہڑکا ذبح کرکے ساتھ سوجی کا حلوہ اور لوہ پہ پکی روٹیاں ضیافت کی بڑی شان تھی،اب سترہ قسم کے کھانے ہیں۔اور کئی طرز کے سلاد کھانے کو میسر ہیں۔تب علاج کو حکیم تھے اور ان کی معجونیں،جوشاندے اور خیساندے تھے،آج بڑے بڑے شاندار سرجن اور فزیشن ہیں۔ تب مسئلے ہی مسئلے تھے،آج کے انسان کو کیا مسئلہ ہے؟تمہیں تمہارے عالیشان ہسپتال اور قابل ترین ڈاکٹر مبارک ہوں اور ساتھ ہی کینسر، ہارٹ اٹیک،ایڈز،اور ڈیپریشن بھی،انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی۔تب ابو جی!!! طاعون…….طاعون سے بچی ہوئی قوم کو خود کش دھماکے، ڈینگی،اور ایٹم بم مبارک ہوں،بخشو بی بلی۔۔تب مجھے لگا میں جیت گئی ہوں۔
انہوں نے کہا وہ شاندار لوگ تھے،میں نے کہا ہم شاندار لوگ ہیں۔مگر میری یہ جیت اب ہار میں بدل گئی ہے۔ان کے پاس کچے گھر تھے،صحن نہیں ہوتا تھا۔بیت الخلاء کے لیے کھیت تھے۔کہیں کوئی ایک آدھ نلکا ہوا کرتا تھا جس پہ آدھی آبادی اپنی طہارت قائم کرتی تھی۔پورے گاؤں میں ایک شادی کا جوڑا ہوتا تھا جسے ہر دلہن پہنتی تھی۔سارا دن لڑکیاں باہر کھیتوں میں کام کرتی اور گھومتی تھیں۔پھر بھی عزتیں محفوظ تھیں،کبھی کوئی ریپ نہیں ہوتا تھا،کوئی معصوم لڑکی نہیں کچلی جاتی تھی،شرم و حیا قائم تھی،شادی اور شوہریا بیوی کے تصور کے ساتھ رومانس قائم تھا،خود کو اس اہم کام کے لیے محفوظ رکھنے کا اخلاق تھا۔سب کھلم کھلا تھا،کوئی پرائیویسی نہیں تھی،کچھ ڈھکا چھپا نہ تھا پھر بھی پردے قائم تھے،بھرم قائم تھے،قدریں قائم تھیں،رشتے قائم تھے۔کوئی ڈر اور کوئی خوف نہیں تھا۔
اور اب ہر دوسرے سیمنٹ،سریے اور لنٹر سے بنے گھر کے اوپر گول چھت ہے کہ ایک کچن میں پکتے کھانے کی خوشبو بھی ساتھ والی دیوار کو نہیں پھلانگ سکتی،کوئی سانپ بھی رینگتا ہوا اندر داخل نہیں ہو سکتا ،پھر بھی ڈاکے اور چوری کا ڈر ہے۔ہر بیڈ روم کے ساتھ اٹیچڈ واش روم ہے،عزت پھر بھی محفوظ نہیں،کل کی بھاگ بھری سر عام کھیتوں میں چوکڑیاں بھرتی تھی مگر کسی سمارٹ فون کا کیمرہ موجود نہ تھا کہ اس کی ویڈیو
بناتا یا فوٹو بناتا،اور فیس بک یا انسٹاگرام پہ اپ لوڈ کر سکتا۔تب چند نظریں ہی ہوتی تھیں دیکھنے والی۔آج کی پری وش کا اپنا کمرہ ہے،اسی کے اندر بیت الخلاء بھی ہے،مگر عزت داؤ پہ لگی ہے۔کچھ پتا نہیں کوئی کسی جدید ترین ایپلیکیشن کے ساتھ بیٹھا اس کی برہنہ ویڈیو بنا رہا ہو،اس کی تصویریں اتار رہا ہو۔تب لوگ کنویں اور بغیر چھت کے غسل خانوں میں نہا کے بھی محفوظ تھے کہ کسی گوگل ارتھ کی آنکھ ان کی نگرانی نہ کرتی تھی۔آج لڑکی چہرہ ڈھانپے بنا گھر سے نکلتی ہے تو اگلے دن اس کی فلم چار دانگ عالم میں گردش کررہی ہوتی ہے۔میں بہت غلطی پر تھی جس نے کہا کہ ہم شاندار ہیں۔ہم پوری طرح ملبوس ہوکے بھی ننگے ہیں۔ہم ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے برہنہ کھڑے ہیں۔ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جنہیں کفن میسر نہیں،روزدھماکوں میں جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں،لہو اگلتی بوٹیوں کی ڈھیری ایک قبر میں ڈال کے ہم روزاپنے عزیز دفنا رہے ہیں۔کچھ پتا بھی نہیں چلتا کہاں کہاں کی بوٹیاں اور کس کس کے اعضاء مکس ہو گئے ہیں۔
آج جن کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کے کھانا کھانا ہمیں گوارا نہیں ،کچھ معلوم نہیں کل کو اسی کا گردہ ہمارے پھیپڑے کے ساتھ مکس ہو جائے۔کیسے شاندار لوگ ہیں ہم کہ ہمارے پاس ہوائی جہازہیں،ایٹم بم ہیں،جدید ترین کاریں اور ٹرینیں ہیں،اڑتالیس گھنٹوں میں ہم زمین کے گولے کے گرد پھر جاتے ہیں مگر دلوں کے فاصلے ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں۔کوئی تیز ترین کار،جہاز یا ٹرین بھی ان فاصلوں کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔آج میں سوچ رہی ہوں یہ مذہب کی شدت پسندی ،یہ تہذیب کا فاصلہ ،یہ تنہائی،یہ بے یقینی اور خوف،سرمایے اور ٹیکنالوجی نے ہمیں یہ دیا ہے۔وہ لوگ کتنے فائدے میں تھے جو کھلے صحنوں میں ہونے کے باوجود محفوط تھے۔جو ننگے ہو کے بھی باپردہ تھے۔جو بے خوف تھے۔جن کے مرنے کے بعد جن کی میتیں سلامت تھیں۔
جواچار اور لسی کے ساتھ خشک روٹی کھا کے بھی مطمئن سوتے تھے۔ہمارے تالو جدید ترین ذائقوں سے آشنا ہیں مگر پیٹ پھولے ہوئے ہیں۔ہمارے اعصاب پہ ہر وقت ٹینشن سوار ہے،ہم نامطمئن اور نا آسودہ لوگ ہیں۔علماء کی بہتات ہے مگر روحیں پژمردہ ہیں۔ہسپتالوں کی افراط ہے مگر جسم بیمار ہیں۔جامعات اور کتب خانوں کی کمی نہیں مگر دماغ اندھیرے میں ہیں۔میں نے تو سوچ لیا ہے۔میں اپنے حصے کا کام کرنے لگی ہوں۔میرے پاس سات سو طالبات ہیں،مجھے ان کی ایسی تربیت کرنی ہے کہ ان میں سے ساری نہ سہی تو کم از کم آدھی ایسی مائیں بنیں جن کی گودوں میں دہشت گرد پرورش نہ پائیں،مجھے ان کی ایسی کردار سازی کرنی ہے کہ انتہا پسندی ختم ہوجائے،چاہے وہ مذہب کی ہو یا مذہب سے نفرت کی،انتہا پسندی کو ہر صورت ختم کرنا ہے۔مجھے انہیں سادہ اور سلیس زندگی کا جوہر سکھانا ہے تا کہ لالچ کا لیول نیچے آئے،جب لالچ کم ہوگا تو مسابقت بھی کم ہوگی اور انتہا پسندی کا گراف بھی نیچے گرے گا۔میں نے تو سوچ لیا ہے اور آج سے اس کا آغاز بھی کردیا ہے۔ اگر آپ کو لگے کہ میں ترقی پسند سے رجعت پسند ہوگئی ہوں تو کوئی بات نہیں۔ یہ تو صرف دو لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ مگر میں جو کرنے جا رہی ہوں وہ دو تہذیبوں کا ادل بدل ہے۔اور یہ اب ضروری ہو گیا ہے۔