(عثمان سہیل)
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں رکن قومی اسمبلی جناب رانا افضل نے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے پش اپس لگانے پر اعتراض فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ کھلاڑی جیت کر تو پش اپس لگاتے ہیں لیکن ہارنے پر کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ پش اپس لگا کر کس کو پیغام دے رہے ہیں۔
معزز رکن قومی اسمبلی کے اظہار تشویش پر کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین جناب نجم سیٹھی جو خود بھی ایک ثقہ دانشور ہیں۔ آپ موصوف نے کہا کہ کھلاڑیوں کو فی الفور اس جمہوریت کش حرکت کے آئندہ ارتکاب سے روک دیا گیا ہے۔
میں توقع کرتا ہوں کہ اس خامہ ہذیاں رقم کی طرح دیگر عوام الناس بھی معزز رکن کے ذہن رسا کے ساتھ ساتھ جناب نجم سیٹھی کی پیش بینی پر مبنی حکمت عملی اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی بھی نہ صرف کماحقہ داد دیں گے بلکہ خراج تحسین بھی پیش کریں گے۔ آئیے ہم سب مل کر اس مضموم سازش پر نہ صرف پارلیمنٹ میں متفقہ قرار داد کا مطالبہ کریں بلکہ مصباح الحق سمیت تمام ٹیم پر مملکت خداد داد کے آئین کی شق چھ کے تحت مخفی باغی عناصر کو اکسانے پر مقدمہ بھی چلایا جائے۔
اس ضمن میں راقم کی رائے میں جسے وہ حقیر نہ کہنے پر مصر ہے، سابقہ کپتان حضرات کو بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس معاملہ پر ہمارے روشن خیال اور جمہوری روایت پر یقین رکھنے والے مذہبی دانشور ایک ہی صفحہ پر پائے جائیں گے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ازبسکہ کرکٹ سے کپتان خان کا نام بھی جڑا ہوا ہے سو ‘باورچی خانہ کابینہ (کچن کیبنٹ) کے ایک اجلاس میں کھیل پر مستقل پابندی کی تجویز بھی زیر غور آئی۔ لیکن سوال پیدا ہوا کہ پھر نجم سیٹھی کیا کریں گے۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق جب تک وزیر اعظم ان کو کسی اور ‘ آہرے’ یعنی مفید کام کے دھیان لگانے کا نہیں سوچ لیتے تب تک کھیل پر پابندی کا فیصلہ مؤخرکر دیا گیا ہے۔
صحافتی و غیر صحافی ذرائع کا بیان تو یہیں تک تھا۔ تاہم معزز رکن کے اس از قسم مابعد جدیدیت کے پائیدان پر کھڑے استدلال کو مزید آگے بڑھایا جائے تو خوشی و غمی کے دیگر مواقع پر اظہار جذبات کے مروج طریقوں پر بھی کئی اعتراضات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ بارات کے موقع پر ڈھول بجائے جانے پر کہا جاسکتا ہے کہ مرگ پر ڈھول کیوں نہیں بجایا جاتا۔ یا یہ کہ مرگ پر افسوس کرتے ہیں تو بارات پر افسوس کیوں نہی کرتے جبکہ ہمارے سماج میں اکثر شادیاں دولہا یا دولہن اور بسا اوقات دونوں کے جذبات کا خون بہا کر کی جاتی ہیں۔ امتحان میں کامیابی پر سٹوڈنٹ کو مبارکباد دی جاتی ہے تو فیل ہونے پر ‘پھینٹی’ کیوں لگاتے ہیں۔ یا یہ کہ فیل پر سٹوڈنٹ کی پٹائی کی جاتی ہے تو پاس ہونے پر کیوں نہی پیٹتے۔ نیز جمہوری بساط الٹنے پرآخر شیرینی ہی کیوں، سفید چنوں والے چاول بھی تو بانٹے جا سکتے ہیں، الخ۔
ان تمام معاملات پر سوچ بچار کے لیے جناب نجم سیٹھی کی زیرکی، ذہانت و طباعی سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی سربراہی میں ایک عدد یک رکنی تھنک ٹینک قائم کیا جانا چاہئے۔ امید ہے قومی اہمیت کے اس پراجیکٹ پر اٹھنے والے اخراجات کو ہمارے ایوارڈ یافتہ (مبینہ) وزیر خزابہ بجٹ کی متفرق مد میں جذب کرنی کی منظوری دے دیں گے۔
پس تحریر: تھنک ٹینک کی اصطلاح پڑھتے وقت گولے پھینکنے والے ٹینک کے بجائے ڈیزل والا ٹینک مد نظر رکھا جائے۔
______________________________________
باعث تحریر آنکہ اس تحریر کے لکھاری، جناب عثمان سہیل پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انہیں حالات جاریہ و ساریہ سے کچھ علاقہ نہیں، بلکہ جس علاقے میں (کھاریاں) انہوں نے جنم لیا وہ متحدہ ہندوستان کے وقتوں سے ایسے خطے کا نقطئہ آغاز رہی ہے جو کثیر تعداد میں محبان وطن پیدا کرتا آیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی خطئہ پنجاب سے دریائے جہلم کا پل پار کرنے کے بعد کسی بھی انسان کے محب وطن ہونے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ فی دستورآپ بھی ہیں۔ اس جغرافیائی رعایت سے سیاسی ہمدردیاں بھی رکھتے ہیں۔ بہت اعلی پائے کی طنز لکھتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سروسز بک کلب کی شائع شدہ سب کتابیں زیر مطالعہ رکھی ہیں۔ یہ ایک روزن کے لئے ان کی پہلی تحریر ہے اور طنزیہ آہنگ میں ہے، لہذا سنجیدہ لینے کی ذمہ داری خالصتا قاری کی اپنی ہوگی۔
مدیر