(تنویر احمد ملک)
تقسیم ہند سے پہلے لاہور میڈیکل کالج کے پرنسپل کرنل سدر لینڈ نے ایک بار میڈیکل کالج کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،’’ہندوستان عجیب ملک ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے منھ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے جہاں کہ جسم کی پرورش کے لئے غذا داخل کی جاتی ہے اور یہ مقعد کے متعلق بہت محتاط ہیں کہ جہاں سے غذا فضلہ بن کر نکلتی ہے۔” ہم پاکستانی بھی بہت عجیب ہیں کہ پہلے خود بلاؤں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اور پھر رد بلا کے لئے وظائف، تعویز، دوا سے لے کر رد الفساد جیسے فوجی آپریشن کر ڈالتے ہیں۔
رد الفساد نامی آپریشن اس بلا کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لئے شروع کیا گیا ہے جو خیبر سے کراچی تک زبان سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے انگارے اگلتی پھر رہی ہے۔ اب ان انگاروں پر چلتے ہوئے ہمارے پاؤں میں چھالے پڑ رہے ہیں تو یہ کچھ عجب نہیں کہ اس نوع کی مہم جوئی ایسے ہی آزار و مصائب کا بندوبست اپنے اندر کئے ہوتی ہے۔رد الفساد آپریشن جس بلا کو دفع دور کرنے کے لئے ہمارے سیاسی و فوجی بزرجمہروں کے نخل فکر پر پھوٹا ہے وہ عشروں بعد اس فساد کے خاتمے کے لئے ہے جس کی دعوت ہم نے بڑے تزک و احتشام نے پوری دنیا سے مجاہدین کو اپنے ہاں قیام کے لئے دی تھی۔
اگر یاداشت کام کرے تو اس دعوت الفساد کو یاد کیجئے گا جس کی طرح اس وقت کے امیر المومنین نے ڈالی تھی۔ اس دعوت کے دیتے ہوئے جوق در جوق مجاہدین اس پاک سر زمین پر جس طرح وارد ہوئے تھے اس طرح تو چیونٹیاں بھی میٹھے کی طرح نہیں لپکتیں۔ ہم نے اس دعوت الفسا د کے نتیجے میں جو فصل کاٹی وہ اس اجڑے چمن سے عیاں ہے جس میں ایستادہ ٹنڈ منڈ اشجار اس کی گواہی ہیں کہ تحمل، رواداری، بر داشت او ر پر امن بقائے با ہمی کے برگ و بار کب کے جھڑ چکے۔ اب تو اس چمن میں چار سو دہشت، و حشت، انتہا پسندی، جنونیت اور لاقانونیت کے ایسے خار بکھرے ہیں کہ جس پر گھسیٹ گھسیٹ پر اپنے وجود کو آگے لے جانے کی کوشش میں پاکستانی سماج زخموں سے چور چور ہو چکا ہے۔
ہماری تقدیر کے سرخیلوں نے ہمیں یہ باور کرایا کہ یہ مجاہدین نہیں بلکہ ہمارے نجات دہندہ ہیں۔ ہمیں نے ان کے روپ میں قرون اولیٰ کے ان اساطیری کرداروں کی جھلک دکھلائی گئی جن کی تیغ کے سامنے بحر ظلمات جو ئے کم آب بن جاتے تھے۔ ہمارے گلی کوچوں میں گھومنے والے بے مہار گھومنے والوں کو ایسے سر فروش مجاہدوں کی صورت میں پیش کیا گیا کہ بس اب ان آمد کے ساتھ ہی اس نشاۃ ثانیہ کا احیاء ہونے کے ہے جس کے خواب دیکھتے دیکھتے پانچ صدیاں بیت گئی تھیں۔ان کے لئے یہ ملک ایسی چراگاہ قرار دے دیا گیا تھا کہ جس میں انہیں ہر جاہ منہ مارنے کی کھلی اجازت حاصل تھی۔
ہم نے فقط ان ’’سرفروشوں‘‘ کو ہی در آمد نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ان نظریات کو بھی اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جو کسی طور بر صغیر میں صدیوں میں پنپنے والی اس ثقافت سے لگا نہیں کھاتے تھے جس میں اسلامی عقائد مقامی بو دو باش اور رسوم و راج بھی ایسے گندھے گئے کہ برصغیر کا اسلام ایک الگ ثقافت کا علمبردار ٹھہرا جس میں صوفیاء کے درس محبت و آشتی اور تحمل و رواداری کے نگینے جڑے تھے۔ سخت گیر تکفیری نظریات نے جب اس ملک پر شب خون مارا تو پھر محراب و منبر سے لے کر مدارس و نصاب کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔
تکفیری سوچ ذہنوں کو مسموم کرنے لگی اور اسلام کا وہ آفاقی اور عالمگیر پیغام پس پشت چلا گیا کہ جس میں عقیدے کے معاملے میں جبر کی مذمت کی گئی تھی۔اب تکفیری ناگ چار سو پھن پھیلائے ہر اس ذی روح کو ڈس رہے تھے جو ان کے محدود و تنگ نظر عقیدے کا ہم خیال نہیں تھا۔اس تکفیری بلا کے سامنے سب سے بڑی مزاحمتی قوت بر صغیر میں مدفون ان سینکڑوں صوفیاء کرام کی فکر و نظریہ ہے جس میں مخلوق سے محبت کا درس ان کی تعلیمات کا محور و مرکز ہے۔
اس سوچ و فکر میں انسان سے عقیدے و نظریے پر نفرت شجر ممنوعہ ہے۔ یہ صوفیا ء کرام منوں مٹی تلے دفن ہو کر بھی اپنے فیض سے سماج کو مستفید کر رہے ہیں ا سلئے تو تکفیری بلا نے ان مزارات کو بھی اپنے نشانے پر رکھا۔ ایک دعوت الفساد کے ہلاکت خیز نتائج کو بھگتنے اور مستقبل میں اس کی ہلاکت خیزیوں سے بچنے کے لئے راہ راست، راہ نجات، شیر دل، ضرب عضب اور اب رد الفساد جیسے کئی آپریشن کرنے پر مجبور ہوئے تو خدا جانے کیونکر جون ایلیا یا د آئے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں