نوید نسیم
پھر اگست آیا اور پھر سے پاکستانیوں کی پاکستانیت اُمڈ اُمڈ کر نکلنے لگی۔ ٹی وی چینلز پر ہریالی چھانے لگی اور اشتہاری کمپنیوں نے بھی پرانی مصنوعات کو یومِ آزادی کا ہرا بھرا تڑکا لگا کر پیش کرنا شروع کردیا۔ وہ قومی نغمے جن کے گائیکوں کو گزرے زمانے بیت گئے، بجنے لگے اور قومی خزانے میں رکھے ایک نغمے کو نکال کر ون سوّانے گویوں سے پالش کروا کر (سوائے چند عظیم گلوکاروں کے) کوک سٹوڈیو کی چمکیلی پنّی میں لپیٹ کر پیش کردیا گیا۔
اچنبھے کی بات یہ ہے کہ 69 سالوں میں جب بھی جشنِ آزادی آتی ہے تو قومی جھنڈے کا سبز رنگ ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ مگر پاکستان کے جھنڈے میں صرف سبز رنگ تو نہیں بلکہ سفید رنگ بھی شامل ہے۔ جوکہ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مگر سفید رنگ کو پاکستان کی اقلیتوں کی طرح ہمیشہ ہی نظر انداز کیا جاتا ہے؟۔
ہر سال ماہِ اگست میں حاصل کی گئی آزادی کو یاد کرکے ان شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ جن کی قربانیوں سے یہ وطن حاصل ہوا۔ مگر بدقسمتی سے اقلیتوں کی اس ملک کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو بھلادیا جاتا ہے۔ کسی کسی انگریزی اخبار کی جانب سے اُن اقلیتی ہیروؤں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ مگر کبھی بھی جھنڈے میں شامل سفید رنگ کی طرح ان اقلیتی ہیروؤں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جوکہ سبز رنگ کو اور مسلم ہیروؤں کی ملتی ہے۔
دیگر دنوں کی طرح پورے ملک کے نام نہاد لبرلز پلٹ سیکولرز 11 اگست کو اقلیتوں کا دن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کو کی گئی تقریر کی یاد میں مناتے ہیں۔ جس میں قائد نے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا تھا۔
بدقسمتی سے قائد کی اس عظیم تقریر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور چند مفاد پرست افراد کے ٹولے کی طرف سے اس تقریر کی جو تشریح کی گئی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج جھنڈے میں اقلیتوں کی ترجمانی کرنے والے سفید رنگ میں صرف ڈنڈا ہی بچا ہے۔ جن اقلیتوں نے آزادی کے وقت پاکستان کو اپنا مسکن چُنا تھا۔ وہ موجودہ پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور چند اقلیتی گروہ تو بوریا بستر گول کرکے کسی دوسرے ملک کوچ کرگئے۔ آج جھنڈے کے سفید رنگ کو بالکل ویسے ہی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے اقلیتوں کو اس پاک سر زمین پر۔
اگر کسی بھی گھر، عمارت یا پھر گاڑی موٹرسائیکل پر لگے جھنڈے کو دیکھا جائے تو جھنڈے کے بائیں طرف سفید حصّے میں ڈنڈے کی مدد سے جھنڈا لگاہوتا ہے اور اسی ڈنڈے کے بل بوتے پورا جھنڈا لہرا رہا ہوتا ہے۔جس سے جھنڈے میں موجود سفید رنگ میں لگے ڈنڈے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مگر ہماری قوم، جھنڈے کو اونچا رکھنے کے لئے لمبے ڈنڈے کی اہمیت سے تو واقف ہے۔ مگر سفید رنگ کو صرف ڈنڈا لگانے کے قابل ہی سمجھتی ہے۔
پاکستانی جھنڈے کے بائیں طرف سفید رنگ ہونے کے علاوہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ سبز حصے کے عین وسط میں موجود چاند ستارا بھی سفید ہے۔ جوکہ دراصل پورے پاکستانی جھنڈے کی اصل شان ہے۔
جھنڈے کے سفید حصے کو نا سہی مگر اس سفید چاند ستارے کی خاطر ہی سہی ہمیں اقلیتوں کو ان کا جائز مقام دینا چاہیئے اور یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک اسلامی ریاست میں اقلیتوں کی حفاظت کرنا، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستانی جھنڈے کا سبز حصہ، سفید حصے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس لئے سبز رنگ کے ساتھ اقلیتوں کی ترجمانی کرنے والے سفید رنگ کی سالمیت کو یقینی بنانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
کسی بھی ملک کا جھنڈا اس قوم کی شان ہوتا ہے۔ چاہے اس میں کتنے ہی رنگ کیوں نا ہوں۔ عظیم قومیں ہمیشہ اپنی شان قائم رکھنے کے لئے جھنڈے کو ہمیشہ اونچا رکھتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم پاکستانی جھنڈے کو ہمیشہ سربلند رکھیں۔ جس کے لئے لازمی ہے کہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے سفید رنگ کو بھی (بذریعہ ڈنڈا ہی سہی) جھنڈے کے سبز حصّے کے ساتھ سربلند رکھیں۔ کیونکہ سفید رنگ کے جھکنے سے پورا پاکستانی جھنڈا جُھک جاتا ہے۔