(اصغر بشیر)
صحافت جدید دور کا سب سے کٹھن کام ہے۔ آج معلومات کثیر جہتی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبات کی حامل بھی ہوتی ہیں۔ ان جذبات کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے فرض شناس صحافی اپنی جان گنوا دیتے ہیں یا زندگی میں انہیں کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صحافت ہتھیار بن کر ملک کے لیے ہراول دستے کا کام کرتی ہے اور ایسی شکست دیتی ہے کہ دشمن اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ بات حیرت سے خالی نہیں کہ دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی شفاف و آزاد صحافت سے لطف اندوز ہو سکتی ہے۔ باقی میں سے ۴۲ فیصد آبادی مکمل معذور و پابند صحافت سے سامنا کرتی ہے۔ معذور صحافت کسی طور پر بھی اپنا فرض ادا نہیں کرسکتی بلکہ کسی نہ کسی طاقت ور کے ہاتھ میں کھلونا بنی رہتی ہے۔ ہمیں بطور صحافی آج خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی طاقت کا استعمال پورے اخلاص اور ایمانداری سےمعاشرے کی فلاح اور انسانی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں؟
پاکستان کی تاریخ نے وہ دن بھی دیکھے جب اخبار کی چھپائی سے چند لمحےقبل بوٹوں والے آتے اور اپنی سٹک سے ٹک ٹک کر کے نشان لگا دیتےکہ وہ خبریں ملکی سلامتی کے باعث اشاعت کے قابل نہیں ہیں اور ان خبروں کی بجائے سیاہی اخبار کے قارئین کو منہ چڑاتی۔وہ دور ختم تو نہیں ہوا لیکن کم ضرور ہو گیا ہے۔آج میڈیا اگر چہ پابند سلاسل نہیں ہےلیکن پھر بھی سنسر شپ ایک خاص طور سے چل رہی ہے۔آج بھی میڈیا ہاؤس خاص نقطہ نظر کے پرچارک نظرآتے ہیں۔ آج بلوچستان پر کوئی بات نہیں کرتا۔ آج آمن کی آشا والے خاموش ہیں۔ آج بھی پی ٹی وی کا خبرنامہ دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ کیا یہ ایماندارانہ صحافت ہے۔ یقیناً ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ حقائق کو پیش کرنے اور پروپیگنڈا کرنے میں بنیادی فرق حقائق کو مناسب انداز میں پیش کرنے کا ہے۔
آج صحافت پیچیدہ ترین انداز سے مشکل کاموں کو آسان اور آسان کاموں کو مشکل کر دکھاتا ہے۔ پچھلے دنوں اس کی واضح مثال فلم مالک کی صورت میں سامنے آئی۔ اس فلم کے پہلے تین ہفتوں میں اس کا کوئی خاطر خواہ کاروبار نہیں رہا۔ پھر نجانے ہمارے سنسر بورڈ کو کیا سوجھی کہ پچھلے سرٹیفکیٹ کو کالعدم قرار دے کر نیا سرٹیفکیٹ جاری کیا اور اس فلم کی نمائش روک دی۔مارکیٹنگ کا اصول یہ ہے کہ ایسی سٹریٹجی بنائی جائے جو بالآخر کاروبار کے لیے فائدے کا باعث ہو۔دیکھا جائےتو یہ پابندی فلم کے نقصان کے بجائے فائدے کے لیے ہی ہے۔اب پورے میڈیا پر مالک مالک ہو رہی ہے۔ اب اگر کچھ دنوں کے بعد اس پر پابندی ہٹا لی جاتی ہے جس کے بہت زیادہ چانسز ہیں، تو یہ فلم اپنے عمومی منافع سے کئی گنا زیادہ کمائے گی۔ یہ صورت حال بالکل ایسے ہی ہے جیسے یوٹیوب پر گستاخانہ ویڈیو کے اپ لوڈ ہونے سے ہنگامے ہوئے تھے۔ پاکستان کی اکثریت آبادی کو اس ویڈیو کا علم نہیں تھا لیکن جب جلسے جلوس اور مظاہرے ہونے لگے تو اکثریتی طبقے نے اس کو دیکھنے کی تگ ودو کی۔
صحافت کو سرمایہ دارانہ شکنجوں سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔مارکیٹنگ یہ کہتی ہے کہ لوگ کسی چیز کو استعمال کرنے کا تب ہی سوچیں گے جب اس کے بارے میں جانتے ہونگے ۔کسی چیز کو آپ تب ہی جانیں گے جب وہ اس کا آپ کی زندگی میں کوئی نہ کوئی عمل درآمد ہوگا۔ اسی عمل درآمد کے لیے مارکیٹنگ مختلف ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ جیسے ٹی وی کمرشل، سائن بورڈ وغیرہ۔ لیکن بعض دفعہ کسی چیز کو غیر معمولی بڑھاوا دینے کے لیے انوکھے طریقے بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ جیسے چیز کو مخصوص سماجی، سیاسی، اخلاقی ، دیومالائی شناخت دے دینا۔ جس سے اس خاص شے کی اہمیت مخصوص تعلق کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ فلم مالک کو اسی تناظر میں دیکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔
اس فلم میں دکھایا جانے والا سین جس میں ایک سکیورٹی گارڈ سندھ کے ایک سیاسی وڈیرے کو اپنی گن سے قتل کر دیتا ہے۔ یہ سلمان تاثیر پر قاتلانہ حملے کی کھلی تمثیل ہے اور دوسری طرف سکیورٹی گارڈ کو جس طرح صراط مستقیم کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ سوال پوچھنے پر ہر کوئی حق بجانب ہوگا کہ کیا صحافت عوام میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے یا پھر سستے منافع کے لیے ملک و قوم کو داو ٔ پر لگا کر عوام کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی قوم کہلوانے کے لیے بنیادی ضروری خصوصیات طے کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ جب یہ مرحلہ طے ہوگا تب ہم بطور قوم اپنے مقام کے تعین کی ضرورت محسوس کریں گے۔ ہر آنے والا دن ہمارے لیے نئے مسائل اور نئے چیلنجز لاتا ہے۔ اس مسائل کا سامنے کے لیے ہمیں ہر بار وہی روایتی قضیوں کو ادھیڑنا اور اکھیڑنا پڑتا ہے جن کے حالات حاضرہ کے مطابق جوابات کو ہم قبول کرنے کو تیار نہیں اور جن جوابات کو ہم قبول کرنا چاہتے ہیں ، ہر لمحہ انہیں جھٹلانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسے حالات میں صحافت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دوسروں سے زیادہ ہونا چاہیے۔