( ثمرین غوری )
کبھی کبھی کسی نہ کسی ٹی و ی چینل پر (ز یا دہ تر مقا می) کو ئی ایسی ر پو ر ٹ چل ر ہی ہو تی ہے جس میں گور نمنٹ اسکو لو ں کی حا لتِ زا ر بتا ئی جا ر ہی ہو تی ہے ، ٹو ٹے فر نیچر ، بو سید ہ کلا س رو م ، تبا ہ حا ل بلڈنگ اور ز مین پر بیٹھے ہو ئے معصوم بچے جو اپنی پھٹی ہو ئی کتا بو ں اور نا مکمل کا پیو ں کو ہا تھ میں تھا مے معصوما نہ بے با کی سے کیمر ے کو د یکھ کر شو خیا ں کر ر ہے ہو تے ہیں۔ ۔ ۔ !
ٹی وی پر تو دور دراز علا قو ں یا گاوں کے سر کا ر ی اسکو لو ں کی حالتِ زار کی منظر کشی ہو جا تی ہےلیکن میں اپنے شہر کے ایسے سیکنڑوں اسکو لو ں کو د یکھ چکی ہو ں جہا ں تعلیم کے سا تھ ایسا ہی مذاق ہو ر ہا ہے، عجیب صور تحا ل ہے کہ کسی اسکو ل میں تو صر ف ایک استا د ہے اور کہیں د و سو طا لب علمو ں کے لئے ۳۵ سے ۴۰ استا د ہیں، جن میں سے آ ٹھ یا د س استا د آ تے ہیں با قی گھر پر آ رام کر تے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کیو نکہ سر کا ری نو کر ی اوپر سے ایجو کیشن میں کسی کو مل جا ئے تو اس کے وا رے نیا ر ہیں ، یا د ر ہے کہ سر کا ری اسکو لو ں کے اسا تذہ کا پے اسکیل سولہ ہزار سے شر و ع ہو کر سا ٹھ ہزا ر تک جا تا ہے بلکہ سینئر ہو نے پر اس سے بھی ذیا دہ۔ ۔ ۔ !
ا علیٰ تر ین عہدے دا رو ں سے لیکر نچلی سطح تک سر کا ری تعلیمی ادا رو ن کو مالِ غنمیت سمجھا جا تا ہے ، کیو نکہ اپنے بچے تو پرا ئیو ٹ اسکو لو ں میں پڑھتے ہیں ، سرکاری اسکو لو ں میں تو مزدو ر طبقے کے بچے پڑ ھتے ہیں ، جن کو معیا د ی تعلیم کی کو ضرو رت نہیں، بس نا م لکھنا آ نا چا ہیئے کیو نہ بڑ ے ہو کر ان کو مز دو ر ی ہی کرنی ہے۔ ۔ ۔ !
یہی ہے ہما را مجمو عی رو یہ جو سر کا ری تعلیم کی جا نب اسی بے حسی کا شکا ر ہے ، با لخصو ص غر یب کے بچو ں کے لئے تعلیم تو کسی کھا تے میں ہی نہیں، گو ر نمنٹ اسکو ل میں نو کر ی کے لئے ہر دو سرا شخص جا ن لڑا د یتا ہے، لیکن عمو عی حوا لے سے تعلیم کا معیا ر، ضر و رت اور اہمیت کس چڑ یا کا نا م ہے، معلو م نہیں، یہی و جہ ہے کہ گو رنمنٹ اسکو لو ں کی حا لتِ زا ر اور نا قص صو ر تحا ل کی و جہ ہے پا کستا ن میں ڈ ھا ئی کڑو ڑ بچے اسکو لو ں سے با ہر ہیں ، اگر صر ف سند ھ کی صورتحا ل کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو تجز یے اورسر وے کے بعد یہ حقیقت آ شکا رہو تی ہےکہ بلو چستا ن کے بعد سند ھ سب سے زیا دہ تعلیمی تبا ہی کا شکا ر ہے، پا نچ سے سو لہ سال کی اسکو ل جا نے کی عمرکے با رہملین بچو ں میں سے چھ ملین سے ذیا دہ اسکو ل نہیں جا تے اور یہ مجمو عی شرح چھپن فی صد بنتی ہے۔۔ ۔ ! کتنی خط نا ک صو رتحا ل ہے کہ ہم تعلیم سے بے نیا ز پو ر ی ایک نسل کو لے کر تر قی اور خوشحالی کی امید کیئے بیٹھے ہیں۔ ۔ ۔ !
بطورِ قوم ہما ری سمت کیا ہے؟کیو ں اپنے بچو ں کے لئے مفت اور لا ز می تعلیم کا فروغ ہما ر ی بنیا دی تر جیحا ت میں شامل نہیں؟ کیو نکہ آ ئینِ پا کستا ن میں د یا جا نے والا ہر شہر ی کوحکو مت کی جا نب سے مفت اور معیا ری لا ز می تعلم آ رٹیکل پچس اے کا قا نون بنے کے بعد بھی اپنی مو ثر اور مکمل عملد رآ مد گی کی را ہ تک ر ہا ہے، اگرچہ حکمرانو ں کی جا نب سے تعلیمی اہمر جنسی کا اعلا ن تو ہے کہ اب شعبے تعلیم کو جنگی بنیا دوں پر در ست کیا جا ئے گا لیکن یہ اعلا ن صرف اخبا ر کی ہیڈ لا ئن تک ہی ر ہتا ہے! عمومًا حکومتی سطح پر تعلیمی بجٹ کا رو نا رو یا جا تا ہےکہ صرف دو فیصد ہے لیکن کیا چار فی صد بجٹ ہو جا نے کے بعد بھی صور تحا ل میں کو ئی بہتر ی آ ئی؟ یا د ر ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیمی بجٹ کا ستر فی صد صرف تنخواوں کی مدَ میں خر چ ہو تا ہے، بد انتظامی، کرپشن اور سب سے بڑ ھ کر بد نیتی ہما رے نظا م کو کھا چکی ہے، تعلیمی شعبے کے زوال کا مطلب یہ ہے کہ بطورِ قوم ہم مجمو عی زوال کا شکا ر ہو چکے ہیں ، یہی و قت ہے جب خود فر یبی سے نکل کر ہر انسان، ہر شہر ی کو اپنا کر دار ادا کر نا پڑے گا۔ ۔ !
آ ئیں زرا دیکھیں ! ہما رے اپنے علا قے یا محلے کے سر کا ری اسکو ل کی کیا حا لا ت ہیں،کیا پڑ ھا یا جا ر ہا ہے، کیسا پڑھا یا جا ر ہا ہے، ایس ایم سی ( اسکو ل مینجمینٹ کمیٹی) کا حصہ بنیئں ، اسا تذہ سے تعلیم کی بہتری کے لئے تعا ون کر یں ، اپنے علا قے کے وہ بچے جو اسکو ل نہیں ، ان کا سر کا ری اسکو ل میں داخلہ کروانے میں مد د کر یں، سہولیات نہ ہو نے اور مسا ئل پر متعلقہ علا قے کے تعلیم سے وابستہ اعلی حکا م تک ر سا ئی حاصل کر یں، اپنے علا قے کے سر کا ری اسکو ل کی آنرشپ (ملکیت) میں اپنا حصہ ڈا لیں کیونکہ یہ اسکو ل ہما رے ٹیکس کے پیسو ں سے ہی چلتے ہیں، یہا ں ہما رے اور آپ کے بچے پڑھتے ہیں ، جنہو ں نے کل اس ملک کو چلا نا ہے اور اسی معا شر ے کا حصہ بنا ہے،آئیے تعلیم کی حالت پرصرف افسو س کر نے کے بجا ئے اس کی بہتر ی کے لئے اپنا کردار اداکریں ۔۔ آ خر میں تو جہ طلب ایک با ت ۔ کیا تعلیم کی یہ تبا ہ کن صور تحا ل ہما رے ٹیوی پرو گرا مو ں، ڈرا مو ں اور پرا ئم ٹا ئم میں پیش کیئے جا ئے والے لا حا صل اور صر ف سیا سی مو ضو ع کا احا طہ کرنے والے ٹا ک شو ز کا موضو ع بنی ہے اور کیا ہم یو ں ہی بے مقصد اپنے و سا ئل کو ضا ئع ہو تے د یکھتے ر ہیں گے؟