یاسر چٹھہ
(مشتری ہوشیار باش: زیرِ نظر تحریر اپنے طور پر
ایک ہلکے پُھلکے انداز میں لکھا گیا مزاحیہ کالم ہے۔ آپ صرف اور صرف اس صورت میں ذیل کے کالم کو پڑھنے کا خطرہ مُول لے سکتے ہیں:
۱۔ اگر آپ کے ڈاکٹر نے آپ کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نمک کھانا منع نہیں کیا،
۲۔ آپ پنجابی سٹیج ڈراموں کو مزاح کا اعلٰی شاہکار کہنے سے ہچکچاتے ہیں،
۳۔ آپ کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا کہ کس بات پر ہلکا سا مسکرانا ہوتا ہے،
۴۔ آپ کبھی فلم دیکھتے ہوئے فلم کے انٹرول کے بعد کچھ پاپ کارن کھاتے اور کچھ نیچے گراتے اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے یہ نہیں پوچھتے کہ ” یار، اس فلم کا ہیرو کون ہے؟”
اگر آپ مندرجہ بالا شرائط پر پورا اترتے ہیں تو پڑھنا شروع کیجئے، بسم اللہ! )
اب کے وقتوں میں ہم عاجز کو اس بات کے متعلق بحث نہیں کرنا کہ سفید رنگ کی ماہیت کیا ہے؛ آیا اس کا وجود کسی بھی اور رنگ کی غیر موجودگی سے جنم لیتا ہے، یا کوئی اور فلسفہ ہے، یا کوئی دیگر کہانی ہے۔ ایسی باتیں کرنے والے، ایسی باتوں پر نکتہ آفرینیاں کرتے رہیں گے۔ بخدا ہم ان کے روزگار پر لات نہیں مارنا چاہتے۔ آخر انسان ہیں، دل رکھتے ہیں۔
تاہم ہمیں اس وقت اگر کوئی دکھ لاحق ہے تو وہ ہماری سفید پوشی سے متعلق ہیں۔ عرض ہے کہ ہمارے پاس چند ایک جوڑے سفید کپڑوں کے ہیں۔ تعداد مت پوچھئے گا، ہم بتا نہیں پائیں گے؛ بھئی سو بھرم ہوتے ہیں سفید پوشی کے! بھرموں کے علاوہ ہمارا ذاتی مورال بھی تو ڈاؤن ہوسکتا ہے۔ آپ یہ تو جانتے ہی ہیں کہ وطن عزیز میں ہم اپنا سب کچھ بیچ کر بھی مورال کو بچاتے رہتے ہیں۔
مزید یہ کہ حضرت اسحاق ڈار (علیہ ٹیکس السلام) کو اگر کسی طور پتا چل گیا کہ ہمارے پاس کتنے سفید جوڑے ہیں تو وہ مزید کوئی نیا ٹیکس لگانے سے نہیں چُوکیں گے۔ کیونکہ ان کی سرکار میں جو پہنچیں، تو سبھی ٹیکس لگانے کی ترکیبیں ایک لمحے کی مار ٹھہریں۔ بھلا ان قبلہ الحاج و خواجہ کو کیا مشکل ہو نیا ٹیکس لگانے میں۔ ہر چیز کوئی پانامہ اسکینڈل کے ٹی او آرز ترتیب دینے جیسی گھمبیر تھوڑی ہی ہوتی ہے۔
ان جملوں کو پڑھتے ہوئے جن قارئین کی کچھ سانسیں ابھی باقی بچ چُکیں، اور وہ ابھی تک اپنی فیس بُک وال پر آئی ہوئی کسی “پُرکشش ویڈیو” کی طرف متوجہ نہیں ہوئے، جسے دیکھنے کے لالچ میں کئی بار بہت ساروں کی عزت اور دنیاوی بھرم کی لُٹیا ڈوبی، انہیں اب ہم اپنے مافی فی الضمیر کا شریک بناتے ہیں۔ بھیا کان ادھر کیجئے۔ کر لیئے۔ اچھا۔ بھیا، ہم واقعتًا بہت پریشان ہیں۔ اپنی سفید پوشی ہماری دو محبتوں کے بیچ ایسے پھنسی ہوئی ہے جیسے کسی کی ترقی کا نوٹیفیکیشن ہماری وفاقی وزارت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کی برق رفتار افسر شاہی کے ہاتھ اٹکا ہو۔
ابھی پچھلے ہی ہفتے کے دن سید پور گاؤں (اسلام آباد) کے قریب کے چائے مرکز، العروف “جنگل سپاٹ” میں قاسم یعقوب اور فیاض ندیم صاحبان کی علمی باتیں سنتے سنتے میرے ہونٹوں اور چائے کے کپ کی ٹائمنگ نا معقول ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چائے کی دو قیمتی چسکیاں بجائے اس کے میرے حلق میں جا کر جگر میں اترتیں، سیدھی میرے ایک سفید جوڑے کے کف پر آ بسیرا کیں۔ علمی باتوں کی محبت میں ارتکاز توجہ اتنا سا رہ گیا جتنا ہمارے ہاں کے آن لائن ریڈر کا ہوتا ہے۔ جو بازو جلا سو جلا، لیکن سفید قمیص پہ لگے داغ سرف ایکسل کے ہوتے ہوئے بھی اچھے نہیں ہوتے۔ پر حضور اب صرف کفِ افسوس مَلنے کے سِوا چارہ نا تھا۔ اب احتیاط کریں گے، واہے گُرو جی کی سوگند کھائی کہ اب اس چائے کے لئے ہونٹوں کی حوالات کی سلاخیں مضبوط اور بلند رکھی جائیں گی، اور مثبت فکر کے ساتھ گھر کو لوٹے۔
لیکن ابھی پانچ ہی دن گزرے تھے کہ آج پھر سفید جوڑے سے تن ڈھانپا ہوا تھا۔ قاسم صاحب نے کل کالج سے چھٹی کی ہوئی تھی۔ آج چائے کی پیالی پر ان کے گزرے کل کا انہیں “شو کاز” نوٹس دیا۔ اُن ظالم نے تو کل سارا دن ترجمے کی تھیوری کا خوب مطالعہ کیا تھا۔ جیا للچا اُٹھا کہ کچھ ہمیں بھی معلوم ہو۔
ہم نے اپنے سامنے پڑے چائے کے کپ، اپنے سفید لباس کی حاضری محسوس کر لینے کے باوجود ان کے کل کے حاصلِ مطالعہ سے ہمیں بھی نوازنے کی عرضی ڈال دی۔ گویا ہم خود ہی اپنی کھائی سوگند اور اپنے ہی وضع کردہ سیکیورٹی پروٹوکول کو بھلا دینے کے سزاوار ہوگئے۔ قاسم صاحب نے ترجمے کی متعلق تھیوریز کےاہم نکات سنانا شروع کئے۔ وہ نکاتِ مطالعہ سناتے نہیں تھکتے تھے تو ہم سنتے کب تھکنے والے تھے۔ گردُوں اگر امتحان لینے پر آمادہ تھا، تو ہم بھی مثل ذبیح اللہ ثابت قدم تھے۔
لیکن چائے ٹھنڈی کرنے کا گناہ بھی گوارہ نا تھا۔ اٹھایا اس جام کو جس میں یہ دِل جلی چائے موجود تھی۔ قاسم یعقوب ترجمے کی تھیوری کے مختلف اہم نکات پر بات کررہے تھے، کانوں اور سماعتوں کی سب پُونجی اُدھر، چائے کی پیالی کا سفر لبوں کی طرف! تو پھر کیا ہوا؟ ارتکازِ توجہ کے خلا میں ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ there’s many a slip between cup and lip اب کے سلپ کا بھی وہی حال ہوا جس طرح ہمارے کرکٹر حفیظ کے اس جگہ پر کیچ کا ہوتا ہے۔ اب کے بار بھی وہ سِرکی ہوئی چائے ہماری سفید قمیص سے ہمکنار ہوگئی۔ ایک اور داغ لگ گیا، ہمارا ایک اور جوڑا شب گزیدہ سحر کی مثل چائے گزیدہ ہوگیا۔ ایک اور سانحہ ہوگیا۔
علم کی محبت، جاننے کی لگن، چائے کی الفت اور سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کے اس تصورِ حیات و دنیا میں ہم آشُفتہ سروں کو ایک اور کاری ضرب لگی۔ اب ہم پریشان ہیں کہ محبتوں کا ساتھ دیں، یا سفید پوشی کی حفاظت کریں۔ ارتکاز توجہ کی بابت ہمارے اس ماہر نفسیات دوست کا وہ پُر اعتماد قول ہمارے اعتماد کو ہِلا کے رکھ دیتا ہے کہ انسان کے اندر کسی انٹیلیجنٹ مشین، یعنی کمپیوٹر کے مقابلے میں اس صلاحیت کا فقدان ہے کہ انسان کسی دیئے گے لمحے میں کار ہائے کثیر یعنی، multi-tasking، کرنے سے قاصر ہے۔ تو بس اب کے بعد جب آپ ہمارے کسی پہلے زمانے کے سفید اجلے جوڑوں پر چائے کے دھبے دیکھیں تو یہ ہماری مثال سے ہی یہ سبق سیکھ لیجئے گا کہ ہم آخر انسان ہی تو ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کمپیوٹر کے شریکِ عادت بننے کی کوشش میں کیا کچھ کر بیٹھتے ہیں۔