(ڈاکٹر عامر سعید)
آج کی دنیا سائنس کے کمالات اور ایجادات سے جگمگا رہی ہے، زندگے کے ہر شعبہ جیسے صحت، تعلیم، سفر، مواصلات وغیرہ میں نت نئی ٹیکنالوجی، مشینیں، آلات اس شعبہ میں پائے جانےوالے مسائل کو حل کرتے جارہے ہیں، دنیا کے ایک سے کونے کا سفر مہینوں سے کم ہو کر اب دنوں اور گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود شخص سے پلک جھپکتے میں ’آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‘ بات کی جاسکتی ہے۔ انٹرنیٹ سے دنیا کے ہر معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کے لئے کی بورڈ کے چند بٹن دبانا ہی کافی ہیں۔ مائیکروسکوپک مشینوں سے آپریشن کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر مرض کے لئے دوائیاں بن رہی ہیں۔ گھر بنانےکی لئے نت نئے میٹیریل اور طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ غرض مادی زندگی کے ہر شعبہ میں سائنس کے کرشماتی اثرات کسی آنکھ سے مستور نہیں ہیں۔
لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ بہت تکلیف دہ اور بھیانک ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی ڈھائی ڈالر روزانہ سے کم میں گزارا کرتی ہے اور سوا ارب سے زیادہ آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جس کی روزانہ آمدنی صرف سوا ڈالر ہے۔ یونیسیف کے مطابق ہر روز تقریباً 22000 افراد بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 805 ملین لوگوں کو کھانے کی کمی کا شکار ہیں۔ 750 ملین لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی بجلی کے بغیر زندگی گزاررہی ہے۔ 37 ملین لوگ ایڈز کا شکار ہیں۔ 2013 میں 63 لاکھ بچے قابل علاج امراض سے مر گئے۔ دنیا میں بے گھر لوگوں کی تعداد دس کروڑ ہے اور ڈیڑھ ارب لوگ کے پاس گھر کی سہولیات ناکافی ہیں۔ صرف بیسویں صدی میں 160 ملین افراد جنگوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، ذہنی بیماریں جیسے ڈیپریشن، اینگزائٹی، بلند فشارِ خون، شوگر، دل اور جگر کی بیماریاں عام ہیں ۔ prozac جو کہ انٹی ڈیپریسنٹ یعنی نشہ آور دوائی ہے امریکہ میں سب سے زیادہ بکنے والی دوائیوں میں سے ایک ہے۔ الغرض انسانیت سسک رہی ہے اور دنیا کی اکثریت روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم، روزگار، امن و امان جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوچکی ہے۔ دنیا کی آدھی دولت امیر ترین ایک فیصد سرمایہ داروں کی تجوریوں میں پڑی ہے اور غریب ترین لوگ اپنی اور اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پورا نہ ہونے کیوجہ سے اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں، قتل کر رہے ہیں، خود کشیاں کر رہے ہیں۔ دنیا میں تیار ہونے والا اسلحہ تمام دنیا کو کئی بار تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
تصویر کے دونوں رُخ بہت متضاد رنگ دکھا رہے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ جس میں مادی لحاظ سے تو دنیا شاید اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ انسانی معاملات بشمول بنیادی ضرورتوں کے حصول کے حوالے سے انسان تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ مادی دنیا کی ترقی سائنسی مضامین جیسے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ میں تحقیق اور ایجادات کی مرہونِ منت ہے۔ نیچرل سائنس کے اسی انقلاب کی پیروی کرتے ہوئے یورپ کے مفکرین نے اٹھارویں صدی میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ انسانی معاملات سے متعلقہ علوم بھی سائنسی ماڈل اور طریقوں کی پیروی کرتے ہوئے مرتب کرنے چاہیں چنانچہ سوشیالوجی ایک پہلے مضمون کے طور پر سامنے آئی اور بعد میں اُسکی فہرست میں پائے جانے والے دوسرے مندرجات ایک مکمل مضمون کی شکل اختیار کرگئے جیسے کہ اکنامکس، پولیٹیکل سائنس، انتھروپالوجی، سائیکالوجی، پبلک و بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ۔ ان مضامین کوsocial sciences )سماجی سائنسز) کا نام دیا گیا۔ لیکن ’فلاسفی آف سوشل سائنس‘ کتاب کے مصنف Robert C. Bishop جو خود فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں حیران کن طور پر انسانیت کی مندرجہ بالا ساری مشکلات کا سبب سوشل سائنسز کو قرار دیتے ہیں۔ یہ یقیناً ایک بہت بڑا اور حیران کن الزام ہے۔
بشپ کے اس الزام میں کتنی صداقت ہے اس امر کو جاننے کے لئے ہمیں یورپ کی تاریخ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور اُس تاریخی عمل کو سمجھنا ہوگا جس کے تحت سائنسی انقلاب آیا اور پھر دورِ تنویر (Enlightenment) آیا جس میں معاشرتی علوم کو سائنسی انداز سے پڑھنے اور ترقی دینے کا عمل شروع ہوا۔
یورپ کی تاریخ میں نشاۃِ ثانیہ کا دور ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے بہت سی دیگر معلومات دینے کے علاوہ اسکا مطالعہ ہمیں اس بات کا بھی اشارہ دیتا ہے کہ یورپ کی ایک نشاۃِ اولیٰ بھی تھی یعنی 500 سال قبلِ مسیح کا یونان جہاں مشہورِ عالم مفکرین و فلاسفہ ارسطو، سقراط، بقراط وغیرہ نے اپنے علم کے جھنڈے گاڑے ۔ یورپ اپنی تاریخ اس دور سے شروع کرتا ہے اور اپنی تاریخ کا زرّیں دور تصور کرتا ہے کیونکہ انکے نزدیک اس زمانہ میں پیدا ہونے والا علم تقریباً پندرہ صدیوں بعد نشاۃِ ثانیہ کا باعث بنا۔ ویسے کسی کو اس سوال کا بھی جواب دینا چاہیے کہ اگر نشاۃِ اولیٰ میں پیدا ہونے والا علم ہی یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد بنا تو پھر اس علم کے ہوتے ہوئے اس زرّیں دور کو خود زوال کیوں آیا؟
بہرحال مشہور ادب کے مطابق یہ یونانی علوم مسلمانوں نے یونانیوں سے لئے، ان کے تراجم کئے اور جب اسپین، سسلی اور شام کے علاقوں کے ذریعے مغرب اور مشرق کا رابطہ ہوا اور یورپی مفکرین چرچ کے ظلم سے بھاگتے، علم کی تلاش میں مسلمانوں کی یونیورسٹیوں میں آئے تو انہوں نے اپنے آباء کی کتب کو وہاں موجود پایا، چنانچہ باقی علوم کے ساتھ ساتھ یہ کتب بھی اُن کے زیرِ مطالعہ آئیں۔ Prof. Goerge Saliba نے اپنی کتاب ’ Islamic Science and making of European Renaissance میں تحقیق کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ مسلمان مفکرین ان علوم و کتب کے انتقال ہی کا ذریعہ نہیں بنے بلکہ اُنہوں نے ان کتب میں تحریر شدہ علوم کی بہت سی اغلاط درست کیں، بہت سے تھیورم کی اصلاح کی اور بہت سے نیا علم تحقیق کے بعد اُن میں شامل کیا۔ اور یہ بات بھی تاریخی کتب میں موجود ہے کہ مسلمانوں نے صرف یونانی ہی نہیں بلکہ ہندی، مصری تہذیبوں کی کتب کو بھی ترجمہ کیا اور اس سارے علم کی بنیاد پر پرانے علم میں بہت سے مفید اضافے کئے۔ پھر بعد میں وہ علوم یورپ پہنچے اور وہاں نشاۃِ ثانیہ کا سبب بنے۔ اس سارے موضوع پر جلد ہی ایک آرٹیکل قارئین کے لئے پیش کیا جائے گا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جس کو یورپ Dark Ages یعنی تاریک ادوار کا نام دیتا ہے جب چرچ (مذہبی پیشوا) اور بادشاہ کی ملی بھگت سے وہاں ظلم کا عظیم الشان بازار سجا ہوا تھا۔ زندگی کے ہر معاملات کے لئے قوانین کے وضع کرنے کا اختیار چرچ کے پاس تھا جو اپنے بنائے ہوئے قوانین کو خدا کے قانون کہہ کر نافذ کرتا تھا۔ مخالفین سے شدت پسندی سے نمٹا جاتا تھا انہیں تعذیب خانوں میں بند کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، مختصراً وہ تمام بدنامِ زمانہ اصطلاحات یعنی شدت پسندی، انتہا پسندی، بنیاد پرستی وغیرہ جو مسلمانوں پر آجکل چسپاں کردی گئی ہیں درحقیقت عیسائی چرچ کا خاصہ تھیں۔ انکا دین تو شاید ان برائیوں سے پاک تھا مگر یہ مذھبی ٹولہ اپنے مفادات کے لئے اللہ کی آیات سستے داموں بیچتا تھا۔ اس زمانے میں بائیبل صرف لاطینی زبان میں موجود تھی، اور نہ تو کسی کو اُس کا نسخہ رکھنے کی اجازت تھی اور نہ ہی لاطینی زبان سیکھنے کی۔
ان کے بنائے ہوئے قوانین کی دیگ کے ایک چاول سے آپ پوری دیگ کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بائبل کی کسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ قانون بنایا ہوا تھا کہ زمین اللہ کی ہے، چونکہ بادشاہ اللہ کا نائب ہے اور چرچ اللہ کے دین کو فی سبیل اللہ پھیلا رہا ہے اس لئے زمین کی ملکیت کا حق معاشرے میں ان دو فریقوں کو ہی حاصل ہے اور جس کسی کو بھی زمین چاہیے وہ ان سے کرایہ پر ہی حاصل کرسکتا ہے۔ چنانچہ گھر، دکان، کھیت، فیکٹری غرض ہر مقصد کے لئے زمین کرائے پر لینا ہوتی تھی جس سے عوام کے اخراجات میں بہت اضافہ ہوا اور وہ ظلم کے بوجھ تلے دب گئے۔ اسی طرح چرچ علم کا ٹھیکیدار تھا کیونکہ بقول اُسکے انکے پاس خدا کی کتاب تھی جس میں فطرتی اور معاشرتی ہر طرح کا علم ہے۔
چرچ کے اس محل کو پہلا دھکا گلیلیو کے اس نظریہ سے لگا (جو اُس نے مسلمانوں کی کتب سے سیکھا) کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے، جیسا کہ ان کا ایمان تھا۔ اس ایمان کی وجہ یہ تھی کہ یونانی دور کا ایک ماہرِ فلکیات اور حساب دان ٹولیمی ایک تھیورم کے ذریعے مختلف سیاروں کا محلِ وقوع جاننا چاہ رہا تھا لیکن ان تھیورم میں ایک غلطی کیوجہ سے نتیجہ یہ نکال بیٹھا کہ زمین جامد ہے اور سورج اُس کے گرد گھومتا ہے اس تصور کو ہیلیوسینٹزم کہا جاتا ہے۔ یہ تصور یونانی معاشرے میں عام ہوگیا اور حضرت عیسیٰؑ کی وفات کے بعد جب بائیبل مرتب کی گئی تو یہ تصور بھی بائیبل کا حصہ بن گیا غالباً اس لئے کہ اس ’حقیقت‘ کا بائیبل میں موجود ہونا اُسکی اہمیت میں اضافہ کا باعث ہوتا۔ چنانچہ یہ تصور چرچ کے ایمان کا حصہ بن گیا۔
بعد میں ایک مسلمان سائنس دان ناصرالدین طوسی(1201-1274) نے جب اس کا مطالعہ کیا تو اُسے اس میں غلطی نظر آئی، صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ایک اور ضمنی تھیورم ضروری تھا، چنانچہ ٹولیمی کی ترجمہ شدہ کتاب میں طوسی نے یہ تھیورم درج کیا اور جب اُس کے ذریعے اس تھیورم کو حل کیا گیا تو نتیجہ اُلٹ نکلا یعنی سورج جامد ہے اور زمین اور باقی سیارے اُس کے گرد گھومتے ہیں، ان نظریہ کو جیوسینٹرزم کہا جاتا ہے۔مغربی حوالوں کے مطابق اس تھیورم بنانے کا سہرا کُوپرنیکس کے سر ہے لیکن کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ (http://www.columbia.edu/~gas1/project/visions/case1/sci.1.html) پر موجود اس آرٹیکل کے مطابق تقریباً تین صدیاں پیشتر طوسی یہ کام سر انجام دے چکا تھا اور کوپرنیکس (1473-1543) کے پاس موجود طوسی کی تصحیح شدہ کتاب میں یہ بات درج تھی۔
گلیلیو (1564-1642)نے جب ریاضی کے اُس تھیورم کی تصحیح شدہ شکل یورپ کے ریاضی دانوں کو دکھائی تو انہوں نے اُس کو تسلیم کرلیا البتہ عوام میں اس بات کو کرنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوئی کیونکہ اس کا مطلب چرچ کے مصدقہ اور تسلیم شدہ علم کو جھٹلانا تھا۔ اور اُس زمانے میں چرچ کے خلاف کوئی بات کرنا انتہائی خطرناک بات تھی۔ تاہم آہستہ آہستہ یہ بات عوام میں بھی مشہور ہوگئی اور چرچ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ گلیلیو ’ارتداد‘ کی باتیں پھیلا رہا ہے بعد میں گلیلیو پر مقدمہ بنا اور پھر اُسکی مشکل سے خلاصی ہوئی۔
تاہم اس واقعہ نے چرچ کی غیر متزلزل علمی دھاک کو پہلی زک پہنچائی اور لوگوں کو پہلی بار اس بات کا اندازہ ہوا کہ چرچ کی کہی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ اُس وقت تک پرنٹنگ پریس کے ذریعے بائیبل اور لاطینی زبان کی گرائمر عام لوگوں تک پہنچ چکی تھی اور بائیبل کو خود پڑھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ کتنے ہی معاملات میں چرچ اپنی خواہشات کو خدا کا حکم بتا کر لوگوں پر ظلم کررہا ہے۔ چانچہ اس واقعہ سے چرچ کا طلسم ٹوٹنا شروع ہوا اور علم پر اُنکے بلاشرکتِ غیرے تسلط کا آہنی ہاتھ کمزور ہونا شروع ہوا۔
چرچ کے بےنقاب ہونے کے بعد یورپی معاشرہ دو طرح کے ردِ عمل پیدا ہوئے جن کی بنیاد پر دو مختلف گروہ پیدا ہوئے؛ ایک گروہ تو وہ تھا کہ جو چرچ پر قابض گروہ کی مکاریوں کو سمجھ گیا، انہوں نے خدا اور اُسکی تعلیمات کا انکار نہ کیا بلکہ چرچ کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا یہ لوگ پروٹسٹنٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اگلے کئی سو سال پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچ کے درمیان زبردست لڑائی جاری رہی۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو بائیبل میں درج ایک غلط سائنسی حقیقت کی بنا پر بائیبل کا مکمل منکر ہو کر خدا اور اُسکی تعلیمات سے ہی بیزار ہوگئے۔ انہوں نے خدا کے تصور کو شک کے نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا اور پھر بعد میں ایک سوچی سمجھی سیاسی منصوبے کے تحت ڈارون کی تھیوری کی سرپرستی کی جانے لگی (اگرچہ کچھ مسلمان مفکرین جیسے ابن خلدون اور شاہ ولی اللہؒ نے ارتقاء کے مفروضے کو تسلیم کیا ہے لیکن انہوں نے اُسے تخلیق کا ایک طریقہ گردانا ہے نا کہ نظریہِ تخلیق کا مخالف نظریہ) تاکہ انسان، فطرت اور کائنات کے وجود کے لئے خدا کے علاوہ ایک دوسرا سبب گھڑ لیا جائے۔ مشہور مغربی دانشور نیٹشے کا معروف قول کہ ’خدا مر چکا ہے‘ اسی مغربی تصور کی طرف ہی نشاندہی کرتا ہے۔ راقم کسی علیٰحدہ مضمون میں اس سیاسی اور سماجی حالات کا احاطہ کرے گا۔
چرچ کے دور میں علم کا منبع خدا یعنی خالق کو سمجھا جاتا تھا لیکن اُسکے تصور کو نکال باہر کرنے کے بعد یہ سوال اُبھرا کہ زندگی گزرانے کے لئے علم کہاں سے آئے گا؟ اور اُس کا منبع کیا اورکون ہوگا؟ گلیلیو کے واقعہ اور یونانی کتب کے مطالعہ سے یورپ کے مفکرین نے یہ اخذ کیا کہ انسان ہر طرح کا درست اور سچا علم پیدا کرنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ پہلی صلاحیت تو اُسکی پانچ حسّیات ہیں جو بعد میں سائنسی طریقہ علم کی بنیاد بنیں اور دوسری منطق و دلیل جو فلسفہ اور علم الحساب کی بنیاد ہے۔ اِسکے بعد انسان کو خدا کی جگہ علم کا منبع تسلیم کرلیا گیا، اس تصور کو ہیومنزم بھی کہا جاتا ہے۔
سائنسی طرزِ علم حسّی مشاہدات اور تجربات کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔ چنانچہ سائنس کا طریقہ ان اشیاء کے لئے نہایت موزوں ہے جو حسّیات کے دائرہ کار میں آتی ہیں جیسا کہ فطرت میں پائی جانے والی مادی اشیاء مثلاً ستارے، پتھر، جانور، پانی، آگ، مٹی، لوہا وغیرہ۔ سائنسی انقلاب بھی فطرتی یا مادی میدان میں آیا اور اس طریقے سے ان سے متعلقہ مضامین میں بہت سی ایجادات ہوئیں، نئے قوانین وضع کئے گئے جن کی حیثیت آفاقی قوانین کی بن گئی۔
جب چرچ کے ظالمانہ اور جابرانہ طرزِ حکومت کیوجہ سے مذہب بدنام ہوگیا اور خدا کے تصور پر تشکیک کے پردے پڑنے لگے تو لوگوں نے زندگی گزارنے کے لئے مذہب (عیسائیت) سے ہدایت لینی چھوڑ دی لیکن زندگی گزارنے کی لئے انسانی و معاشرتی علوم کی ضرورت تو تھی۔ مادی میدان میں تو سائنسی طریقہ علم نے سچا اور قابلِ تصدیق علم پیدا کرنا شروع کردیا اسلئے اُس زمانے کے مفکرین اور عالموں نے انسانی اور معاشرتی میدانوں میں بھی سائنسی طریقہ علم کو علم پیدا کرنے کے لئے آزمانے کا سوچا۔ یعنی پہلے کسی شے یا اشیاء کا مشاہدہ کیا جائے، پھر اُسکے یا اُنکے باہمی تعلقات کے بارے میں مفروضہ قائم کیا جائے، پھر مختلف تجربات کے ذریعے اُس مفروضے کی سچائی پرکھی جائے اور اُسکی سچائی ثابت ہونے پر اُسے عارضی قانون کا درجہ دے دیا جائے اور جب وہ مختلف زمان و مکان میں دہرائے جانے کے بعد ایک جیسے نتائج دے تو اُسے ایک آفاقی قانون کا درجہ دے دیا جائے۔
مادی اشیاء اپنے اندر چند مشترک خصوصیات رکھتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ انسانی حسّیات کے دائرہ کار میں ہیں یعنی اُن کو دیکھا، سنا، چکھا، سونگھا یا مس کیا جا سکتا ہے وہ بے جان ہیں یعنی وہ احساسات، خواہشات، جذبات، ارادہ، مقاصد اور سوچ نہیں رکھتیں، ان کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور تجربہ میں ضائع ہونے کی صورت میں کسی جان کا نقصان نہیں ہوتا۔ مختلف زمان و مکان میں ان اشیاء کی خصوصیات تبدیل نہیں ہوتیں۔ چنانچہ ان اشیاء کی حجم، وزن، رنگ، لمبائی، چوڑائی، سختی وغیرہ حسّیات اور مشاہدے سے جانی جاسکتی ہی جو محسوس کرنے کے بعد بھی وہی رہتی ہے الا یہ کہ ان پر کوئی بیرونی عنصر اثرانداز ہو۔ اسوجہ سے علم پیدا کرنے کے سائنسی طریقے نے مادی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے اور اسی کامیابی سے شہہ پا کر معاشرتی میدان میں بھی اس طریقہ سے علم پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔
لیکن یہ محققین و مفکرین بُغضِ مذہب میں یہ بات نظر انداز کرگئے کہ مادی اشیاء اور انسان و اُنکے معاشرے میں بُعدِ المشرقین ہے۔ انسان احساسات، خواہشات، جذبات، ارادہ، مقاصد، سوچ رکھتا ہے جو کہ محققین کی سمجھ اور علم سے بالاتر ہوسکتے ہیں۔ دوسرا انسان حسیات کے ذریعے ایک انسان کے ان تصورات کا احاطہ نہیں کر سکتا، پھر انسان میں یہ تصورات جامد نہیں ہیں بلکہ حالات اور وقت اور ماحول کی روشنی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ کسی انسان پر کئے گئے تجربات اُس کے لئے ذہنی و جسمانی تکالیف کا باعث ہوسکتے ہیں جو بے جان اشیاء میں نہیں ہوتا، دنیا میں پائے گئے مختلف ادوار اور علاقوں میں لوگوں کے افکار، عادات، رہن سہن کے طریقے نہ صرف مختلف ہوسکتے ہیں بلکہ متضاد بھی ہو سکتے ہیں۔ اسلئے یہ ضروری نہیں کہ ایک علاقے یا زمانے میں بننے والے قوانین دوسرے علاقوں اور لوگوں پر لاگو ہوسکیں۔ محقق کے اپنے چھپے مقاصد و عزائم ہوسکتے ہیں جو ان لوگوں کے مفاد کے خلاف ہوسکتے ہیں جن پر تحقیق کی جارہی ہے۔ خدانخواستہ کسی تجربے کے دوران کسی انسانی جان کے زیاں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ کسی انسان کے خیالات، ایمان، اخلاص، وطنیت، خوشی، غمی وغیرہ کی ’مقدار‘ کو کیسے ماپا جاسکتا ہے جبکہ نہ تو ان کی کوئی متفقہ آفاقی تعاریف موجود ہیں اور نہ ہی کوئی مناسب پیمانے، اس کے لئے اٹکل پچو اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ اسلئے نیچرل سائنسز کے طریقے اپنا کر سماجی علوم میں ’حتمی علم‘ کا حصول ناممکن ہے کیونکہ ان طریقوں کے ذریعے تو نیچرل سائنسر بھی حتمی علم کا دعویٰ نہیں کرتی۔ چنانچہ جب اس علم کی بنیاد پر مختلف پالیسیاں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سو فیصد فوائد کے حصول میں ناکام رہتی ہیں اور عوام الناس کے لئے رحمت کے بجائے زحمت کا باعث بن جاتی ہیں۔
اسکی ایک بہترین مثال ایکنامکس کا علم ہے۔ اس علم کو تخلیق کرتے ہوئے جہاں یہ فرض کیا گیا کہ انسان کی ایک ہی غیر متغیر تصویر ہے جسکے مطابق وہ ہر وقت اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مادی مفاد کے حصول میں کوشاں ہے۔ وہاں یہ بھی فرض کیا گیا کہ معاشی نظام بھی موسمی نظام کیطرف ایک فطری نظام ہے۔ اور جیسے موسمی فطرتی قوتیں درجہ حرارت کو قابلِ زندگی حدوں میں رکھنے کےلئے خود بخود حرکت میں آ جاتی ہیں مثلاً بہت زیادہ گرمی کی صورت میں ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے اور دوسرے علاقوں سے ٹھنڈی ہوا آنا شروع ہوجاتی ہے جو بادل بن کر برستی ہے اور موسم کی حدت کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کا فطری عمل زیادہ سردی کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشی نظام میں طلب و رسد کی قوتیں فطرت کی قوتیں کی مانند ہیں۔ کسی شے کی قیمت بڑھنے کی صورت میں اُس شے کی رسد بڑھ جاتی ہے اور قیمتیں کم ہو کر پرانی سطح پر آ جاتی ہیں اور اگر قیمت کم ہو جائے تو طلب بڑھ جاتی ہے رسد کم ہو جاتی ہے اور قیمتیں پھر پرانی سطح کے طرف چلنے لگتی ہیں۔
بہت خوبصورت تحریر, انگریزی سے اردو کی طرف علم کی ترسیل میں بڑا مسئلہ مشکل نویسی سے پرھیز ہے, اس مضمون کی سادہ اور رواں زبان تحصیل علم میں معاون ہے.