(معصوم رضوی)
جب ہم پاکستان کی خامیاں گناتے ہیں تو دراصل اپنی برائی کرتے ہیں، معاشرے اور اپنے ہی لوگوں کو کوس رہے ہوتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جو تصور سے بھی باہر ہے، ذرا ایک لمحے کیلئے ان لوگوں کا دکھ درد محسوس کریں جنہیں آزاد ملک کا باشندہ ہونے کی نعمت نصیب نہیں، پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قائدین، مشاہیر، گمنام ہیروز سمیت عوام کی بڑی قربانیاں شامل ہیں، مسلمان آگے تھے تو غیرمسلم بھی پیچھے نہ تھے، حتیٰ کہ چند غیر ملکی شخصیات تاریخ کا اہم حصہ ہیں، پاکستان کے ہیروز میں سے بعض کو تو سب جانتے ہیں اور مگر بعض شعوری یا لاشعوری طور پر فراموش کر دیئے گئے، آئیے ایک بار ماضی کے بھولے بسرے راستوں پر پھر چلتے ہیں
سب سے پہلے تذکرہ ایک ایسے نو مسلم یورپی کا جو پاکستان کی تاریخ کا نہ بھلانے والا کردار ہے، لیوپولڈ ویز، آسٹریا کے یہودی خاندان میں پیدا ہوئے، 26 سال کی عمر میں یورپ میں صحافت اور تحقیق کے حوالے سے شہرت حاصل کی، لیوپولڈ ویز نے 1926 میں اسلام قبول کیا، نام محمد اسد رکھا گیا، عبرانی، آرامی، پولش، جرمن، عربی، فارسی زبانوں پر عبور، دشت کی سیاحی میں لیبیا کے قائد حریت عمر مختار کے ساتھی رہے، سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز کے دست راست بنے، عرب سمیت ایشیائی ممالک کی دشت نوردی کرتے ہوئے 1932 میں ہندوستان آئے، علامہ اقبال سے دوستی اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا، بتایا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے مملکت خداداد کی پہلی شہریت محمد اسد کو عطا کی اور انہیں محکمہ اسلامی تعمیر نو کا سربراہ مقرر کیا
وزارت خارجہ میں محکمہ مشرق وسطیٰ کی سربراہی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا، متعدد کتابوں کے مصنف روڈ ٹو مکہ، اصول ریاست اور اسلامی حکومت، ہمارے قوانین اور 17 سال کاوش کے بعد قران مجید کا ترجمہ و تفسیر، جو یورپ میں آج بھی مقبول عام ہے، 1952 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے نیویارک گئے، کچھ مسائل کے بنا پر استعفی دیا، زندگی کے 66 سال عرب، ہندوستان، پاکستان اور تیونس میں گزرے، 1992 میں 92 سال کی عمر میں اسپین میں وفات پائی، شاید آج بہت کم پاکستانی علامہ محمد اسد سے واقف ہیں
سیاست کے میدان خارزار مین نوجوان محمد علی جناح کی انگلی تھامنے والے دادا جی نورو جی، اولڈ مین آف انڈیا، تعلق پارسی برادری سے، آل انڈیا کانگریس کے بانیوں میں شامل، برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے ایشیائی رکن، 1905 میں نوجوان وکیل کو کانگریس میں لائے، ایک سال بعد جب جماعت کی صدارت سنھالی تو محمد علی جناح کو اپنا سکریٹری مقرر کیا، سیاست میں بھرپور سرپرستی کے باعث قائد اعظم کی سیاست پر انکی گہری چھاپ نظر آتی ہے
جوگندر ناتھ منڈل، قائد اعظم کے منتخب کردہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون، دولت مشترکہ اور امور کشمیر کے وزیر بھی رہے، قائد اعظم اور قائد ملت کیساتھ کام کیا، محمد علی جناح کی رحلت کے بعد انتظامیہ کے امتیازی سلوک کے باعث دلبرداشتہ منڈل استعفے دیکر واپس بھارت چلے گئے، 1968 میں مشرقی بنگال کے شہر بنگائوں میں 64 سال کی عمر میں انتقال ہوا، پاکستان کے اولین قانون سازوں میں سے ایک تھے
سر محمد ظفر اللہ، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ، ریڈ کلف کمیشن کے سامنے پاکستان کا مقسمہ لڑا، 1947 سے 1954 تک اس عہدے پر فائز رہے، 54 سے 58 تک عالمی عدالت کے جج کے فرائض انجام دیئے اور 58 سے 61 تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب رہے، واحد پاکستانی جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت انصاف کے سربراہ رہے، پاکستانی خارجہ پالیسی کے معمار سر ظفر اللہ کا تعلق احمدی فرقے سے تھا، 1985 میں لاہور میں انتقال ہوا
چیف جسٹس اے آر کارنیلس، سپریم کورٹ کے چوتھے چیف جسٹس، 1960 سے 1968 تک عدالت عظمیٰ کی سربراہی کی، نہایت بے خوف، راست گو اور معبتر شخصیت، مولوی تمیز الدین کیس کا دوٹوک فیصلہ، ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف واحد اختلافی نوٹ جسٹس کارنیلس کی جرات کی مثال ہیں، 1973 کا آئین مرتب کرنے میں اہم کردار، اہم ترین بات یہ کہ جسٹس کارنیلس اسلامی فقہ اور شریعت پر سند سمجھے جاتے تھے
ایک اچھے منصف کیطرح ہمیشہ حکومت سے دور رہنے کو ترجیح دی، ساری عمر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے کمرے میں بسر کی اور 1991 میں 93 سال کی عمر میں اسی کمرے میں آخری سانسیں لیں، ایک اور بہترین منصف جسٹس دراب پٹیل، سپریم کورٹ کے جج اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جنرل ضیا کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے ملازمت چھوڑنے کو ترجیح دی، جبکہ انکے چیف جسٹس بننے کے امکانات روشن تھے، دوسرے پاکستانی جو انٹر نیشنل کمیشن فار جیورسٹس کیلئے منتخب ہوئے، کوئٹہ کی پارسی برادری سے تعلق، سپریم کورٹ سے استعفے کے بعد انسانی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد، 1997 میں کوئٹہ میں دنیا سے رخصت ہوئے، چیف جسٹس رانا بھگوان داس ماضی قریب کا کردار، با اصول، ایماندار منصف، پی سی اور کے تحت حلف سے انکار کے بعد نظر بندی جھیلی، مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جگہ تعینات ہوئے، مضبوط کردار کے باعث حکومت اور اپوزیشن کی چیف الیکشن کمشنر بنانے کی مشترکہ پیشکش مگر معذرت کر لی، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سربراہ رہے اور 2015 میں دنیا سے کوچ کیا، رانا بھگوان داس بہترین نعت گو شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں
معروف سائنسداں ڈاکٹرعبدالسلام، طبعیات میں 1979 میں نوبل انعام پانیوالے پہلے پاکستانی، 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد بطور احتجاج ملک چھوڑ دیا، اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس کی بنیاد رکھی، پاکستانی سائنسدانوں کیلئے بیرونی دنیا کے دروازے کھولے، اٹلی اور برطانیہ کی جانب سے شہریت کی پیشکش ٹھکرا کر پاکستانی رہنے کو ترجیح دی، 70 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے اور وصیت کے مطابق جائے پیدائش جھنگ میں تدفین ہوئی
مزید دو ایسی غیرملکی شخصیات جو ہم سے بہتر پاکستانی ثابت ہوئیں، جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فائو، 1962 مین جذام کے مریضوں کے علاج کیلئے میری اڈیلیٹ لپروسی سینٹر قائم کیا جو آج پاکستانیوں کی خدمت کر رہا ہے، ڈاکٹر رتھ فائو پچاس سالوں تک اس مشن میں مصروف رہیں اور 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک قرار دیا، ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی سسٹر گرٹروڈ لیمینز نے 1969 میں معذور بچوں کیلئے کراچی میں دارالسکون کے نام سے رفاحی ادارہ قائم کیا، جو آج بھی سماجی خدمات کے حوالے سے قابل فخر مثال ہے
یقینی طور پر ایک کالم ان شخصیات کا حق ادا بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس تحریر کا یہ مقصد ہے، انکے علاوہ بھی اور بہت سی ایسی ہستیاں ہیں جو آج ہماری حافظے میں کہیں موجود نہیں، اس تذکرے کا مقصد صرف تاریخ کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے، مجھے یقینی طور پر خوشی ہو گی اگر یہ مفروضہ غلط ثابت ہو کہ بیشتر پاکستانی ان شخصیات سے واقف نہیں یا پھر فراموش کر چکے ہیں
ماضی سے آنکھیں تو موندی جا سکتی ہیں مگر اس کو تبدیل کرنا ممکن نہیں، خواہ آپ کو پسند ہو یا نہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حال اور مستقبل کی عمارت بہرحال ماضی کی بنیادوں پر ہی کھڑی ہوتی ہے، بقول امجد اسلام امجد
یہ آج جو صورت ہے، حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم، دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی، سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے، ہم لوگ نہ تھے ایسے