صاحب، انداز تکلم ، اور عوام

صاحب، انداز تکلم ، اور عوام

از، اصغر بشیر

انسان اپنی زبان کے لحاظ سے مجبور ہے۔ اسے محدود زبان کے ذریعے لا محدود تصورات و خیالات کی ترسیل کرنا پڑتی ہے۔ اس مجبوری کا سامنا سامع اور مقرر دونوں کو کرنا پڑتا ہے۔اگر بولنے والا محدود الفاظ سے لامحدود تصورات کی نمائندگی کرتا ہے تو سننے والا بھی محدود کلام کے ذریعہ لامحدود معانی اخذ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس کی ہماری سیاست میں ضرورت نہیں ہےکیونکہ ہمارے سیاست دانوں کے پاس اپنے مخصوص مطالب کی وضاحت کےلیےمخصوص الفاظ و اشارات موجود ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سامعین نہ صرف ان کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں بلکہ ان کے پوشیدہ معنوں سے بھی جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف مہذب معاشروں میں بچوں کو زندگی کے دوسرے فنون سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں زبان کا مؤثر استعمال بھی سکھایا جاتا ہے کہ سڑک پر ٹیکسی والے سے کیسے بات کرنی ہے، گھر میں ماں باپ کو کس طرح مخاطب کر نا ہے، دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہوئے زبان کا کونسا پہلو استعمال کرنا ہے۔ لسانی تعلیم کا زیادہ تر حصہ غیرلسانی پہلو پر مشتمل ہوتا ہے جو بچے اپنے معاشرے اوربڑے لوگوں سے سیکھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم زبان کے مروجہ سیاسی لہجے کو برقرار رکھتے ہوئےآنے والی نسلوں کو مثبت پیغام دے پائیں گے؟

یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو لسانی تہذیب کی ایک روایت کے علم بردار بن کر ظاہر ہوتے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کے لیے زبان بہت بڑا ہتھیار بن جاتی ہے کہ جس کے ذریعہ من چاہا کام نکلوا یا جا سکتا ہے۔ ان کے سیاسی نمائندے بھی اس روایت کے علمبردار نظر آتے ہیں کیونکہ نمائندوں کی خوبی پوری قوم کی خوبی ہے اور نمائندوں کی خامی پوری قوم کی خامی ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے پاکستانی سیاست کی صورت حال کافی قابلِ افسوس نظر آتی ہے۔

پرنٹ جیسا روایتی میڈیا ہو یا پھر مین سٹریم الیکڑانک میڈیا ؛سوشل میڈیا ہو یا گلی محلے کے تبصرے ہر طرف ایک ہی طریقہ کار چل رہا ہے۔ جسے دیکھو وہ اپنے مخالف پر طعنہ زنی کر رہا ہے۔بغیر کسی ثبوت کے الزامات بلکہ مجرم تک ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ کسی کو خاندانی چور لٹیرا ثابت کیا جاتا ہے تو کسی کو یک جنبشِ قلم سے فراڈیہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار نے ہمارے اذہان کو اس طرح گھیر رکھا ہے کہ ہماری توجہ زندگی کے مسائل سے بالکل ہٹ کر آف شور کمپنیوں کی طرف بٹ چکی ہے۔

یہ بد زبانی کا رجحان حالیہ سالوں میں نئی نسل میں زیادہ پروان چڑ ھ رہا ہے ۔ ہمیں اپنا پیراڈائم پھر دوبارہ سے سیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاست کے نام پر کسی کو اپنے بڑوں سے بدتمیزی، بدکلامی اور بدتہذیبی کی اجازت دینا یقینا ًہماری روایات کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی ہے۔ آج اس سوال کو زیر بحث لانے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی گفتگو ایک طرح سے بدتمیزی اور بدکلامی کا فری ہینڈ بن گئی ہے۔ جس کو جب موقعہ ملتا ہے وہ اپنے رنگ میں اک نیا راگ الاپنا شروع کردیتا ہے۔ افسوس کی بات ہیں کہ ہم شارٹ کٹ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اتنا گر چکے ہیں کہ اب ہم اپنے سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مخالفین کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

انسانی زندگی کے معاملات بہت سادہ اصول پر چلتے ہیں۔ انسان دوسروں کودیکھ دیکھ کر سیکھتا ہے اور پھر اپنے ذہن کے مطابق دوسروں سے سیکھے ہوئے اصولوں کو اپنے کام کرنے اور نکلوانے کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ ظاہری بات ہے ایک بچہ اپنے بڑوں کو جو کرتا ہوا دیکھے گا وہ اسی کوٹھیک سمجھےگا جب تک کہ اسے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ یا طریقہ معلوم نہیں ہو جاتا۔ ایک عام شہری کے لیے اب یہ الفاظ اور ایسی زبان ایک عام سی بات ہے۔ ہم اتنے ابنارمل ہوچکے ہیں کہ نارمل انسان بیمار لگتا ہے۔ حکومت کے اراکین دوسروں کو روندتے ہیں تو موقعہ ملتے ہی مخالفین حکومت کے چیتھڑے ادھیڑنے لگ جاتے ہیں۔ اختلاف کا حق ہر ایک کو ہونا چاہیے مگر اداروں کا احترام بھی سب کے لیے اتنا ہی ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ معاشرتی زندگی کی اکائیوں میں بڑی تبدیلیاں معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔

اس سلسلہ میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ہمارے میڈیا کی پیشہ ورانہ قابلیتوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ان الفاظ اور ایسے واقعات کو سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔سیاسی شخصیات کو ایک سکرپٹ کے تحت ایک پروگرام میں بٹھایا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ کس وقت کس طرح کی ایکٹنگ کرنی ہے۔ جب یہ نمائندے ٹی وی کے سامنے آتے ہیں ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کےلیے پہلے چند لمحے تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں۔ پھر ارسطو کے ڈرامہ کی بتائی ہوئی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ ماحول بھڑکنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ زبان مہذبانہ لکنت کھو دیتی ہے ۔ بات آپ سے تو اور تو سے تم تک جا پہنچتی ہے۔ جو کبھی گالی گلوچ تو کبھی ہاتھا پائی پر جا کر ختم ہو تی ہے۔

کیا یہ لیڈر، جو اپنے منہ سے جھاگ نکلتی گفتگو سے لوگوں کے دلوں کو لبھاتے ہیں، پسند کریں گے کہ ان کے چاہنے والے ان کے دفاتر اور ریاستی اداروں میں جا کر وہاں کے عملہ سے وہی سلوک کریں جو کہ وہ اپنے حریفوں سے کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو یقیناً ان لوگوں کو اپنا انداز ِ بیان بدلنا ہوگا ۔کیونکہ ایک عام آدمی بھی زندگی کے مسائل کو اپنے سیاسی لیڈروں کی طرح حل کرنا چاہتا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے لیڈر کو بلا گھماتا دیکھتا ہے تو وہ بھی چاہے گا کہ جب وہ اپنے بچے کوہسپتال میں علاج کروانے جائے تو ایک عدد بلا ساتھ لے کر جائے تاکہ جب کبھی، اور جہاں کہیں اس کی ضرورت ہو اس کو استعمال کر سکے۔ ایک عام آدمی بھی مسائل کو حل کرنے کے وہی طریقے اپناتا ہو تا ہے جو کہ اس کا لیڈر اپناتا ہے۔ ہمارے لیڈران کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دلیل کا جواب دلیل ہوتا ہے ؛گالی نہیں۔